مرد و عورت کے ناف کے نیچے بالوں کو صاف کرنے کی حد کیا ہے؟

مرد و عورت کے ناف کے نیچے بالوں کو صاف کرنے کی حد کیا ہے؟

سوال : 1- مرد و عورت کے ناف کے نیچے بالوں کو صاف کرنے کی حد کیا ہے؟ 2- ناف اور بغل کے نیچے کے بالوں کو کس چیز سے صاف کرنا چاہیے؟

3- ناف اور بغل کے نیچے کے بالوں کو کتنے دنوں بعد صاف کرنا ضروری ہے؟

جواب :

1- زیرِ ناف بالوں کو مونڈنے کی حد یہ ہے کہ ناف کے عین نیچے سے شروع کرکے، مرد کی شرمگاہ اور خصیتین یعنی فوطوں کے بال اور عورت کی شرمگاہ کے بال، مونڈتے ہوئے مقعد (یعنی پاخانہ کے مقام) تک مونڈیں بلکہ مقعد کے ارد گرد کے بال بھی مونڈنا بہتر ہیں۔

البتہ مرد و عورت کی رانوں کے بال اس حد میں داخل نہیں ہیں لیکن انہیں صاف کرنا جائز ہے۔

2- مرد و عورت دونوں کیلیے بغلوں کے بالوں کو اکھاڑنا سنت ہے اور مونڈنا یا پاؤڈر یا ہیئر ریمؤر کریم وغیرہ سے بھی دور کرنا جائز ہے۔

مرد کو ناف کے نیچے کے بالوں کو استرے یا ریزر وغیرہ سے مونڈنا چاہیے، چونے ،پاؤڈر اور ہیئر ریمؤر کریم وغیرہ سے بھی دور کرنا جائز ہے، جبکہ عورت کیلیے ان بالوں کو اکھاڑنا سنت ہے اور چونے ،پاؤڈر اور ہیئر ریمؤر کریم وغیرہ سے بھی دور کرنا جائز ہے۔

اور عورت کیلیے استرے ،سیفٹی اور ریزر وغیرہ سے بھی ان بالوں کو دور کرنا جائز ہے مگر نوجوان عورت کو ان چیزوں کو استعمال کرنے سے بچنا چاہیے۔

3- ایک ہفتے تک انہیں دور کر لینا مستحب ہے، جمعہ کے دن دور کرنا افضل ہے، جبکہ پندرہ دن تک بھی جائز ہے، البتہ چالیس روز سے زیاده رکھنے کی اجازت نہیں، چالیس روز کے بعد گنہگار ہوں گے، ایک، دو بار میں ایسا کرنے سے گناہِ صغيره ہوگا، اور اس کی عادت ڈالنے سے گناہِ کبیرہ ہوگا۔

چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ :

"وقت لنا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم في قص الشارب و تقليم الأظفار ونتف الإبط و حلق العانة أن لا نترك أكثر من اربعين ليلة”

یعنی ہمارے لئے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیرِ بغل بال اکھاڑنے اور زیرِ ناف بال مونڈنے کے لئے ایک وقت مقرر فرمایا کہ ہم میں سے کوئی شخص چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے۔

(صحیح مسلم، کتاب الطهارة باب خصال الفطرة، جلد1 صفحہ 129 قدیمی کتب خانہ کراچی)

علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"الشعر القريب من فرج الرجل و المرأة و مثلها شعر الدبر بل هو أولى بالازالة لئلايتعلق به شیء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر”

یعنی وہ بال جو مرد و عورت کی شرمگاہ کے ارد گرد ہوتے ہیں، یونہی مقعد کے اردگرد کے بال صاف کرنا اَوْلیٰ ہے تاکہ پتھر کے ساتھ استنجاء کے وقت نجاست بالوں کے ساتھ نہ لگے۔

(درمختار جلد 3 صفحہ 48 دارالکتب العلمیہ بیروت)

عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"يبتدئ من تحت السرة ولو عالج بالنورة یجوز۔ کذا فی الغرائب ۔ وفی الاشباہ : والسنة في عانة المرأة النتف”

یعنی ناف کے نیچے سے ابتداء کرے گا اور اگر نورہ (یعنی چونے) سے صاف کیے تو بھی جائز ہے، ایسے ہی "غرائب” میں ہے، اور اشباہ میں ہے کہ : عورت کے ان بالوں میں اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔

( ردالمحتار جلد 9 صفحہ 670 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :

اگر مرد اپنے زیرِ ناف کے بال مقراض سے تراشے یا عورت استرہ لے تو جائز ہے یا نہیں؟

تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :

"حلق و قصر و نتف و تنور یعنی مونڈنا، کترنا، اکھیڑنا اور نورہ لگانا سب صورتیں جائز ہیں کہ مقصود اس موضع (جگہ) کا پاک کرنا ہے اور وہ سب طریقوں میں حاصل”۔

(فتاوی رضویہ جلد22 صفحہ 600 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے، ہر ہفتہ میں نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیرِ ناف دور کرنا مستحب ہے، اور بہتر جمعہ کا دن ہے اور پندرہویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا مکروہ و ممنوع۔ موئے زیرِ ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہئے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال، چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابن چلا ہے، اس سے دور کرے، یہ بھی جائز ہے، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے”.

مزید اگے تحریر فرماتے ہیں :

"بغل کے بالوں کا اکھاڑنا سنت ہے اور مونڈنا بھی جائز ہے”۔

(بہار شریعت جلد 3 حصہ 16 صفحہ 584، 585 مکتبہ المدینہ کراچی)

مفتی پاکستان، حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین امجدی قادری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"ناف سے نیچے خصیتین اور عضوِ تناسل کے اردگرد کے بال صاف کرنا سنت ہے، اور دُبر (یعنی پاخانہ کے مقام) کے بال صاف کرنا مستحب ہے”۔

(وقار الفتاوی جلد دوم صفحہ 541 بزم وقارالدین کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عز وجل وصلی الله علیہ و آلہ وسلم

کتبہ

ابواسیدعبیدرضامدنی

Leave a Reply