نشے میں طلاق دینے والا طلاق کا انکار کرے تو کیا حکم ہے ؟
سوال: اگر نشے والا کہے کہ مجھے طلاق دینا قطعاً معلوم نہیں ۔ اور عورت تین طلاق کی دعویدار ہے اور دو گواہ بھی ہیں لیکن قابل قبول شرع نہیں
تو اس صورت میں طلاق کا حکم ہوگا یا نہیں ؟ شوہر سے حلف لیا جائے گا یا نہیں؟ جس طرح ہوش و حواس والے شخص سے انکار کی صورت میں
حلف لیا جاتا ہے , اگر حلف لیا جائے تواس کی کیا صورت ہوگی اور الفاظ کیا ہوں گے؟
اکابرین کے فتاویٰ میں نشے والے کے انکار کی صورت میں کوئی فتویٰ مطالعے میں نظر سے نہ گزر سکا ۔
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس مسئلے کا جواب یہ ہے کہ اگر بیوی اور گواہوں کے بیان پر شوہر کا دل جمے تسلیم کر لیں اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں ۔ اور نشے
والے کا یہ کہنا کہ ” اسے طلاق دینا معلوم نہیں " انکارطلاق نہیں ہے ۔ اس لیے اس سے قسم نہیں لی جائے گی ۔ اس کی تفصیل مختصر یہ
ہے کہ فقہا فرماتے ہیں: "طلاق السکران واقع ” یعنی اگر کوئی نشے کی حالت میں طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور یہ بات اربابِ علم
وفہم پر عیاں ہے کہ سکران کو اپنی بات کا ہوش نہیں رہتا، نہ بولتے وقت، نہ اس کے بعد ۔ وہ در اصل بے عقل ومدہوش ہوتا ہے ۔ تو وقوع طلاق کے
بارے میں لا محالہ اصحاب عقل و ہوش کے بیان پر اعتماد کرنا ہوگا ۔ لہذا بیوی اور دوسرے لوگ طلاق کے بارے میں جو بیان دے رہے ہیں اگر ان پر
شوہر کو ظن غالب کی حد تک اعتماد ہو کہ وہ اس کے بدخواہ نہیں ہیں اور سچ بول رہے ہیں تو ان کے بیان پر اعتماد کرکے اس کے مطابق عمل کرے ۔
شوہر جب طلاق دے کر بھول جائے تو اسے اپنی تحری اور ظن غالب پر عمل کا حکم ہے
( رد مختار، ج:۲، باب طلاق غير المدخول بها سے کچھ پہلے)
تو یہاں بھی اسے ظن غالب پر عمل کرنا ہوگا ۔ فرق یہ ہے کہ بھول والے مسئلے میں ظن غالب اپنی تحری سے حاصل ہوتاہے اور اس مسئلے میں
معتمد افراد اور بیوی کے بیان سے ۔ مفتی شریعت شوہر سے اپنے سامنے صحیح طور سے وضو کراکر مسجد میں اس کے ہاتھوں میں قرآن مجید
دے کر جھوٹ بولنے کے دردناک عذاب سے ڈرائیں ،سچ بولنے کی ترغیب دیں ،اور اس سے دریافت کریں کہ بیوی اور گواہوں کے بیان پر اس کا دل
مطمئن ہے یا نہیں؟ عموماً ایسے مقدس مقام اور خدا ترسی کے ماحول میں شوہر سچائی کا اعتراف کرلیتا ہے اور بیوی کے بیان کو درست تسلیم
کر لیتا ہے ۔ اس تقدیر پر مسئلے کا حکم ظاہر ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں ۔
لیکن اگر کبھی شوہر یہ کہہ دے کہ اسے بیوی وغیرہا کے بیان پر اطمینان نہیں ہے ،ہو سکتا ہے وہ سچ بولتے ہوں ، اور ہوسکتا ہے وہ جھوٹے ہوں
اس سے اس کی وجہ دریافت کی جائے گی ، پھر وجہ پر غور ہوگا کہ وہ معقول ہے یا نہیں، مثلا بیوی پہلے ہی سے اس سے بیزار ہو ، اس سے
طلاق چاہتی ہو تو شک کی وجہ معقول ہوگی ۔ اور بہر حال جب بیوی تین طلاق کا دعوی کر چکی تو اب شوہر سے کہیں گے کہ اسے ایک طلاق
بائن دے کر اسے آزاد کرے۔ اسے یہی ایک حل کی راہ ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔۔
(٢) شوہر کا یہ کہنا ” مجھے طلاق دینا قطعاً معلوم نہیں” اس میں طلاق کا انکار نہیں ، بلکہ ، علم طلاق کی نفی ہے ، بلفظ دیگر عدم علم کا
اعتراف ہے ، اسے "انکار” نہیں کہتے ۔ جو شخص اس بات کا اہل ہو کہ اسے طلاق دینا ، نہ دینا یاد رہ سکے اور کہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق
نہیں دی تو اسے ” انکار” کہیں گے ۔ اور جس کے اندر یاد ہونے کی اہلیت ہی نہیں ہے وہ اگر طلاق نہ دینے کی بات کہے تو بھی یہ انکار نہ ہونا
چاہیے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے اسی کا اظہار کر رہا ہے اور اگر وہ یہ کہے کہ اسے طلاق دینا معلوم نہیں تو یہ بدرجہ اولی انکار طلاق نہیں کہ جو
ہوش میں نہیں ، اسے کیا معلوم کہ اس نے طلاق دی یا نہیں ، یہاں اس کا ظاہرحال اس کے قول کا شاہد ہے اس لئے نشے والے کا وہ جملہ نہ انکار
طلاق ہے نہ اس پر کوئی قسم ۔
هذا كله ماظهر علي العبد الضعيف والعلم بالحق عند الله ۔
ضروري وضاحت
طلاق دینے پر شرعی گواہ ہوں تب تو حکم اسی پر مبنی ہوگا کہ حجت کاملہ ہے اور اقرار ہو تو وہ شوہر ہوش میں مانا جائے گا، نہ کہ مدہوش ۔ آپ
نے جو صورت لکھی ہے اس میں نہ اقرار ہے ،نہ شرعی گواہ ۔ تو اس کی بنیاد شوہر کے ظن غالب پر ہوگی جیسا کہ نسیان طلاق کے مسئلے میں
ہے، اس مسئلے میں ثبوت طلاق کے بالترتیب تین درجے ہیں: اعلیٰ، اوسط ، ادنی یعنی بینہ ، پھر اقرار ، پھر ظن غالب۔اور جب ان میں سے کوئی
ثبوت نہ ہو حکم ہوگا کہ عورت شوہر سے بھاگے ،بچے اسے اپنے اوپر ہرگز قابو نہ دے اور شوہر کو صلاح دی جائے گی کہ عورت کو طلاق بائن دے کر
آزاد کر دیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ عورت پہلے سے طلاق کی طالب اور شوہر سے بیزار نہ ہو اور شوہر کی نگاہ میں وہ سچی و معتمد ہو جس سے اس کے
بیان کی صداقت کا ظن غالب ہو تو عورت کے بیان پر اعتماد ہوگا مگر یہ حکم تنہا عورت کے بیان پر نہیں ہے مگر معتمد عورت کے بیان سے ظن غالب
حاصل ہونے پر ہے ۔ اس کے بارے میں غور کرنے کے بعد ،کتب فقہ میں اس کی مزید نظیر مل جائے گی ۔
والله تعالى اعلم بالصواب
کتبـــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارک پور