پانی کی خرید وفروخت کے احکام

پانی کی خرید وفروخت کے احکام

اسلام وعلیکم ورحمۃ ﷲ و برکاتہ…
امید ہے مجازِ گرامی بخیر و عافیت سے ہونگے…

ایک سوال یہ تھا کہ..
پانی کا کاروبار کرنا کیسا ؟؟
جواب عنایت فرمائیں..

سائل : مومن کامل حسین
مالیگاؤں

الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الحمدللہ

جو پانی اپنی ملکیت میں ہو، اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے: ”وہ پانی جس کو گھڑوں، مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کردیا گیا ہو اس کو بغیر اجازتِ مالک کوئی شخص صَرف(استعمال) میں نہیں لاسکتا اور اس پانی کو اس کا مالک بیع(بیچ)بھی کرسکتا ہے۔“(بہارِ شریعت،3/667)

📚عام طور پر بوتل یا کولرس وغیرہ جس میں پانی دیا جاتا ہے وہ خود ایک پیمانہ ہوتا ہے اوروہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کتنا پانی ہے.. البتہ کبھی بوتل کتنے لیٹر کی ہے یہ معلوم نہیں ہوتا لیکن بوتل ہمارے سامنے ہی ہوتی ہے اور یہ پتا ہوتا ہے کہ اس بوتل میں ہم نے خریدا ہے تو یہاں بوتل خود ایک پیمانہ ہے اور ابہام یہاں موجود نہیں ہے لہٰذا اس طرح خرید و فروخت جائز ہے۔ بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر یہ کہہ دیا کہ مہینے میں اتنی مشکیں پلاؤ اور مشک معلوم ہے تو جائز ہے۔“(بہارِ شریعت،2/698)

کسی شخص کا اپنی ملکیت کے سرکاری نل، بورنگ، کنویں وغیرہ کے پانی کو بوتل یا جار وغیرہ میں بھر کر یا مشین کے ذریعہ فلٹر کرکے بیچنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

البتہ ایسا پانی جو کسی شخص نے برتن وغیرہ میں جمع نہ کیا ہو، بلکہ وہ قدرتی طور پر بہہ رہا ہو، جیسے دریا یا چشمہ کا بہتا ہوا پانی اس کا فروخت کرنا ممنوع ہے، کیونکہ اس صورت میں وہ پانی فروخت کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ اس میں تمام مسلمان شریک ہیں۔

عن أبي بکر بن عبداﷲ بن مریم عن المشیخۃ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن بیع الماء إلا ما حمل منہ، وقال: وعلی ہذا مضت العادۃ في الأمصار ببیع الماء في الروایا والحطب والکلاء من غیر نکیر۔ (إعلاء السنن، باب بیع الماء والکلاء،)

فإذا أخذہ وجعلہ في جرۃ، أو ما شبہہا من الأوعیۃ فقد أحرزہ، فصار أحق بہ، فیجوز بیعہ، فالتصرف فیہ … لا یجوز بیع الماء في بئرہ ونہرہ ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۳/۱۲۱)

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

محمدرضا مرکزی
خادم التدریس والافتا
الجامعۃ القادریہ نجم العلوم مالیگاؤں

Leave a Reply