نعلین پاک میں عہد نامہ لکھنا کیسا ہے ؟

نعلین پاک میں عہد نامہ لکھنا کیسا ہے ؟

کچھ لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ دعوتِ اسلامی کے بانی امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت بركاتهم العاليه نے جو نعلِ پاک کے نقش میں عہد نامہ تحریر فرمایا ہے, بے ادبی ہے کیونکہ عہدنامہ میں اللہ عزوجل اور سرکار صلى الله عليه وسلم کا نام ہے جنہیں نعلِ پاک کے نقش میں لکھنا بے ادبی ہے ؟

سائل : شفیق الرحمن عطاری خوشاب

الجواب بعون الملک الوہاب:

نعلِ پاک کے نقش میں عہد نامہ لکھنا بالکل جائز ہے کیونکہ یہ اصل نعلِ پاک نہیں ہے بلکہ نقش (یعنی عکس) ہے تو جس طرح نقش اور اصل میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کے احکام میں بھی فرق ہے . لہذا نعلِ پاک کے نقش میں عہد نامہ لکھنے کو بےادبی قرار دینا بالکل غلط اور جہالت ہے بلکہ اگر کوئی شخص اعزاز و احترام اور حصولِ برکت کی نیت سے نعلِ پاک کے نقش میں عہد نامہ لکھے گا تو اجر و ثواب کا حقدار بنے گا . اور اگر کوئی شخص معاذاللہ بے ادبی کی نیت سے نعلِ پاک کے نقش میں عہد نامہ لکھے گا تو صرف بےادبی کا ہی مرتکب نہیں ہوگا بلکہ دائرہ اسلام سے بھی خارج ہوجائے گا لیکن ایسا کسی عام مسلمان سے بھی متصور نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ کہ امیراہلسنت دامت برکاتھم العالیہ کی ذات کے ، جنہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو اللہ عزوجل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ کے آداب سکھائے ہیں ، وہ ایسا کام کیسے کرسکتے ہیں کہ جس میں بےادبی کا معمولی سا بھی شبہ ہو ۔

لہذا جو شخص اس کو بےادبی کہتا ہے ایسا شخص جہالت کی وجہ سے نقش کو اصل پر قیاس کر رہا ہے بلکہ بغیر علم کے فتوی دے رہا (یعنی شرعی حکم بیان کررہا) ہے اور جو بغیر علم کے فتوی دے ،  حدیثِ مبارکہ کے مطابق اس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں (کنزالعمال), لہذا ایسا شخص اپنی جہالت سے توبہ کرے اور آئندہ بغیر علم کے شرعی احکام میں دخل اندازی سے باز رہے ۔

چنانچہ سیدی اعلحضرت امام احمد رضا خان رضی اللہُ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں :

"اور بسم اللہ شریف اس (نعلِ پاک کے نقش) پر لکھنے میں کچھ حرج نہیں، اگر یہ خیال کیجئے کہ نعلِ مقدس قطعاً تاجِ فرقِ اہلِ ایمان ہے مگر اللہ عزوجل کا نام و کلام ہر شے سے اجل و اعظم و ارفع و اعلٰی ہے, یوہیں تمثال میں بھی احتراز چاہئے تو یہ قیاس مع الفارق ہے۔ اگر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی جاتی کہ نامِ الہٰی یا بسم اللہ شریف حضور کی نعل مقدس پر لکھی جائے تو پسند نہ فرماتے مگر اس قدر ضروری ہے کہ نعل بحالتِ استعمال و تمثال محفوظ عن الابتذال میں تفاوت بدیہی ہے, اور اعمال کا مدار نیت پر ہے, امیر المومنین عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جانورانِ صدقہ کی رانوں پر جیس فی سبیل ﷲ (اللہ کی راہ میں وقف ہے. ت) داغ فرمایا تھا حالانکہ ان کی رانیں بہت محلِ بے احتیاطی ہیں ۔

بلکہ سنن دارمی شریف میں ہے :

اخبرنا مالک بن اسمعیل ثنا مندل بن علی الغزی حدثنی جعفر بن ابی المغیرۃ عن سعید بن جبیر قال کنت اجلس الی ابن عباس فاکتب فی الصحیفۃ حتی تمتلی ثم اقلب نعلی فاکتب فی ظہورہما ۔

مالک بن اسمعیل نے خبر دی کہ مندل بن علی الغذی نے بیان کیا کہ مجھے جعفر بن ابی مغیرہ نے سعید بن جبیر کے حوالے سے فرمایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بیٹھا ایک کاغذ پر لکھ رہا تھا کہ وہ کاغذ پر ہوگیا پھر میں نے اپنا جو تا الٹا کرکے لکھا ۔

(سنن الدارمی باب من اخص فی کتابۃالعلم رقم الحدیث: 507 جلد 1 صفحہ 105 دارالمحاسن قاہرہ)” ۔

(فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ413 ,414 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وقارالملۃ مفتی وقار الدین قادری امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"کسی چیز کا عکس اصل شئی کا حکم نہیں رکھتا اور کسی شئی کے نقشہ پر اصل چیز کے احکام نہیں ہوتے ہیں. اگر نقشے پر اصل کے احکام ہوں تو لوگ کعبہ کے نقشے کا طواف بھی کرلیا کریں جو درست نہیں ہے, اسی طرح نعلِ پاک کا نقشہ, ایل نعل نہیں ہے. لہٰذا اس پر نام اقدس لکھنے میں حرج نہیں ہے ۔

(وقارالفتاوی جلد اول صفحہ 113 بزم وقار الدین)

فتاوی بریلی شریف میں ہے :

"حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نعلینِ پاک کے عکس (نقش) کے درمیان بسم اللہ شریف یا عہد نامہ لکھنا جائز ہے اسلیے کہ یہ اصل نعلین پاک نہیں اگرچہ اعزاز و احترام اور حصولِ منافع میں اصل کے حکم میں ہیں. (فتاوی رضویہ ج نہم ص 150) اس کو قطعاً حرام و گستاخی بتانا غلط و باطل ہے اسلیے کہ حکم کا مدار نیت پر ہے قال النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم انما الاعمال بالنیات معاذاللہ اگر لکھنے والے کی نیت سوءِ ادبی (بےادبی) ہے تو اس کا یہ فعل صرف حرام و گستاخی نہیں بلکہ اسے دائرہ اسلام سے خارج کر دے گا اور اگر اس کی نیت اعزاز و احترام اور حصولِ برکت کی نیت ہے تو مستحقِ اجر و ثواب ہے”۔

(فتاوی بریلی شریف صفحہ 352 زاویہ پبلشرز)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply