نماز کا فدیہ کیسے ادا کریں
السلام و علیکم و رحمتہ الله
سوال عرض ھے ایک شخص کے والد کا انتقال ھو گیا ھے انکے بھت ساری نماز قضاء ھوی ھے اب و شخص اپنے والد کی طرف سے نماز کا کفارہ دینا چاھتا ھے اب وہ کفارہ کیسے ادا کرے اس کا طریقہ بتا دیجۓ اور کیا کفارہ دینے سے اس کا فرض ادا ھو جاۓگا حضور جواب ضرور عطا فرمایں السلام و علیکم
محمد فروز عالم قادری کرناٹک
الجواب بعون الملک الوھاب
جس شخص کی نمازیں قضا ہوگئی ہوں اور اس کا انتقال ہوگیا تو اگر فدیہ دینے کی وصیت کرگیا اور مال بھی چھوڑا ہے تو اس مال کی تہائی سے ہر نماز فرض ووتر کے بدلے نصف صاع گیہوں (٢کلو ٤٧ گرام) یا ایک صاع جو یا ان میں کسی ایک کی قیمت صدقہ کریں،اور اگر وصیت نہیں کی اور تمام ورثہ یا کوئی وارث فدیہ دینا چاہے تو اگر اتنا مال آسانی سے فراہم نہ ہو کہ ہر نماز کا فدیہ ادا کیا جا سکے تو اس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کچھ مال اپنی طرف سے یا قرض لے کر کسی مسکین کو صدقہ کردیں پھر وہ مسکین اس مال پر قبضہ کر کے تصدق کرنے والے کو ہبہ کردے، یہ عمل اتنی بار کیا جائے کہ ہر نماز کے فدیہ کی مقدار مال کا تصدق ہوجائے.یہی طریقہ درج ذیل صورتوں میں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے: (١)جب میت نے بالکل مال ہی نہ چھوڑا ہو۔ (٢)مال چھوڑا مگر وصیت نہ کی ہو۔
(٣) مال چھوڑا اور وصیت بھی کی ہو مگر تہائی مال سے ہر نماز کا فدیہ پورا نہ ہوسکے۔ واضح رہے کہ اگر قضا نمازوں کی گنتی معلوم نہ ہو تو ایسا محتاط اندازہ لگایا جائے کہ کمی نہ رہ جائے زیادہ ہونے میں حرج نہیں۔
در مختار مع ردالمحتار میں ہے:
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).(درمختار مع رد المحتار ٢/ ٧٢)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله”. (١ / ١٢٥، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولا يصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه”. (ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے :
اسقاط کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اگر میت پر نماز روزہ قضا ہیں اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا جس کے ثلث سے بحالت وصیت اس کا فدیہ ادا ہوسکے یاوصیت نہ کی، اور سب ورثہ ادائے فدیہ پر راضی نہیں تو پہلی صورت میں اس کے تہائی مال کاحساب لگائیں، کہ اس سے کس قدر کا فدیہ ادا ہوسکتا ہے، مثلا فرض کرو کہ چہارم کی قدر ہے تو ثلث مال فقیر کو بہ نیت فدیہ دیں، فقیر اسے لے کر پھر وارث کو ہبہ کردے، یہ پھر بہ نیت فدیہ لے، فقیر پھر لے کر اسے ہبہ کردے، اور ہر بار فقیر اور وارث قبضہ کرتے جائیں یہاں تک کہ فدیہ ادا ہو جائے، اور صورت ثانیہ جو وارث جس قدر مال دینے پر راضی ہےاتنے مال کا الٹ پھیر اتنی بار کریں کہ فدیہ ادا ہوجائے یا مال بالکل نہیں ہے تو وارث مثلاً ڈیڑھ سیر گیہوں یا اس کی قیمت کسی سے قرض لے کر اس کا الٹ پھیر کرلے، اگر چہ ہزار بار یا زائد میں فدیہ کی حد میں پہونچے۔
فی الدر المختار
” لو مات وعلیه صلوۃ فائتة و اوصی بالکفارة یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر کالفطرة و کذا حکم الوتر والصوم انما يعطى من ثلث ماله ولولم يترك مالا يستقرض نصف صاع مثلا يدفعه الفقير،ثم يدفعه الفقير للوارث،ثم وثم حتى يتم”۔
اس کے سوا یہ جو عوام میں رائج ہے کہ سارے فدیہ کے عوض ایک قرآن دے دیا کہ وہ تو بے بہا ہے یوں ادا نہیں ہوتا، قرآن مجید بےشک بے بہا ہے، مگر جو بہا ہے یعنی کلام الٰہی کہ ورقوں میں لکھا ہے کہ وہ مال نہیں نہ وہ دینے کی چیز ہے، تو جو مال ہے یعنی کاغذ اور پٹھے اس کی قیمت معتبر ہوگی اور وہ جب مقدار فدیہ کو نہ پہونچے گی تو فدیہ کیوں کر ادا ہوگا۔ واللہ اعلم(فتاوی رضویہ قدیم جلد سوم ص ٦٢٧)
بہار شریعت میں ہے :
جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہوگیا تو اگر وصیت کرگیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو تصدق کریں اور مال نہ چھوڑا اور ورثا فدیہ دینا چاہیں تو کچھ مال اپنے پاس سے یا قرض لے کر مسکین پر تصدق کرکے اس کے قبضہ میں دیں اور مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کردے، اور یہ قبضہ بھی کرلے پھر یہ مسکین کو دے یوں ہی لوٹ پھیر کرتے رہیں یہاں تک کہ سب کا فدیہ اداہوجاے اور اگر مال چھوڑا مگر وہ ناکافی ہے جب بھی یہی کریں اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطور احسان فدیہ دینا چاہے تو دے اور اگر مال کی تہائی بقدر کافی ہے اور وصیت یہ کی کہ اس میں سے تھوڑا لےکر لوٹ پھیر کرکے فدیہ پورا کرلیں اور باقی کو ورثا یا اور کوئی لےلے تو گنہگار ہوا”
(بہارشریعت، جلداول، حصہ چہارم، قضا نماز کا بیان،صفحہ ۷۰۷)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی جامعہ علیمیہ جمدا شاہی بستی
٤جمادی الأولی ١٤٤٣/ ٨ دسمبر٢٠٢١
الجواب صحیح محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس و افتاء جامعہ علیمیہ جمدا شاہی