نکاح میں اردو زبان کے فعل حال کے استعمال کی صورت میں نکاح ہوگا یا نہیں؟

نکاح میں اردو زبان کے فعل حال کے استعمال کی صورت میں نکاح ہوگا یا نہیں؟

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع اہل سنت والجماعت مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
نکاح خواں نے نکاح پڑھاتے وقت ایجاب کے لئے اردو زبان کے حال کا صیغہ (قبول کرتے ہو) استعمال کیا اور نوشہ نے بھی قبول بصیغہ حال (قبول کرتا ہوں)کیا پھر نکاح خواں نے نوشہ سے عربی زبان کا لفظ قبلت کہنے کے لیے کہا اور نوشہ نے لفظ قبلت دوہرا دیا جبکہ دو بارہ ایجاب صیغہ ماضی کے ساتھ نہیں ہوا نہ اردو زبان میں اور نہ ہی عربی زبان میں ۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس صورت میں نکاح درست ہوگا یا نہیں؟

کتاب وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر بارگاہ الٰہی میں مستحق اجر عظیم ہوں۔ والسلام۔

مستفی:اسرار احمد علیمی، بستی
٢٢ ربيع الآخر ١٤٤٣ هجري.

الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

صورتِ مسئولہ میں پہلے اگرچہ ایجاب وقبول کے الفاظ کے لیے اردو زبان کے حال کے صیغے استعمال ہوئے ، جس کی وجہ سے انعقادِ نکاح کا مسئلہ غور طلب ہوجاتا ہے ۔ کیوں کہ فقہاء نے ایجاب وقبول دونوں کے لیے یا کم از کم ایک کے لیے ماضی کے صیغہ سے ہونے کی صراحت فرمائی ہے ۔ لیکن چوں کہ صورتِ مسئولہ میں نکاح کی منظوری ماضی کے صیغہ "قبلت” کے ساتھ بھی متحقق ہے ۔ اس لیے یہاں نکاح درست اور صحیح ہے ۔ ہمارے علماء صراحت فرماتے ہیں کہ مجلس بدلنے سے پہلے اگر ایجاب(پیش کش) کو قبول کرلیا جائے تو یہ قبولیت ورضامندی، نظرِ شرع میں مقبول ہے ۔

اس لیے جب نکاح خواں نے نوشہ کے قول "قبول کرتا ہوں” کے بعد ماضی کے عربی صیغہ "قبلت” کے ذریعہ بھی قبول کرادیا تو نکاح مکمل ہونے میں شبہہ نہیں ہے ۔ کیوں کہ جب تک مجلس نہ بدلے ایجاب باطل نہیں ہوتا ہے ۔ ہاں! اگر ایجاب کے بعد قبول سے پہلے مجلس بدل جائے تو نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے ۔

فتاوی عالم گیری میں ہے:
"وَمِنْهَا) أَنْ يَكُونَ الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ، حَتَّى لَوْ اخْتَلَفَ الْمَجْلِسُ بِأَنْ كَانَا حَاضِرَيْنِ فَأَوْجَبَ أَحَدُهُمَا فَقَامَ الْآخَرُ عَنْ الْمَجْلِسِ قَبْلَ الْقَبُولِ أَوْ اشْتَغَلَ بِعَمَلٍ يُوجِبُ اخْتِلَافَ الْمَجْلِسِ لَا يَنْعَقِدُ۔”
(فتاوی عالم گیری:کتاب النکاح:الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِيرِهِ شَرْعًا وَصِفَتِهِ وَرُكْنِهِ وَشَرْطِهِ وَحُكْمِهِ)

در مختار میں ہے:
"وَمِنْ شَرَائِطِ الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ: اتِّحَادُ الْمَجْلِسِ لَوْ حَاضِرَيْنِ، وَإِنْ طَالَ كَمُخَيَّرَةٍ”

(در مختار:اوائل کتاب النکاح)

لیکن یہاں یہ شبہہ ہوسکتا ہے کہ کہ ممکن ہے نوشہ نے "قبلت” کا معنی جانے سمجھے بغیر یہ لفظ کہہ دیا ہو تو اس قول سے اس کی رضا مندی کیسے سمجھی جائے گی؟ تو اس شبہہ کا جواب یہ ہے کہ نکاح کے لیے متعین الفاظِ ایجاب وقبول میں الفاظ کا معنی جاننا ضروری نہیں ہے، بس اتنا اگر جانتا ہے کہ یہ نکاح کے الفاظ ہیں اگرچہ اس کا خاص معنی معلوم نہ ہو تب بھی نکاح ہوجاتا ہے ۔

