آن لائن تجارت کے جواز و عدم جواز کی صورت
مفتی محمد ارشد حسین الفیضی الامجدی
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی حجاب کی دکان ہے اور حسن موبائل سے آنلائن حجاب کو فروخت کرتا ہے زید نے حسن کے موبائل میں حجاب کے فوٹو ڈالے اور حسن نے اپنی آن لائن کی دکان پر لگا لئے۔
زید نے حسن کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ آپ ہمارے مال کے فوٹو لگا سکتے ہیں ، اور آپ کے پاس اگر کوئی آرڈر آتا ہے تو آپ ہمیں بتائیں ہم اس کے آرڈر کو آپ کے بتائے ہوئے ایڈریس پر بھیج دیں گے۔
اب اگر حسن نے زید کی کوئی چیز جس کی قیمت دوسو روپیے ہے اس کی فوٹو اپنی سائٹ پر لگا لی اور اس کی قیمت پانچ سو روپیے لکھ دی(حالانکہ حسن نے زید سے وہ چیز خریدی نہیں، چیز کا مالک زید ہی ہے)
گاہک نے حسن کو پانچ سو روپیے دیکر آرڈر کر دیا۔۔۔
اب حسن نے زید کو کہا کہ فلاں ایڈریس پر چیز بھجدیں اور اسنے زید کو دوسو روپیے ديدئے اور باقی کے تین سو روپیے اپنے پاس ہی رکھ لئے جو باقی کے تین سو روپیے ہیں اُس کے بارے میں زید کو کچھ مطلب نہیں ہے
زید کو صرف اُس کے دوسو روپے چاہئے زید اور حسن کے بیچ کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوئی.
لیکن زید کو یہ معلوم ہے کہ حسن یہ کام کر رہا ہے تو کیا حسن اس طرح سے پیسے کما سکتا ہے، حسن نے اس طرح جو پیسے کمائے کیا وہ جائز ہیں؟ حضرت رہنمائی فرمائیں
المستفتی:عبد الواحد احمد آباد گجرات
الجواب بعون الملک الوہاب
سوال میں مذکور طریقۂ خرید و فروخت باطل وفاسد اور گناہ ہے وجہ یہ کہ حسن ایسی چیز فروخت کر رہا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے جبکہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو اس کا بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہے.
بدائع الصنائع میں ہے”شرط انعقاد البیع للبائع ان یکون مملوکا للبائع عند البیع فان لم یکن لاینعقد وان ملکہ بعد ذلک بوجہ من الوجوہ الا السلم خاصۃ وھذا بیع ما لیس عندہ ونھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع مالیس عند الإنسان”اھ(ج٦ص٥٦٨، کتاب البیوع،فصل فیما یرجع الی المعقود علیہ”دارالکتب علمیہ بیروت لبنان)
اور اگر حسن شراء وغیرہ کے ذریعہ ان اشیاء کا مالک ہو بھی جائے تو بھی اس کا اس طرح فروخت کرنا جائز نہیں بلکہ فاسد ہوگا کہ قابل انتقال سامان کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کرنے سے قبل(پہلے) بیچنا ناجائز وفاسد ہے.
حدیث شریف میں ہے”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ابتاع طعاما فلایبعہ حتی یقبضہ قال ابن عباس واحسب کل شیئ بمنزلۃ الطعام”اھ (صحیح مسلم ج٢ص٥، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض)
اس حدیث کے تحت علامہ اجل امام نواوی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں” قال أبوحنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ لایجوز فی کل شئی الا العقار”اھ(شرح مسلم للنواوی ج٢ص٥، کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا”فاذا اشتریت بیعاً فلاتبعہ حتی تقبضہ”اھ(مسند احمد مترجم ج٦ص٣٥٦، مسند حکیم بن حزام، الحدیث:١٥٣٩٠)یعنی جب کوئی چیز خریدا کرو تو اسے اس وقت تک آگے نہ بیچا کرو جب تک اس پر قبضہ نہ کرلو.
ھدایہ میں ہے”من اشتری شیئا مما ینقل ویحول لم یجز لہ بیعہ حتی یقبضہ لانہ علیہ الصلاۃ والسلام نھی عن بیع مالم یقبض” اھ (ج٣ص٥٨،کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، فصل)
تبیین الحقائق میں ہے”قال رحمہ اللہ! لابیع المنقول ای لایجوز بیع المنقول قبل القبض لما روینا وان فیہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الھلاک قبل القبض”اھ(ج٤ص٨٠، کتاب البیوع، باب التولیۃ، فصل، بولاق مصر المحمیۃ)
ان ارشادات مبارکہ اور جزئیات فقہیہ سے واضح ہوا کہ آج کل آنلائن تجارت کا جو طریقہ رائج ہے کہ ایک آدمی سامان خریدتا ہے اور اس پر قبضہ سے پہلے ہی کسی اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہے یہ ناجائز وفاسد ہے اور اس طرح کا حاصل شدہ منافع ملک خبیث ہے جس کا حکم تصدق (یعنی صدقہ کردینا) ہے.
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حسن سامان کا آرڈر لے کر پہلے اپنے پاس منگائے پھر خریدار تک پہنچائے تو تعاطی کے طور پر یہ بیع درست ہوجائے گی.
فیصلہ جات شرعی کونسل آف انڈیا بریلی شریف میں ہے(١)اس پر سب کا اتفاق ہےکہ انٹرنیٹ اور فیکس کے ذریعہ عقد بیع ہو تو شرعاً بیع منعقد ہوجائے گی.
(٢)بذریعہ فون یا موبائل بیع وشراء سے متعلق گفتگو معاہدہ ہے ہاں بطور تعاطی یہ بیع درست ہوگی جب ایک فریق نے مال یا دام دوسرے فریق کے پاس بھیج دیا اور دوسرے نے لے لیا”اھ(بحوالہ شرعی کونسل ایپ. دوسرا سالانہ فقہی سیمینار)
اور جواز کی دوسری صورت یہ بن سکتی ہے کہ حسن زید کی جانب سے وکیل بالبیع بن جائے اور اس کے لئے وہ چیز فروخت کرے جبکہ اپنے لیے کمیشن یا متعین اجرت کا معاہدہ کرلے تو یہ صورت بھی جائز ہوگی. وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب.
کتبہ:محمد ارشد حسین الفیضی
١٧/صفر المظفر١٤٤٥ھ