نکاح پر نکاح کرنا یا کرانا کیسا ہے؟ از مفتی محمد ارشاد رضا علیمی

نکاح پر نکاح کرنا یا کرانا کیسا ہے؟

السلام علیکُم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام نکاح پر نکاح کرنا یا کرانا کیسا ہے ۔ زید ایک لڑکی کے ساتھ لڑکی کے نانا کی اجازت سے اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرتا ہے ۔ بعد میں کچھ رشتے دار آکر لڑکی کو اپنے دباؤ میں لے لیتے ہیں اور جبرا طلاق لیے بغیر لڑکی کانکاح دوسرے لڑکے کے ساتھ کروا دیتے ہیں جبکہ زید بار بار یہ کہ رہا ہے کہ لڑکی میرے نکاح میں ہے اور زید نے نکاح کی سند بھی سب کو دکھائی ہے ۔ اب قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس نکاح کا کیا حکم ہے ۔ اور جن لوگوں نے اسکو جائز سمجھ کر اس میں شریک ہوے ان کے لے کیا حکم ہے ۔ یاد رہے کہ لڑکی کی رخصتی بھی ہو چکی ہے اور اسکے ساتھ وہ دوسرا شوہر ہمبستری بھی کر رہا ہے ۔ ضرور جواب عنایت فرمائیں ۔

سائل محمد ریاض جمولہ راجوری جموں وکشمیر ۔

باسمه تعالى وتقدس

الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب

جس عورت کا شوہر زندہ ہے اور وہ اسکے نکاح میں ہے یا شوہر نے اسے طلاق دیدی ہے اور وہ عدت گزار رہی ہے تو بغیر طلاق اور بغیر تکمیل عدت کے اسکا کسی دوسرےشخص سے نکاح کرنا حرام ہے،اللہ رب العزت فرماتا ہے "والمحصنت من النساء”(سورة النساء:آیت:24)

صورت مسؤلہ میں جس نکاح کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہرگز نہ ہوا بلکہ محض زنا ہے ۔ سوال میں مذکور ہے کہ جس شخص سے دوسرا نکاح ہوا وہ ہمبستری بھی کررہا ہے یہ حرام اشد حرام ہے ۔ اس پر لازم ہے کہ وہ منکوحہ زید کو فورا الگ کردے ۔ اور اس عورت پر بھی لازم ہے کہ وہ دوسرے شخص سے الگ ہوجائے ۔

اب اگر اس کو یہ معلوم نہ رہا ہو کہ یہ لڑکی کسی کے نکاح میں ہے تو اس لڑکی پر عدت لازم ہے ۔ عدت سے پہلے اس کا اصلی شوہر ہمبستری نہیں کرسکتا ۔ اور اگر یہ جانتے ہوئے کہ یہ لڑکی کسی کے نکاح میں ہے اس نے نکاح اور ہمبستری کی ہو تو لڑکی پر کوئی عدت نہیں ہے ۔ منکوحہ زید کا نکاح دوسری جگہ کروانے میں جتنے لوگ بھی شریک ہیں سب کے سب فاسق وفاجر، زنا کا دروازہ کھولنے والے ظالم وجابر حرام کبیرہ کے مرتکب مستحق غضب جبار وعذاب نار ہیں ۔

ان پر لازم ہے کہ اپنی اس بری حرکت پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے صدق دل سے علانیہ توبہ واستغفار کریں ۔ اور آئندہ ایسی حرکتوں سے بچنے کا اللہ رب العزت سے پختہ عہد کریں ۔ اور اگر یہ لوگ احکام شریعہ پر عمل پیرا نہیں ہوتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کا بائیکاٹ کریں نہ تو ان کے ساتھ کھائیں پئیں اور نہ نشست وبرخاست رکھیں،لیکن اگر ان لوگوں نے مذکورہ نکاح حلال جانتے ہوئے کروایا ہے تو یہ کفر ہے ان پر لازم ہے کہ علانیہ توبہ واستغفار کریں اور احتیاطا تجدید اسلام وتجدید نکاح بھی کریں،

بدائع الصنائع میں ہے”ومنها أن لا تكون منكوحة الغير لقوله تعالى والمحصنت من النساء معطوفا على قوله عزوجل حرمت عليكم أمهاتكم الى قوله والمحصنت من النساء وهن ذوات الازواج”

(ج2 ص268 المكتبة الشيعية)

اور رد المحتار میں ہے”أما منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة ان علم أنها للغير لأنه لم يقل بجوازه أحد فلم ينعقد أصلا ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما فى القنية وغيرها”

(ج3 ص145 المكتبة الشيعية)

اور فتاوی عالمگیری میں ہے

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذالك المعتدة،كذا في السراج الوهاج،سواء كانت العدةعن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح،كذا في البدائع.ولو تزوج بمنكوحة الغيروهو لايعلم أنها منكوحةالغير،فوطئھا؛تجب العدة،وان كان يعلم أنها منكوحةالغير لاتجب،حتى لايحرم على الزوج وطؤها،كذا في فتاوى قاضي خان ۔

(ج1 ص280 المكتبة الشاملةالحديثة)

اور اعلحضرت امام اہلسنت رحمه الله تعالى اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں”یہ نکاح نہ ہوئے محض زنا ہوئے  ۔

قال اللہ تعالی والمحصنت من النساء ۔ اب جس کے پاس ہے اس پر فرض قطعی ہے کہ عورت کو اپنے پاس سے جدا کردے اور نکال دے اور عورت پر فرض قطعی ہے کہ اس سے جدا ہوجائے اپنے خاوند عمر کے پاس آئے اور یہ روپیہ کہ زید نے بکر اور اس شخص ثالث سے لیا بالکل حرام قطعی اور رشوت بلکہ زنا کی خرچی تھا زید پر فرض ہے کہ یہ روپیہ جس جس سے لیا ہے اسے واپس کرے زید اور وہ شخص ثالث اور وہ عورت تینوں میں سے جو شخص ان احکام کی تعمیل نہ کرے مسلمان اسے اپنی صحبت سے نکال دیں اور اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا ترک کریں ۔

قال اللہ تعالی واما ینسینك الشيطان فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين”

(فتاوی رضویہ ج5 ص 220)

اور حضور صدر الشریعہ رحمہ اللہ تعالی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب کے تحت تحریر فرماتے ہیں”جس عورت کا شوہر زندہ ہے اور طلاق نہیں ہوئی ہے،اس کا نکاح نہیں ہوسکتا،اللہ عزوجل فرماتا ہے،والمحصنت من النساء،یہ لوگ سخت حرام کے مرتکب ہوئے اور اگر اس حرام کو حلال بنانا چاہا تو کفر ہے،ان لوگوں پر توبہ لازم اور احوط یہ کہ تجدید اسلام وتجدید نکاح کریں،اور ان سے میل جول اور ان کی تقریبوں میں شرکت نہ کی جائے،جب تک توبہ نہ کرلیں”

(فتاوی امجدیہ ج2 ص58)

والله تعالى اعلم بالصواب.

کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ خادم دارالعلوم نظامیہ نیروجال راجوری

جموں وکشمیر۔20/صفر المظفر مطابق 28/ستمبر 2021ء۔

الجواب صحيح
محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی

Leave a Reply

%d bloggers like this: