ملازمت کے لئے رشوت دینے کا حکم کیا ہے ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ملازمت کے لئے رشوت دینے کا حکم کیا ہے ؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں
سائل:محمد عامر کشی نگر یوپی
وَعَــــلَيْـــكُم الـــسَّـــلَام وَرَحْـــــمَــةُ اَللهِ وَبَـــــرَكاتُــــــهُ
الجواب بعون الملک الوھاب :
کنز العمال میں ہے:”الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار ،، رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں۔
(الفصل الثالث فی الہدیۃ والرشوۃ، مبطوعہ مؤ سسۃ الرسالۃ بیروت ٦/١١٣)
رشوت لینا تو بہر صورت حرام ہے، لیکن رشوت دینا چند صورتوں میں جائز ہے، جیسا کہ الفتاوی الندیۃ فی الفرق بین الرشوۃ والھدیۃ میں ابن اثیر کے قول کو نقل کیاہے:
أن الرشوة التي يتوصل بها المرء إلى حقه أو لدفع ظلم أو ضرر جائزة عند الجمهور ويكون الإثم على المرتشي دون الراشي؛ ولكن يشترط هنا أن تتعين وسيلة إلى أخذ الحق أو دفع الضرر، فإن أمكن الوصول إلى الحق بدونها أو دفع الضرر بدونها فإنها لا تجوز ۔
قال ابن الأثير: فأما ما يعطى توصلا إلى أخذ حق أو دفع ظلم فغير داخل فيه، وروي أن ابن مسعود أخذ بأرض الحبشة في شيء فأعطى دينارين حتى خلي سبيله، وروي عن جماعة من أئمة التابعين أنهم قالوا: لا بأس أن يصانع الرجل عن نفسه وماله، إذا خاف الظلم. انتهى ۔
( الفصل الثانی ما جاء فی کتاب السنۃ والفقہ، ص۳۴۰-۳۴۱-مرقاۃ ج 7 ص 295، تحفۃ الاحوذی ج4 ص 565.)
مذکورہ بالا عبارت کی روشنی میں صورت مسئولہ کی دو صورتیں بن سکتی ہیں :
پہلی: جو رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنا چاہتا ہے وہی اس نوکری کا سب سے زیادہ حق دار ہے،اگر رشوت نہ دیا تو غیر اہل رشوت دے کر نوکری حاصل کرلے گا ۔
دوسری : اس کے مقابل اور لوگ بھی ہیں لیکن کوئی بھی بغیر رشوت کے نوکری حاصل نہیں کر سکتا ۔
پہلی صورت میں رشوت دے کر حق حاصل کرنا جائز ہے، جب کہ رشوت کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ ہو، اگرچہ لینے والے نے حرام کام کیا، لیکن دوسری صورت میں تقوی یہ ہے کہ رشوت نہ دے ۔
ان سب جزئیات سے معلوم ہوا کہ مستحق اپنے حق کو لینے کے لیے رشوت دے سکتا ہے اور یہ فعل اس کے حق میں جائز ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی بلال مصباحی
کتبــــــــــــــــــــــــــــہ
۹/ربیع الاول ۱۴۴۳ھ