غیر محل میں لقمہ دینے کا حکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتیان کرام کی بارگاہ میں سوال یہ ہے کہ چار رکعت والی نماز پڑھاتے ہوئے امام صاحب قعدہ اولی بھول کر تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوگئے حکم تو یہ ہے کہ واپس نہ لوٹے لیکن مقتدی نے لقمہ دیا جو سن کر امام صاحب دوبارہ تشہد میں بیٹھ گئے ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔
سائل: مظہر علی پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ
الجـواب بعـون المــلـک العزیز الوھـاب۔
اگر امام صاحب پورے کھڑے ہوگئے اور پھر مقتدی کے لقمہ دینے سے قعدہ کی طرف پلٹے تو سب کی نماز فاسد ہوگئی دوبارہ پڑھنا فرض ہے اسلئے کہ مکمل کھڑے ہونے کے بعد امام کو قعدہ کی طرف لوٹنا ناجائز تھا تو اس کا بتانا محض بے فائدہ رہا اور اپنے اصلی حکم کی رو سے کلام ہوکر مفسد نماز ہوا جس سے وہ نماز سے خارج ہو گیا اور امام نے اس خارج کا لقمہ لیا جس سے امام کی نماز فاسد ہو گئی اور امام کے ساتھ تمام مقتدیوں کی۔
بحر الرائق میں ہے "ﻟﻮ ﻋﺮﺽ ﻟﻹﻣﺎﻡ ﺷﻲء ﻓﺴﺒﺢ اﻟﻤﺄﻣﻮﻡ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ﻷﻥ اﻟﻤﻘﺼﻮﺩ ﺑﻪ ﺇﺻﻼﺡ اﻟﺼﻼﺓ ﻓﺴﻘﻂ ﺣﻜﻢ اﻟﻜﻼﻡ ﻋﻨﺪ اﻟﺤﺎﺟﺔ ﺇﻟﻰ اﻹﺻﻼﺡ ﻭﻻ ﻳﺴﺒﺢ ﻟﻹﻣﺎﻡ ﺇﺫا ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻰ اﻷﺧﺮﻳﻴﻦ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﻮﻉ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺃﻗﺮﺏ ﻓﻠﻢ ﻳﻜﻦ اﻟﺘﺴﺒﻴﺢ ﻣﻔﻴﺪا ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺒﺪاﺋﻊ ﻭﻳﻨﺒﻐﻲ ﻓﺴﺎﺩ اﻟﺼﻼﺓ ﺑﻪ ﻷﻥ اﻟﻘﻴﺎﺱ ﻓﺴﺎﺩﻫﺎ ﺑﻪ ﻋﻨﺪ ﻗﺼﺪ اﻹﻋﻼﻡ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﻙ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺢ «ﻣﻦ ﻧﺎﺑﻪ ﺷﻲء ﻓﻲ ﺻﻼﺗﻪ ﻓﻠﻴﺴﺒﺢ» ﻓﻠﻠﺤﺎﺟﺔ ﻟﻢ ﻳﻌﻤﻞ ﺑﺎﻟﻘﻴﺎﺱ ﻓﻌﻨﺪ ﻋﺪﻣﻬﺎ ﻳﺒﻘﻰ اﻷﻣﺮ ﻋﻠﻰ ﺃﺻﻞ اﻟﻘﻴﺎﺱ ﺛﻢ ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺠﺘﺒﻰ ﻗﺎﻝ ﻭﻟﻮ ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻰ اﻟﺜﺎﻟﺜﺔ ﻓﻲ اﻟﻈﻬﺮ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﻘﻌﺪ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻤﻘﺘﺪﻱ ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ ﻗﻴﻞ ﻻ ﺗﻔﺴﺪ ﻭﻋﻦ اﻟﻜﺮﺧﻲ ﺗﻔﺴﺪ ﻋﻨﺪﻫﻤﺎ اﻩ”
(ج٢،ص٨،ش)
فتاوی رضویہ میں ہے "امام قعدہ اولٰی چھوڑ کر پورا کھڑا ہوجائے تواب مقتدی بیٹھنے کا اشارہ نہ کرے ورنہ ہمارے امام کے مذہب پر مقتدی کی نماز جاتی رہے گی کہ پورا کھڑے ہونے کے بعد امام کوقعدہ اولٰی کی طرف عودناجائز تھا تو اس کابتانا محض بے فائدہ رہا اور اپنے اصلی حکم کی رو سےکلام ٹھہر کر مفسدنماز ہوا”
