شرٹ میں جو کا لر لگا ہوتا ہے یہ شرعا جائز ہے یا نہیں اس کو پہن کر نماز پڑھیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
الجوابــــــــــــــــــــ
کالر کی وجہ سے نماز پر کوئی اثر نہیں ۔ کیونکہ شرٹ اور قمیص میں کالر عادت کے مطابق ہوتی ہے اور اس کو پہن کر بڑے لوگوں کے دربار میں جانا بے ادبی نہیں سمجھا جاتا ۔ اور اصل یہ ہے کہ جس طریقے کا لباس پہن کر بڑوں، حاکموں اور افسروں کے دربار میں جانا صحیح ہو اور بے ادبی تصور نہ کیا جاتا ہو اس طرح کے لباس میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری ہو سکتی ہے ۔ لہذا کالر دار کرتا، قمیص یا شرٹ پہن کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
بہتر تو یہی ہے ہے کہ پوری آستین ہو لیکن اگر پوری آستین نہیں ہے تو بھی نماز ہو جائے گی،ہاں خلاف اولی ہوگی، کالر اپنی وضع کے لحاظ سے موڑی ہوئی ہوتی ہے جو کف ثوب یعنی کپڑے کو موڑنا. مگر کف ثوب وہ مکروہ تحریمی ہے جو عادت ناس کے خلاف ہو اور اس طور پر موڑ کر حاکموں کے دربار میں جانا بےادبی سمجھا جاتا ہو اور یہ کف ثوب جو کالر میں ہوتا ہے عادت نا س کے مطابق ہے اور کالر دار قمیص یا شرٹ پہن کر حاکموں کے دربار میں جانا بے ادبی نہیں سمجھا جاتا اس لیے یہ مکروہ نہیں بلا کراہت جائز و مباح ہے ۔
اور آستین میں دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ آستین پوری ہے مگر اوپر چڑھا کر پڑھ رہا ہے اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہے ۔ اور اگر ہاف آستین سلی ہی گئی ہے تو اب اس کپڑے کی وضع اور بناوٹ وہی ہے اور اس کپڑے کے پہننے کا طریقہ اور عادت وہی ہے تو جو چیز طریقہ اور عادت بن جائے اس سے نماز مکروہ تحریمی نہیں ہوتی اور عادت کے خلاف جو کپڑا پہنا جائے اس سے نماز مکروہ تحریمی ہے. تو آستین کو آدھی کلائی تک چڑھا کر نماز پڑھنا خلاف عادت ہے اس وجہ سے نماز مکروہ تحریمی ہو گی، اور اگر ہاف آستین کی شرٹ پہن کر نماز پڑھتے ہیں تو مکروہ تحریمی نہ ہو گی مگر خلاف اولیٰ ضرور ہوگی ۔
واللہ تعالی اعلم
کتبــــــــــہ : مفتی نظام الدین رضوی جامعہ اشرفیہ مبارکپور