نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟

نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوہاب:

نماز میں اس طرح ہاتھوں کو چادر کے نیچے چھپانا کہ ان کو بآسانی باہر نکالا جا سکتا ہو تو یہ بغیر کسی کراہت کے جائز ہے اور اگر اس طرح کپڑا لپیٹ کر ہاتھوں کو چادر کے اندر چھپا لیا کہ بآسانی ہاتھ باہر نہ نکل سکتے ہوں تو یہ مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے بلکہ نماز کے علاوہ بھی اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے دشمن سے بچاؤ مشکل ہوتا ہے ۔

اور نماز میں ہاتھ چھپانے کی جس صورت کو بعض فقہاءکرام علیھم الرحمہ نے جیسے علامہ شامی علیہ الرحمۃ اور صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے وہ ایک خاص صورت پر محمول ہے اور وہ صورت اشتمالِ صَمَّاء کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک کپڑے کو جسم پر تہبند باندھے بغیر اس طرح لپیٹ لینا کہ جس سے ہاتھ بآسانی باہر نہ نکل سکتے ہوں ۔

یہ وہ صورت ہے جس سے حدیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے اور اس کو یہودیوں کا طریقہ قرار دیا گیا ہے مگر اس خاص صورت کے مکروہِ تحریمی ہونے کا اعلحضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ نے رد فرمایا ہے لہذا یہ خاص صورت مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہو گی ۔

چنانچہ نورالایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:

(اندراج فیہ) ای الثوب (بحیث لا) یدع منفذا (یخرج یدیہ) ای منہ وھی الاشتمالۃ الصماء, قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

"اذا کان لاحدکم ثوبان فلیصل فیھما فان لم یکن لہ الا ثوب فلیتزر بہ ولا یشتمل اشتمالۃ الیھود”

یعنی کپڑے میں داخل ہونا اس حیثیت سے کہ وہ کوئی جگہ نہ چھوڑے جس سے وہ اپنے ہاتھوں کو باہر نکال سکے اور یہی اشتمال صمّاء ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم فرماتے ہیں : "جب تم میں سے کسی ایک کے پاس دو کپڑے ہوں تو وہ ان میں نماز ادا کرے پس اگر کسی کے لیے صرف ایک کپڑا ہو تو وہ اس کا تہبند بنالے اور اشتمالِ یہود اختیار نہ کرے ” ۔

(نورالایضاح مع مراقی الفلاح صفحہ 180 مکتبۃ المدینہ کراچی )

ردالمحتار علی الدر المختار میں ہے :

"(یکرہ اشتمال الصماء) لنھیہ علیہ الصلوۃ و السلام عنھا وھی ان یاخذ بثوبہ فیخللَ بہ جسدہ کلہ من رأسہ الی قدمہ ولایرفع جانبا یخرج یدہ منہ سمی بہ لعدم منفذ یخرج منہ یدہ کالصخرۃ الصماء وقیل ان یشتمل بثوب واحد لیس علیہ ازار وھو اشتمال الیھود. زیلعی. وظاھر التعلیل بالنھی ان الکراھۃ تحریمیۃ کمامر فی نظائرہ”

یعنی اشتمال صماء مکروہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور اشتمال صماء یہ ہے کہ وہ ایک کپڑے کو لے پس اس کے ساتھ اپنے پورے جسم کو سر سے پاؤں تک لپیٹ لے اور کوئی ایسی جانب نہ چھوڑے کہ جس سے اس کا ہاتھ باہر نکل سکے. اس کو اشتمال صماء اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ کوئی ایسی جگہ باقی نہیں رہتی جس سے اس کا ہاتھ باہر نکل سکے جیسے سخت چٹان ہوتی ہے, اور بعض علما نے کہا کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ وہ ایک کپڑے کے ساتھ اشتمال کرے یعنی اس کو لپیٹ لے جس میں تہبند نہ ہو اور یہی یہود کا اشتمال ہے (زیلعی) نہی کے ساتھ علت بیان کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ مکروہِ تحریمی ہے جیسا کہ اس کے نظائر میں گزر چکا ۔

(ردالمحتار علی الدر المختار جلد 2 صفحہ 511 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )

سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ردالمحتار کی عبارت وظاھر التعلیل…… الخ کے تحت جدالممتار میں فرماتے ہیں :

اقول : "الظاھر ان النھی ارشادی حذرا عن عدو من الانسان او الحیوان فلایفید التحریم”

یعنی میں (امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ ) کہتا ہوں کہ بیشک نہی انسان یا حیوان میں سے دشمنوں سے بچانے کے لئے ارشادی ہے پس یہ مکروہِ تحریمی کا فائدہ نہ دے گی.

(جدالممتار علی ردالمحتار المجلد الثالث صفحہ 418 مکتبہ المدینہ کراچی )

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply