اگر گلے کی ہڈی (ہنسلی) حالتِ نماز میں ظاہر ہو تو نماز مکروہِ تحریمی، واجب الاعادہ ہوگی یا نہیں ؟
سائل : صادق علی رضوی ممبئی، انڈیا
بسمہ تعالیٰ
الجواب بعون الملک الوھّاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
اگر کسی نے قمیص پہن رکھی ہو لیکن بٹن بند نہ کیے ہوں جس کی وجہ سے گلے کی ہڈی (ہنسلی) حالتِ نماز میں ظاہر ہو تو نماز مکروہِ تنزیہی (یعنی شرعاً ناپسندیدہ) ہوگی اور اگر گلے کے پاس کا معمولی حصہ ظاہر ہو تو پھر مکروہِ تنزیہی بھی نہیں ہے۔
اسے مکروہِ تحریمی قرار دینا درست نہیں کیونکہ یہ کپڑے کو ایسے خلاف عادت پہننا ہے کہ جسے پہن کر بندہ معززین کے سامنے جانے سے کتراتا ہے اور اگر کوئی اسے پہن کر جائے تو اسے بےادب اور خفیف الحرکات سمجھا جاتا ہے تو ایسے لباس میں نماز پڑھنے کو فقہاء کرام جیسے عمدۃ المحققین علامہ ابنِ عابدین شامی اور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیھما وغیرہما نے مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا دربار ادب و تعظیم کا زیادہ حقدار ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"کسی کپڑے کو ایسا خلافِ عادت پہننا جسے مہذب آدمی مجمع یا بازار میں نہ کر سکے اور کرے تو بےادب، خفیف الحرکات سمجھا جائے، یہ بھی مکروہ ہے جیسے انگرکھا پہننا اور گھنڈی یا باہر کے بند نہ لگانا یا ایسا کرتا جس کے بٹن سینے پر ہیں، پہننا اور بوتام اتنے لگانا کہ سینہ یا شانہ کھلا رہے جبکہ اوپر سے انگرکھا نہ پہنے ہو، یہ بھی مکروہ ہے اور اگر اوپر سے انگرکھا پہنا ہے یا اتنے بوتام لگا لئے کہ سینہ یا شانہ ڈھک گئے اگرچہ اوپر کا بوتام نہ لگانے سے گلے کے پاس کا خفیف حصہ کھلا رہا یا شانوں پر کے چاک بہت چھوٹے چھوٹے ہیں کہ بوتام نہ لگائیں جب بھی کرتا نیچے ڈھلکے گا، شانے ڈھکے رہیں گے تو حرج نہیں.”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، صفحہ 385، 386، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اس مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بٹن کھول کر اس طرح نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے کہ جس سے سینہ کھلا ہوا ہو تو یہاں مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے کیونکہ یہاں اس صورت کو خلافِ معتاد (خلافِ عادت) ہونے کی بناء پر مکروہ قرار دیا ہے اور خود آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خلافِ معتاد لباس پہن کر نماز پڑھنے کو ایک اور مقام پر مکروہِ تنزیہی قرار دیا ہے اور اس کے مکروہِ تحریمی ہونے کا رد فرمایا ہے۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"خلافِ معتاد جس طرح کپڑا پہن یا اوڑھ کر بازار میں یا اکابر کے پاس نہ جا سکے ضرور مکروہ ہے کہ دربارِ عزت احق بادب و تعظیم ہے۔
"واصلہ کراھۃ الصلٰوۃ فی ثیاب مھنۃ قال فی الدر و کرہ صلٰوتہ فی ثیاب مھنۃ قال الشامی و فسرھا فی شرح الوقایۃ بما یلبسہ فی بیتہ ولایذھب بہ الی الاکابر و الظاھر ان الکراھۃ تنزیھیۃ”
اصل یہ ہے کہ کام و مشقت کے لباس میں نماز مکروہ ہے، در میں ہے نمازی کا کام کے کپڑوں میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، شامی نے فرمایا اور اس کی تفسیر شرح وقایہ میں ہے وہ کپڑ جو آدمی گھر پہنتا ہے مگر ان کے ساتھ اکابر کے پاس نہیں جاتا، اور ظاہر کراہت تنزیہی۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 491، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
