نقل یعنی دیکھ کر سبق سنانے والوں کا کیا حکم یے ؟
جواب: نقل چاہیں امتحان میں ہو یا غیر امتحان میں درست نہیں ہے اِمتحان میں نقل(Cheating) کر نا نہ تو شَرعاً دُرُست ہے اور نہ ہی عقلاً ۔ شَرعاً اس لیے دُرُست نہیں کہ اس میں دھوکا دینا ہے اور دھوکا دینے والے کے لیے حدیثِ پاک میں جنَّت سے محرومی کی سخت وعید بیان فرمائی گئی ہے چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے محبوب ، دانائے غُیُوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عِبرت نشان ہے۔
تین شخص جنَّت میں داخِل نہیں ہوں گے: (۱)دھوکے باز (۲)بخیل(۳)اِحسان جتانے والا ۔ )[2]( نیز نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے کی صورت میں ذِلَّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک مسلمان کا خود کو ذِلَّت پر پیش کرنا ہرگز جائز نہیں چنانچہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: مَنْ اُعْطَى الذِّلَّ مِنْ نَّفْسِهٖ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَلَيْسَ مِنَّا یعنی جو شخص بِلا اِکراہ (یعنی شَرعی مجبوری کے بغیر) اپنے آپ کو بخوشی ذِلَّت پر پیش کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔ )
معجم ا وسط ، باب الألف ، من اسمه احمد ، ۱/۱۴۷ ، حدیث: ۴۷۱ دار الفکر بیروت
( نقل کرنا عقلاً بھی دُرُست نہیں اس لیے کہ اِمتحان کا مقصد یادداشت اور محنت کی کسوٹی ( یعنی جانچ پڑتال)ہے جبکہ نقل کی صورت میں یہ مقصد حاصِل نہیں ہو سکتا ۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد حسین قادری رضوی بریلوی