امام دوران قرأت ہمیشہ اظہار کی جگہ اخفاء کرے اور اخفاء کی جگہ اظہار تو کیا اس کے پیچھے قرأت داں کی نماز درست ہے?
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع اس مسئلہ میں کہ امام دوران قرأت ہمیشہ اظہار کی جگہ اخفاء کرے اور اخفاء کی جگہ اظہار تو کیا اس کے پیچھے قرأت داں کی نماز درست ہےاور جان بوجھ کر ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے جس کے پیچھے نماز پڑھنے سے نماز واجب الاعادہ ہو.
الجواب بعون الملک الوھاب
اظہارو اخفا محسنات قراءت میں سے ہیں، ان کی رعایت مسنون محمود اور ترک مکروہ ناپسند ہے،لہذا ایسا امام جو ان کی رعایت نہ کرتا ہو اس کے پیچھے قراءت داں وغیرہ سب کی نماز درست ہے.
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:
جو شخص قواعد تجوید سے ناواقف ہو اس کو امام کیا جائے یا نہیں؟ اور اگر کیا جائے تو اس کے پیچھے قواعدداں کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اور عام لوگوں یعنی غیر قواعد داں کی نماز بھی اس کے پیچھے ہوگی یا نہیں؟”
تو آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
(١) اگر ایسی غلطیاں کرتا ہے کہ معنی میں فساد آتا ہے مثلا حرف کی تبدیل جیسے ع ط ص ح ظ کی جگہ و ت س ہ ز پڑھنا کہ لفظ مہمل رہ جائے،
(٢) یا معنی میں تغیر فاحش راہ پائے،
(٣) یاکھڑا پڑا (زبر زیر) کی بدتمیزی کہ حرکات بڑھ کر حروف مدہ ہوجائیں اور وہی قباحتیں لازم آئیں، جس طرح بعض جہال نستعین کو نستاعین پڑھتے ہیں کہ بے معنی یا "لالی ﷲ تحشرون” بلام تاکید کو” لا الی ﷲ تحشرون” بلائے نافیہ کہ تغیر معنی ہے تو ہمارے ائمہ متقدمین کے مذہب صحیح ومعتمد محققین پر مطلقا خود اس کی نماز باطل ہے۔ کما حققہ ورجححہ المحقق فی الفتح والحلبی فی الغنیۃ وغیرھما.
اور جب اس کی اپنی نہ ہوگی تو قوعدداں وغیرہ کسی کی اس کے پیچھے نہ ہو سکے گی؛ فان صلوۃ المأموم مبتنیۃ علی صلوۃ الامام. کیوں کہ مقتدی کی نماز امام کی نماز پر مبنی ہے۔
(٤) اور اگر غلطی یوں ہے کہ حرف بروجہ صحیح ادا نہیں کرسکتا جس طرح آج کل عام دہقانوں اور بہت شہریوں کا حال ہے تو اب جمہور متاخرین کا بھی فتوی اسی پر ہے کہ اس کے پیچھے صحیح خواں کی نماز باطل۔کما افادہ العلامۃ الغزی والعلامۃ الخیر الرملی وغیرھما.
(٥) اور اگر عجز یوں ہے کہ سیکھنے کی کوشش نہ کی یا کچھ دنوں کرکے چھوڑ دی اگر لپٹا رہتا تو امید تھی کہ آ جاتا جب تو ایسی غلطی ان کے نزدیک بھی خود اس کی اپنی نماز بھی باطل کرے گی۔ کما فی الخلاصۃ والفتح وغیرھماعامۃ الکتب.
غرض ایسا شخص امام بنانے کے لائق نہیں۔ وقد فصلناالقول فی تلک المسائل فی عدۃ مواضع من فتاونا.
(٦) اور اگر ایسی غلطی نہیں کرتا جس سے فسادمعنی ہو تو نماز خود اس کی بھی صحیح اور اس کے پیچھے اور سب کی صحیح، پھر اگر حالت ایسی ہے کہ تجوید کے امور ضروریہ واجبات شرعیہ ادا نہیں ہوتے جن کا ترک موجب گناہ ہے جیسے مدمتصل بقدر ایک الف وغیرہ۔ فما فصلنا فی فتاوی لنا فی خصوص الترتیل.
جب بھی اسے امام بنایا جائے گا۔ اس کے پیچھے بشدت مکروہ ہوگی۔ لاشتمالہاعلی امرمؤثم وکونہ فاسقا بتمادیہ علی ترک واجب متحتم.
