نماز جنازہ کے بعد دس قدم چل کر پھر سے دعا کرنے کا ثبوت
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نماز جنازہ کے بعد جو دہ قدمی کا رواج ہے اور اس کے بعد حیلہ اسقاط کرتے ہیں مزید دعائیں کرتے ہیں کیا یہ طریقہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ نہیں اور یہ جودہ قدمی ہے یہ نماز جنازہ پڑھانے سے پہلےنکالنی چاہیے کہ بعد اس کا مکمل جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت۔ مسؤلہ میں دہ قدمی جو کہ ہمارے علاقوں (جموں وکشمیر) میں ایک رواج بن چکی ہے ۔ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں ہے بلکہ جنازہ کے ساتھ چالیس قدم چلنا یہ مستحب ہے ۔
حدیث پاک ہے کہ جس نے کسی مسلمان کے جنازے کو چالیس قدم تک اٹھایا تو اس کے چالیس بڑے گناہ معاف ہوں گے ۔ فقہائے کرام نے اس کی یہ صورت ذکر کی ہے کہ میت کے تختہ کے چاروں پاۓ کے ساتھ دس قدم چل لے اس طور پر کہ پہلے میت کے دائیں ہاتھ والے پاۓ کو اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم ۔ پھر میت کے دائیں پاؤں والے پاۓ کو اپنے دائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم اور پھر میت کے بائیں پاؤں والے پاۓ کو اپنے بائیں کندھے پر رکھ کر دس قدم چلے یہ مستحب ہے ۔
ثم اعلم ان فی حمل الجنازۃ تسلئین نفس السنۃ وکمالھا ۔ اما نفس السنۃ۔ھی ان یآخذ بقوائمھا الاربع علی طریق التعاقب بأن یحمل من کل جانب عشر خطوات جاءفی الحدیث:من حمل جنازۃ اربعین خطوۃ کفرت لہ اربعوں کبیرۃ)
الفتاوی التاتارخانیہ،کتاب الصلاۃ ۔
سمعت انس بن مالک قال:قال رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:من حمل جوانب السریر الاربع کفر اللّٰہ عنہ اربعین کبیرۃ ۔
(العجم الاوسط للطبرانی)
واضع رہے کہ مذکورہ طریقے کے مطابق جنازے کو چالیس قدم اٹھانا مستحب ہے ۔ اگر کوئی چالیس سے زیادہ قدم اٹھاۓ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ باقی جنازہ اٹھاتے وقت بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ چالیس قدم تک گنے جاتے ہیں اور میت کو اس کا ثواب پہنچایا جاتا ہے ۔ یا پھر نمازہ جنازہ پڑھ کر میت کو اٹھا کر چکر لگاتے ہیں اس طرح قدم گننے اور ان کا ثواب پہچانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں۔
دعا: نماز جنازہ کے بعد میت کے لے دعا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے قول سے ثابت ہے نماز جنازہ کے بعددعا مانگنا مستحب عمل ہے فرض یا واجب نہیں ہے ۔
دعا کی فضیلت اور رغبت میں کئ آیات اور احادیث موجود ہیں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "ادعونی استجب لکم” ترجمہ مجھ سے مانگو تمھاری دعاؤں کو قبول فرماؤں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :”الدعا مخ العبادۃ” ترجمہ دعا عبادت کا مغز ہے (مشکوۃ کتاب الدعوات)
حلیہ اسقاط:-سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ عمل جس کو حیلہ اسقاط کہتے ہیں بعض فقہائے کرام نے ایسے شخص کےلئے تجویز فرمایا ہے جس کی کچھ نمازیں اور روزے وغیرہ اتفاقی طور پر فوت ہو گے ہوں۔ پھر قضا کرنے کا موقع نہ ملا اور موت کے وقت فدیہ کی وصیت تو کئ ہو۔ لیکن مرحوم نے اتنا ترکہ نہ چھوڑا جس کے ایک تہائی سے ان کے تمام فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جاسکے۔
ایسی صورت میں ورثاء اصحاب استطاعت ہوں تو اپنے مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کر دیں۔ اور اگر ورثاء کے پاس بھی گنجائش نہ ہو تو فقہائے کرام نے حیلے کی گنجائش ذکر کی ہے۔ اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ۔ ورثاء فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحق زکاۃ کو دے کہ اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔
پھر وہ مستحق کس قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء کو واپس کر دے اور پھر ورثاء اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں۔اور وہ بھی اپنی خوش دلی سے انہیں واپس کر دے۔ اسی طرح بار بار ورثاء یہ رقم دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی سے واپس کرتا رہے۔یہاں تک کہ مرحوم کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہو جائے تو اس طرح فدیہ ادا ہو جائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس مستحق شخص کو ملے گی وہی اس رقم کا مالک ہو گا۔ اور اسے ہر طرح سے رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہے۔ نیز آخر میں ورثاء کا رقم آپس میں تقسیم کرنا یا کس غنی ومال دار اور غیر مسکین کا اس رقم کو لینا جائز نہ ہو گا۔
فقط
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب
کتبہ : محمد عمران اشرفی جامعی۔صدر مفتی جامعہ معین السنہ دارالافتا
پونچھ جموں وکشمیر