مستعمل پانی کے غیر مستعمل میں ملنے کا حکم
السلام علیکم ورحمۃاللہ
سوال : ایک شخص نے غسل کے لئے ایک بالٹی میں پانی بھرا اور اس کو اونچی جگہ پر رکھ دیا اب غسل کی نیت سے پہلے سیدھا ہاتھ دھویا پھر الٹا ہاتھ دھونے کے لئے ٹنکی کے نیچے ہاتھ لگایا اور ہاتھ پر ایک بار پانی گزر گیا ابھی دھو ہی رہا تھا کہ ہاتھ اوپر بڑھ گیا اور ٹنکی میں لگ گیا اور پانی کی چھینٹے اوڑیں اور بالٹی میں چلی گئیں اسی سے غسل کر لیا تو کیا غسل ہو گیا؟
سائل:حافظ عبد المالک یاقوت گنج فرخ آباد یوپی
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب ۔
ہاتھ لگنے سے ٹنکی کا پانی بالٹی میں گیا یا دھلے ہوے ہاتھ کے قطرے گئے دونوں صورتوں میں پانی پاک اور پاک کرنے والا ہے اس سے کیا ہوا غسل درست ہے اسی طرح پہلی بار کا دھوون گیا تب بھی پانی پاک اور پاک کرنے والا ہے اسلئے کہ بالٹی کا غیر مستعمل پانی اس سے زیادہ ہے مگر اس صورت میں شرط یہ ہے کہ ہاتھ میں نجاست حقیقیہ نہ ہو ورنہ بالٹی کا پانی ناپاک ہوجائے گا ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
"اور مائے مستعمل اگر غیر مستعمل میں مل جائے تو مذہب صحیح میں اُس سے وضو جائز ہے جب تک مائے مستعمل غیر مستعمل سے زائد نہ ہوجائے اگرچہ مستعمل پانی دھار بندھ کر گراہو اور بعض نے کہا اس صورت میں بھی مستعمل فاسد کردے گا اور وضو جائز نہ ہوگا اگرچہ غیر مستعمل زائد ہو مگر ترجیح مذہبِ اول کو ہے۔
فی فتاوی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتقض من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل منہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمّد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۔
فتاوٰی خلاصہ میں ہے اگر جُنبی شخص کے جسم سے بوقتِ غسل کچھ چھینٹے برتن میں گر گئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، ہاں اگر باقاعدہ بَہہ کر پانی گرا تو ناپاک ہوگا اور حمام کے حوض کا بھی یہی حکم ہے اور امام محمد کا قول ہے کہ صرف اُسی وقت ناپاک ہوگا جب وہ پاک پانی پر غالب ہوجائے ۔
(خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارت ۱/۸)
وفی الدر المختار یرفع الحدث بماء مطلق لابماء مغلوب بمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطہیر بالکل والا لا علی ما حققہ فی البحر والنھر والمنح اھ۔ ملتقطا واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔
اور دُرِّمختار میں ہے کہ مطلق پانی سے حَدَث کو زائل کرے نہ کہ اُس پانی سے جس پر مستعمل پانی غالب ہو اگر مطلق پانی آدھے سے زائد ہو تو کل سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں، بحر، نہر اور منح میں یہی تحقیق ہے اھ ملتقطا ۔
( الدرالمختار،باب المیاہ، ۱/۳)(فتاوی رضویہ، ج٢، ص٣٧)
واللہ تعالی اعلم
مفتی شان محمد المصباحی القادری
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
٢٢جون٢٠١٩