نہ چاہتے ہوئے طلاق دے دیا تو کیا حکم ہے ؟ علامہ کمال احمد علیمی
میں ساجد علی واسد علی میری بیوی میرے ساتھ زبان درازی کرتی ہے گھر میں کسی کی عزت نہیں کرتی میری بھی کوئ عزت نہیں کرتی روزانہ زبان درازی کرتی رہتی ہے اور ایک دن ایسا آیا کہ میں اپنے آپ کو کھو بیٹھا اور غصے میں آکر نہ چاہتے ہوۓ بھی طلاق دے دیا جبکہ میں نہیں چاہتا تھا میرا مقصد صرف ڈرانا تھا، میں اپنے زبان سے کہا کہ ” میں ساجد علی واسد علی قرۃالعین کو طلاق دیا”تین بار کہہ دیا –
الجواب بعون اللہ الوھاب
مذکورہ صورت میں عورت پر تین طلاق مغلظہ واقع ہو گئی،نہ چاہتے ہوئے بھی الفاظِ طلاق بولنے سے طلاق ہوجاتی ہے۔اب وہ دونوں میاں بیوی نہیں۔عورت ساجد علی کے گھر میں عدت گزار کر اس کے علاوہ جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
اور اگر عورت دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو عدت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرےاور شوہر ثانی وظیفہ زوجیت کے بعد اسے طلاق دے، پھر بعد انقضاے عدت عورت پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے.
قرآن مجید میں ارشاد ہے : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-(البقرۃ :٢٢٩)
نیز ارشاد ہے: فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(البقرۃ :٢٣٠)
حدیث شریف میں ہے: "عن عائشة قالت : جاءت امرأة رفاعة القرظي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالت : إني كنت عند رفاعة فطلقني فبت طلاقي فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وما معه إلا مثل هدبة الثوب فقال : ” أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة ؟ ” قالت : نعم قال : ” لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك۔” (مشکوٰہ المصابیح،باب المطلقۃ ثلاثا، الفصل الاول،ج:۲،ص:۲۹۳، )
فتاوی عالم گیری میں ہے :” وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ۔” (الفتاوى الہندیۃ ، ج:١ ص: ٤٧٣)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ : کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی
التصحیح : محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی ٢٦ذوالقعدہ ١٤٤٤ھ / ١٦ جون ٢٠٢٣ء