امام المدققین علامہ علاو الدین حصکفی رحمہ اللہ القوی تحریر فرماتے ہیں:
"وَلَا يُشْتَرَطُ الْعِلْمُ بِمَعْنَى الْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ فِيمَا يَسْتَوِي فِيهِ الْجِدُّ وَالْهَزْلُ إذْ لَمْ يَحْتَجْ لِنِيَّةٍ ، بِهِ يُفْتَى.”
(در مختار:کتاب النکاح)

علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"(قَوْلُهُ: وَلَا يُشْتَرَطُ إلَخْ) أَيْ فِيمَا كَانَ بِلَفْظٍ وَنِكَاحٍ بِخِلَافِ مَا كَانَ كِنَايَةً لِمَا يَأْتِي مِنْ أَنَّهُ لَا بُدَّ فِيهِ مِنْ نِيَّةٍ أَوْ قَرِينَةٍ وَفَهْمِ الشُّهُودِ، لَكِنْ قَيَّدَ فِي الدُّرَرِ عَدَمَ الِاشْتِرَاطِ بِمَا إذَا عَلِمَا أَنَّ هَذَا اللَّفْظَ يَنْعَقِدُ بِهِ النِّكَاحُ أَيْ، وَإِنْ لَمْ يَعْلَمَا حَقِيقَةَ مَعْنَاهُ۔”
(رد المحتار:کتاب النکاح )

امام اہل سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا قدس سرہ گواہوں کے لیے الفاظِ نکاح کا معنی سمجھنے کے بارے میں دو قول اور اپنی خدا داد ذہانت اور فقہی بصیرت سے دونوں اقوال میں توفیق وتطبیق بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"جس طرح نکاح مسلم میں وقتِ ایجاب وقبول دو مردوں یا ایک مرد دوعورتوں عاقل بالغ آزاد اور نکاح مسلم میں انھیں اوصاف کے خاص مسلمین کا حاضر ہونا بالاتفاق اور ان کا کلام عاقدین معاً سننا عندالجمہور علی المذہب المنصور شرط وضرور ہے ۔ آیا یوں ہی ان کا کلام عاقدین سمجھنا بھی شرط ہے یانہیں؟ ۔ مثلاً اگر دو ہندیوں کے سامنے مرد وزن نے عربی میں ایجاب وقبول کرلیا وہ نہ سمجھے، آیا یہ نکاح فاسد ہوگا یا صحیح؟ علمائے کرام کے اس میں دونوں قول منقول ہوئے ۔

جزم با لاول العلامۃ الزیلعی فی التبیین، والمحقق علی الاطلاق فی الفتح، والمولی الغزی فی متن التنویر ، وصححہ فی الجوھرۃ، وقال فی الذخیرۃ والظھیریۃ وخزانۃ المفتین والسراج الوھاج وشرحی النقایۃ للقھستانی والبرجندی ومجمع الانھر والھندیۃ: انہ الظاھر ۔ وکذا اختارہ فقیہ النفس فی الخانیۃ، وضعف خلافہ، قال الذخیرۃ ثم البحر ثم الدر ومجمع الانھر : فکان ھوالمذھب۔

وجزم بالثانی فی الفتاوی ، وکذا ذکرہ البقالی، وقال فی الخلاصۃ وجواھر الاخلاطی انہ الاصح۔ وفی مجمع الانھر عن النصاب، علیہ الفتوی، ولم یتعرض لقید الفھم فی مختصر القدوری والوقایۃ والنقایۃ والکنز والاصلاح والایضاح والملتقی وکلاھما روایۃ عن مدار المذھب محمد رضی ﷲ تعالٰی عنہ ، کما فی الفتح ۔

اور توفیق نفیس یہ ہے کہ معنٰی الفاظ سمجھنا ضروری نہیں مگر اس قدر سمجھنا ضرور ہے کہ یہ عقدِ نکاح ہورہا ہے:

اقول: وقدکان سنح لی ھذا ، ثم رأیتہ للعلامۃ مصطفی الرحمتی لمحشی الدر، وقال فی ردالمحتار ووفق الرحمتی بحمل القول بالاشتراط علی اشتراط فھم انہ عقد نکاح، والقول بعدمہ اشتراط فھم معانی الالفاظ بعد فھم ان المراد عقد النکاح اھ وھو کما تری حسن جدا۔” (رسالہ عباب الانوار ان لا نکاح بمجرد الاقرار ۔ مشمولہ فتاوی رضویہ ج۵ ص١٠٠، ١٠١)

لیکن صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح خواں نے
"قبلت” کا صیغہ نہ بھی کہلوایا ہوتا تب بھی ظاہر یہ ہے کہ "قبول کرتا ہوں” سے نکاح منعقد ہوجائے گا، کیوں کہ اردو زبان میں یہ صیغہ حال کے معنی میں متعین ہے اور اس سے انشائے عقد کے معنی کا قصد ہوتا ہے اور عربی میں چوں کہ فعل مضارع کا صیغہ حال اور استقبال دونوں کا محتمل ہے اس لیے معنی استقبال کی صورت میں بجائے انشائے عقد کے وعدہ عقد کے معنی کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔اور انشائے عقد اور وعدہ عقد دو الگ چیزیں ہیں ۔ جب کہ اردو میں حال کا معنی متعین ہونے کی وجہ سے وعدہ عقد کے معنی کی گنجائش نہیں نکلتی ہے ۔ بلکہ اس سے انشائے عقد کے معنی کا قصد ہوتا ہے اور عقود میں اصل معنی کا اعتبار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے صیغوں کے علاوہ دیگر الفاظ سے بھی نکاح منعقد ہونے کی صورتیں فقہائے عظام نے ذکر کی ہیں۔علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

(١)”وَمِنْهَا بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لَوْ قَالَ: زَوِّجِي نَفْسَك مِنِّي فَقَالَتْ: بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فَهُوَ نِكَاحٌ كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ، (٢) وَمِنْهَا مَا فِي الذَّخِيرَةِ لَوْ قَالَ: ثَبَتَ حَقِّي فِي مَنَافِعِ بُضْعِك بِأَلْفٍ فَقَالَتْ: نَعَمْ صَحَّ النِّكَاحُ. اهـ

وَالْجَوَابُ أَنَّ الْعِبْرَةَ فِي الْعُقُودِ لِلْمَعَانِي حَتَّى فِي النِّكَاحِ كَمَا صَرَّحُوا بِهِ، وَهَذِهِ الْأَلْفَاظُ تُؤَدِّي مَعْنَى النِّكَاحِ، وَهَذَا مِمَّا ظَهَرَ لِي مِنْ فَضْلِهِ تَعَالَى”
(البحر الرائق)

ھذا ما ظہر لی، ولم اجد فی مسئلة: "ما اذا کان الایجاب والقبول بلفظی الفعل الحال” نصا صریحا بعد تتبع المسائل والفروع والمراجعة الی الکتب، نعم! ذُکِرٙ فی کتاب "الفقہ الاسلامی وادلتہ” ما یوید ما قلت، الا انہ لم یعزہ لاحد، ولم یذکر فرعا فقہیا عن کتب الفقہ الحنفی۔ والیکم نصہ:

"وأما العقد بصيغة المضارع: مثل أن يقول الرجل للمرأة في مجلس العقد: أتزوجك على مهر قدره كذا، فقالت: أقبل أو أرضى، صح العقد عند الحنفية والمالكية إذا كانت هناك قرينة تدل على إرادة إنشاء العقد في الحال، لا للوعد في المستقبل، كأن يكون المجلس مهيئاً لإجراء عقد الزواج، فوجود هذه الهيئة ينفي إرادة الوعد أو المساومة، ويدل على إرادة التنجيز؛ لأن الزواج بعكس البيع يكون مسبوقاً بالخطبة ۔
فإن لم يكن المجلس مهيئاً لإنجاز العقد، ولم توجد قرينة دالة على قصد إنشاء الزواج في الحال، فلا ينعقد العقد ۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ:ج٩ص٦۵٢٨ط دار الفکر)

ھذا ماظھر لی واللہ سبحانہ وتعالی اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد نظام الدین القادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔یوپی۔

٢٠/جمادی الاولی١۴۴٣ھ//٢۵/دسمبر ٢٠٢١ء

Leave a Reply