نئے عیسوی سال کی مبارک باد دینا کیسا ہے؟
الجواب بعون الملک الوہاب:
جنوری سے نئے عیسوی سال کا آغاز ہوتا ہے، تو لوگ بالخصوص سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو اس نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں اور یہ شرعی حیثیت سے نہ سنت ہے اور نہ ہی بدعتِ سیئہ (یعنی بری بدعت) ہے بلکہ مباح (یعنی جائز) عمل ہے۔
چنانچہ نئے عیسوی سال کی مبارکباد دینے کے جائز ہونے پر ذیل میں چند دلائل ملاحظہ کیجیے :
1- امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا :
"قال القمولي في الجواهر: لم أر لأصحابنا كلاما في التهنئة بالعيدين والأعوام والأشهر كما يفعله الناس ورأيت فيما نقل من فوائد الشيخ زكي الدين عبد العظيم المنذري أن الحافظ أبا الحسن المقدسي سئل عن التهنئة في أوائل الشهور والسنين أهو بدعة أم لا؟
فأجاب بأن الناس لم يزالوا مختلفين في ذلك.
قال: والذي أراه أنه مباح ليس بسنة ولا بدعة.”
ونقلہ الشرف الغزی فی شرح المنھاج ولم یزد علیہ
یعنی (احمد بن محمد) قمولی (شافعی) رحمۃ اللہ علیہ نے "جواہر” میں فرمایا :
میں نے عیدین, سالوں اور مہینوں کی مبارکباد دینے کے بارے میں اپنے اصحاب کا کوئی کلام نہیں دیکھا جیساکہ لوگ اسے کرتے ہیں (یعنی مبارکباد دیتے ہیں) اور میں نے اس میں دیکھا جس میں شیخ زکی الدین عبدالعظیم منذری کے فوائد سے نقل کیا گیا کہ بیشک حافظ ابوالحسن مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے مہینوں اور سالوں کی مبارکباد دینے کے متعلق پوچھا گیا کہ کیا وہ بدعت ہے یا نہیں ؟
تو جواب دیا کہ لوگ ہمیشہ اس بارے میں مختلف رہیں ہیں, (اور) فرمایا : اور وہ جسے میں خیال کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ (مبارکباد دینا) مباح (جائز) ہے, نہ سنت ہے اور نہ بدعت ہے ۔
اور اس کو شرف غزی نے "شرح المنہاج” نقل فرمایا ہے اور اس پر زیادتی نہیں کی.
(وصول الامانی باصول التھانی صفحہ 51, 52 )
2- شریعت نے نئے عیسوی سال کی مبارکباد دینے سے منع نہیں کیا اور جس کام سے شریعت منع نہ کرے وہ بالکل جائز ہوتا ہے ۔
چنانچہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
"اَلْحَلاَلُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَ الْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَا سَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہٗ”
یعنی حلال وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی اختیار فرمائی (یعنی منع نہ فرمایا) وہ معاف ہے (یعنی اس کے کرنے پر کوئی گناہ نہیں)۔
(جامع ترمذی ابواب اللباس باب ماجاءفی لبس الفراء ،سنن ابن ماجہ ،المستدرک للحاکم)
3- کسی کو نیا عیسوی سال دیکھنا نصیب ہوجائے تو گویا اس کو نیکیاں کرنے کیلیے مزید مہلتِ زندگی دے دی گئی ہے اور یہ بات باعثِ سعادت و برکت اور اچھی ہے اور مبارک و اچھی بات کی مبارک باد دینے کی اصل صحیح حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔
چنانچہ معراج کی رات جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر آسمانوں سے ہوا تو انبیاے کرام علیٰ نبینا و عليهم الصلاة والسلام نے آپ صلی الله عليه وآلہ وسلم کو معراج پر مبارک باد پیش کی۔
(کما فی کتب الاحادیث مشھور)
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ و سلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی
1 thought on “نئے عیسوی سال کی مبارک باد دینا کیسا ہے؟”