مزار وغیرہ پاک چیزوں کا غسالہ پاک اور غیر مستعمل ہے

مزار وغیرہ پاک چیزوں کا غسالہ پاک اور غیر مستعمل ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

کیا کسی مزار کے دھوون (غسالہ) کو پینا جائز ہے جو کہ ماءِ مستعمل ہوتا ہے بینوا توجروا۔

سائل : محمد سالم قادری ممبرا

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ

الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

مزار کا غسالہ پاک ہے اس کے پینے میں کوئی حرج نہیں مگر یہ کہ نجاست سے اختلاط نہ ہو ورنہ ناپاک ہوجاے گا ۔

مزار کے غسل کا پانی مستعمل نہیں ہوتا کہ مستعمل ہونے کیلئے دو امروں ازالہ حدث یا استعمال فی البدن علی وجہ القربۃ سے ایک کا ہونا ضروری ہے اور مزار کے غسالہ میں ان میں سے کوئی بات نہیں پائی جا سکتی ۔

ہدایہ میں ہے "ﻭاﻟﻤﺎء اﻟﻤﺴﺘﻌﻤﻞ ﻫﻮ ﻣﺎء ﺃﺯﻳﻞ ﺑﻪ ﺣﺪﺙ ﺃﻭ اﺳﺘﻌﻤﻞ ﻓﻲ اﻟﺒﺪﻥ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ اﻟﻘﺮﺑﺔ”

(ج١،ص٢٣)

فتاوی رضویہ میں ہے "کوئی پاک کپڑا وغیرہ دھویا۔ کسی جانور یا نابالغ بچّے کو نہلایا اور ان کے بدن پر نجاست نہ تھی اگرچہ وہ جانور غیر ماکول اللحم ہو جیسے بلّی یا چوہا حتی کہ مذہب راجح میں کُتّا بھی جبکہ پانی اُن کے لعاب سے جُدارہا اگرچہ نہلانا ان کے دفع مرض یا شدت گرما میں ٹھنڈ پہنچانے کو بہ نیت ثواب ہو مستعمل نہ ہوگا ۔

اقول کپڑا برتن جانور اور ان کے امثال تو بدن انسان کی قید سے خارج ہوئے اور نابالغ کو نہلانا مثل وضوئے تعلیم خود قربت نہیں کہ بچّوں کے نہلانے کا کوئی خاص حکم شرع میں نہ آیا ہاں انہیں بلکہ ہر مسلمان وجاندار کو نفع وآرام پہنچانے کی ترغیب ہے یہ امور عادیہ اُس حکم کی نیت سے کلیہ محمودہ کے نیچے آکر قربت ہوسکتے ہیں مگر موجب استعمال وہی فعل ہے جو بذاتِ خود قربت ومطلوب شرع ہو”

(ج٢، ص٤٦)

یہی حکم ہر پاک چیز کے دھوون کا ہے۔

واللہ تعالی اعلم

 مفتی شان محمد المصباحی القادری

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

٧اکتوبر٢٠١٨

Leave a Reply