"فان کراھۃ التحریم لابد لھا من نھی غیر مصروف عن الظاھر کما قال ش فی ثیاب المھنۃ و الظاھر ان الکراھۃ تنزیھیۃ”
کیونکہ کراہت تحریمی کے لئے ایسی نہی کا ہونا ضروری ہے جو ظاہر سے مؤول نہ ہو، جیسا کہ علامہ شامی نے کام کے کپڑوں کے بارے میں کہا کہ ظاہر کراہت تنزیہی ہے۔
اور اسے سدل میں کہ مکروہ تحریمی اور اس سے نہی وارد، دخل نہیں کہ وہ بر لبس خلاف معتاد نہیں بلکہ کپڑا اوپر سے اس طرح سے ڈال لینا کہ دونوں جانبین لٹکتی رہیں مثلاً چادر سر یا کندھوں پر ڈال لی اور دوبالا نہ مارا یا انگرکھا کندھے پر ڈال لیا اور آستین میں ہاتھ نہ ڈالا۔۔۔ اور اگر آستینوں میں ہاتھ ڈالے اور بند (بٹن) نہ باندھے تو یہ بھی سدل نہ رہا اگرچہ خلافِ معتاد ضرور ہے، ہاں امام ابوجعفر ہندوانی نے اس صورت کو مشابہ سدل ٹھہرا کر فرمایا کہ برا کیا امام ابن امیرالحاج نے حلیہ میں ایک قید اور بڑھائی کہ اگر نیچے کرتا نہ ہو ورنہ حرج نہیں، اور اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں حرج ہے۔
"قال فی ردالمحتار قال فی الخزائن بل ذکر ابوجعفر انہ لو ادخل یدیہ فی کمیہ و لم یشد وسطہ او لم یزر ازراہ فھو مسیئ لانہ یشبہ السدل اھ قلت لکن قال فی الحلیہ فیہ نظر ظاھر بعد ان یکون تحتہ قمیص او نحوہ مما یستر البدن”
ردالمحتار میں ہے کہ خزائن میں ہے بلکہ ابوجعفر نے ذکر کیا کہ اگر نمازی نے اپنے بازؤوں کو آستینوں میں داخل کر دیا اور درمیان کو نہیں باندھا یا اس نے اس کے بٹن بند نہ کئے تو خطاکار ہے کیونکہ سدل کی طرح ہے اھ میں کہتا ہوں حلیہ میں ہے کہ اس میں واضح اعتراض ہے جبکہ اس کے نیچے قمیص یا ایسا کپڑا ہو جو بدن ڈھانپ دے۔
"اقول وفیہ نظر ظاھر فان انکشاف شیء من صدر الرجل و بطنہ لا اساءۃ فیہ اذا کان عاتقاہ مستورین و انما نھی النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم عما اذا صلی فی ثوب واحد و لیس علی عاتقہ منہ شیئ و لاشک ان ارسال اطراف مثل الشایہ من دون ان یزر ازارھا انما یشبہ السدل بنفس ھیأۃ و لامدخل فیہ لوجود القمیص تحتہ و عدمہ لما ان السدل سدل و ان کان فوق القمیص و رأیتنی کتبت علی ھامشہ مانصہ اقول النظر ان کان ففی کراھۃ التحریم اما التنزیھی فلاشک فی ثبوتہ”
اقول (میں (امام احمد رضا خان) کہتا ہوں) اس میں نظر ہے کیونکہ انسان کے سینے اور بطن کے کسی حصے کا ظاہر ہونا اس میں کوئی برائی نہیں جبکہ اس کے کاندھے مستور ہوں اور رسالت مآب صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس صورت میں ایک کپڑے میں نماز سے منع فرمایا ہے جبکہ اس کے کاندھے پر کوئی شئی نہ ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اطراف کا کھلا ہونا بٹن باندھنے کے بغیر سدل کے مشابہ ہے اس میں نیچے قمیص اور عدم قمیص کا کوئی دخل نہیں کیونکہ سدل، سدل ہی ہوتا ہے اگرچہ قمیص پر ہو اور مجھے یاد آ رہاہے کہ میں نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے۔
(جدالممتار علی ردالمختار، جلد 3، صفحہ 389، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اقول : نظر تب ہے کہ اگر کراہت تحریمی ہو اور اگر تنزیہی ہو تو اس کے ثبوت میں کوئی شک نہیں۔”
(فتاویٰ رضویہ، جلد 7، صفحہ 358، 359، 360، بحذفٍ قَلیلٍ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ علامہ شامی اور سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیھما کے نزدیک خلافِ معتاد لباس میں نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔
ابواسیدعبیدرضامدنی رئیس مرکزی دارالافتاء اہلسنت عیسیٰ خیل
کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