(ج٧،ص٢٦٥)
اور اگر امام صاحب پورا کھڑے نہیں ہوے بلکہ کھڑے ہونے سے قریب تھے اور لقمہ دینے سے پلٹے اور آخر میں سجدہ سہو کئے تو سب کی نماز ہو گئی اور اگر سجدہ سہو نہ کئے تو اعادہ واجب ۔
اور اگر بیٹھنے سے قریب تھے اور لقمہ سے بیٹھ گئے اور آخر میں سجدہ سہو نہ کئے تو سب کی نماز ہو گئی اور اگر سجد سہو کئے تو چونکہ سجدہ سہو کرنا لغو ہوا لہذا مسبوق کی نماز نہ ہوئی جبکہ بعد نماز اسے معلوم ہوگیا کہ سجدہ سہو غلط کیا اور اگر نہ معلوم ہوا تو اس کی بھی نماز ہو گئی۔
در مختار میں ہے "سھا ﻋﻦ اﻟﻘﻌﻮﺩ اﻷﻭﻝ ﻣﻦ اﻟﻔﺮﺽ ﻭﻟﻮ ﻋﻤﻠﻴﺎ ﺃﻣﺎ اﻟﻨﻔﻞ ﻓﻴﻌﻮﺩ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻘﻴﺪ ﺑﺎﻟﺴﺠﺪﺓ ﺛﻢ ﺗﺬﻛﺮﻩ ﻋﺎﺩ ﺇﻟﻴﻪ ﻭﺗﺸﻬﺪ ﻭﻻ ﺳﻬﻮ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ اﻷﺻﺢ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﻘﻢ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻓﻲ ﻇﺎﻫﺮ اﻟﻤﺬﻫﺐ ﻭﻫﻮ اﻷﺻﺢ ﻓﺘﺢ”
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے "ﻗﻮﻟﻪ ﻭﻻ ﺳﻬﻮ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ اﻷصح یعنی ﺇﺫا ﻋﺎﺩ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ ﻳﺴﺘﺘﻢ ﻗﺎﺋﻤﺎ ﻭﻛﺎﻥ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻌﻮﺩ ﺃﻗﺮﺏ ﻓﺈﻧﻪ ﻻ ﺳﺠﻮﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ اﻷﺻﺢ ﻭﻋﻠﻴﻪ اﻷﻛﺜﺮ ﻭاﺧﺘﺎﺭ ﻓﻲ اﻟﻮﻟﻮاﻟﺠﻴﺔ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﺴﺠﻮﺩ ﻭﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻋﺎﺩ ﻭﻫﻮ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺃﻗﺮﺏ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﺳﺠﻮﺩ اﻟﺴﻬﻮ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﻧﻮﺭ اﻹﻳﻀﺎﺡ ﻭﺷﺮﺣﻪ ﺑﻼ ﺣﻜﺎﻳﺔ ﺧﻼﻑ ﻓﻴﻪ ﻭﺻﺤﺢ اﻋﺘﺒﺎﺭ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ اﻟﻔﺘﺢ ﺑﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﻜﺎﻓﻲ ﺇﻥ اﺳﺘﻮﻯ اﻟﻨﺼﻒ اﻷﺳﻔﻞ ﻭﻇﻬﺮ ﺑﻌﺪ ﻣﻨﺤﻦ ﻓﻬﻮ ﺃﻗﺮﺏ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺴﺘﻮ ﻓﻬﻮ ﺃﻗﺮﺏ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﻌﻮﺩ” (ردالمحتار،ج٢،ص٦٦١)
طحطاوی علی مراقی میں ہے” ﻟﻮ ﺗﺎﺑﻌﻪ اﻟﻤﺴﺒﻮﻕ ﺛﻢ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ ﻻ ﺳﻬﻮ ﻋﻠﻴﻪ ﺇﻥ ﻋﻠﻢ ﺃﻥ ﻻ ﺳﻬﻮ ﻋﻠﻰ ﺇﻣﺎﻣﻪ ﻓﺴﺪﺕ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﻌﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻼ ﺗﻔﺴﺪ ﻭﻫﻮ اﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻴﻂ”(ج١،ص٤٦٥،ش)۔
واللہ تعالی اعلم
کتبــــہ : مفتی شان محمد المصباحی القادری
٢٤ دسمبر ۲۰۱۹