کیوں کہ وہ ایسے امر پر مشتمل ہے جو گناہ ہے اور اس کا فاسق ہونا اس شک میں ڈالتا ہے کہیں وہ حتمی واجب کا ترک نہ کر بیٹھے۔
(٧) اور اگر ضروریات سب ادا ہولیتے ہیں صرف محسنات زائد و مثل اظہار و اخفا و روم و اشمام وتفخیم و ترقیق وغیرہا میں فرق پڑتا ہے تو حرج نہیں، ہاں قواعد داں کی امامت اولی ہے۔لان الامام کلما کان اکمل کان افضل. اس لیے کہ وہ شخص جو ہر لحاظ سے اکمل ہو وہی افضل امام ہوگا ۔ ( فتاوی رضویہ، ج: ٦ ص: ٤٨٩-٤٩٠)
اسی میں دوسری جگہ ہے:
ترتیل کی تین حدیں ہیں۔ ہر حد اعلیٰ میں اس کے بعد کی حد ماخوز و ملحوظ ہے۔ حد اوّل :یہ کہ قرآن عظیم ٹھہر ٹھہر کر بآہستگی تلاوت کرے کہ سامع چاہے تو ہر کلمے کو جدا جدا گِن سکے۔۔۔الفاظ بہ تفخیم ادا ہوں ، حروف کو ان کی صفات شدت و جہر وامثالھا کے حقوق پورے دئے جائیں،اظہار و اخفا و تفخیم و ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے، یہ مسنون ہے اور اس کا ترک مکروہ و ناپسند۔ دوم : مدووقف ووصل کے ضروریات اپنے اپنے مواقع پر ادا ہوں، کھڑے پڑے کا لحاظ رہے،حروف مذکورہ جن کے قبل نون یا میم ہوان کے بعد غنّہ نہ نکلے انّا کُنّا کو ان کن یا انّاں کنّاں نہ پڑھا جائے ،باوجیم ساکنین جن کے بعد”ت”ہو بشدت ادا کیے جائیں کہ پ اور چ کی آواز نہ دیں ، جہال جلدی میں ابتر اور تجتنبوا کو اپتر اور تچتنبوا پڑھتے ہیں، حروف مطبقہ کا کسرہ ضمہ کی طرف مائل نہ ہونے پائے ۔ جہاں جب صراط وقاطعہ میں ص وط کے اجتماع میں مثلًا”یستطیعون””لاتطع”بے خیالی کرنے والوں سے حرف تا بھی مشابہ طا ادا ہوتا ہے، بلکہ بعض سے”عتو”میں بھی بوجہ تفخیم عین و ضمہ تا آواز مشابہ طا پیدا ہوتی ہے ۔ بالجملہ کوئی حرف و حرکت بے محل دوسرے کی شان اخذنہ کرے ،نہ کوئی حرف چُھوٹ جائے، نہ کوئی اجنبی پیدا ہو، نہ محدود ومقصود ہو نہ ممدود ، اس قدر ترتیل فرض و واجب ہے اور اس کا تارک گنہگار ۔۔۔سوم :جو حروف وحرکات کی تصحیح ا ع،ت ط، ث س ص، ح ہ ،ذ ز ظ وغیرہا میں تمیز کرے ۔ غرض ہر نقص و زیادت و تبدیل سے کہ مفسد معنی ہو احتراز یہ بھی فرض ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد٦،ص ٢٧٥ تا ٢٨١.ملتقطاً)
* ہاں جو ان امور کی رعایت کرتا ہو اگر وہ موجود ہے تو اس کی امامت اولی ہے.
حدیث شریف میں ہے :
"یومھم اقرأھم لکتاب اللہ ” (صحيح مسلم ،المساجد ومواضع الصلوۃ، حديث رقم ٦٧٣)
در مختار مع ردالمحتار میں ہے:
"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات”.
” (قوله ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها قهستاني”.(١/ ٥٥٧)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے :
"امامت میں بعد اس کے کہ دو شخص جامع شرائط سنی العقیدہ غیر فاسق مجاہر ہوں، قرآن عظیم صحیح پڑھتے ہوں، حروف مخارج سے بقدر تمایز ادا کرتے ہوں، سب سے مقدم وہ ہے کہ نماز وطہارت کے مسائل کا علم زیادہ رکھتاہو، پھر اگر اس علم میں دونوں برابر ہوں تو جس کی قراءت اچھی ہو پھر جو زیادہ پرہیز گار ہو، شبہات سے زیادہ بچتا ہو، پھر جو عمر میں بڑا ہو، پھر جو خوش خلق ہو، پھر جو تہجد کا زیادہ پابند ہو، یہاں تک شرف نسب کا لحاظ نہیں جب ان باتوں میں برابر ہوں تو اب شرافت نسب سے ترجیح ہے” ۔
( فتاوی رضویہ ج۳ ص۱۹۷)
* ایسا امام جس کے پیچھے نماز واقعی واجب الاعادہ ہو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جاِئے گی بلکہ آس پاس کسی ایسے امام کی اقتدا کی جائے گی جس کے پیچھے الاعادہ نہ ہو اور اگر ایسا امام میسر نہ ہو تو تنہا نماز پڑھے.
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
الجواب صحیح :محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی ٧رمضان المبارک ١٤٤٤ ھ/ ٣٠مارچ ٢٠٢٣