کسی مسلمان دکان دار سے گوشت خریدنے کا حکم
محترم و معزز مفتی صاحب ، آپ کی خدمت میں سوال عرض ہے
ہمارے ملک میں ایک ذبح خانہ ہے جس میں مسلمان کام کرتے ہیں لیکن ذبح خانہ کا مالک کافر ہے۔
کچھ سال پہلے اس ذبح خانہ نے ہاتھ کے ذبیحہ کے ساتھ مشینی ذبیحہ کا طریقہ بھی شروع کردیا۔
دن میں کچھ گھنٹے مرغیوں کو ہاتھ سے ذبح کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کچھ گھنٹے مشین سے۔
حلال سرٹیفکیٹ دینے والا ادارہ دونوں طریقوں کو حلال سمجھتا ہے اور دونوں طریقوں پر ذبح ہونے والے مرغیوں کو ایک ہی حلال سرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے۔
دونوں میں تمیز کرنے کے لئے مالک کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے ذبح ہونے والی مرغیوں کے ڈبے پر حلال لکھا جائےگا اور مشین سے ذبح ہونے والا مرغیاں کے ڈبے پر کچھ نہیں لکھا جائے گا۔
حلال تحقیقی ادارہ جو حلال سرٹیفکیٹ دیتا ہے وہاں تحقیق کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتے
وہاں جو مسلمان کام کرتے ہیں ان کے نزدیگ مشینی ذبیحہ بھی حلال ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کافر کی اس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ جس ڈبے پر حلال لکھا گیا وہ ہاتھ کا ذبیحہ ہے؟
ہمارے مارکیٹ میں اکثر گوشت یا تو مشینی ذبیحہ کا ہے یا تو اسی مشکوک ذبح خانہ سے آتا ہے، کیا ایک مسلم دوکاندار کا خبر کافی ہے جب وہ کہتا ہے کہ یہ گوشت ہاتھ کا ذبیحہ ہے یا اس پر اور تفتیش کرنے کی ضرورت ہو گی ؟
المستفتی
محمد یونس ہالینڈ یورپ
الجواب:
گوشت کے بارے میں کافر کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگرچہ وہ ہزار بار کہے کہ جس ڈبے پر حلال لکھا ہوا ہے وہ مسلم کے ہاتھ کا ذبیحہ ہے۔امامِ اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
” حکم شرعی یہ ہے کہ مشرک یعنی کافر غیر کتابی سے گوشت خریدنا جائز نہیں، اور اس کا کھانا حرام ہے، اگر چہ وہ زبان سے سو بار کہے کہ یہ مسلما ن کاذبح کیا ہوا ہے، اس لئے کہ امرونہی میں کافر کا قول اصلا مقبول نہیں”
(فتاوی رضویہ ج٨ص٣۴٩)
یوں ہی حلال تحقیقی ادارہ کے حلال سرٹیفکٹ کا اعتبار نہیں ہے۔(خاص کر اس صورت میں اس کی بے اعتباری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کہ یہ سرٹیفکٹ جاری کرنے والے جانور کے ذبح کی جگہ موجود نہیں ہوتے اور مشینی ذبیحہ کے لیے بھی حلال سرٹیفکٹ جاری کر دیتے ہیں) بلکہ شریعت میں گوشت حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حلال جانور شرعی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہو اور وقتِ ذبح سے لے کر مسلمان کی خریداری تک وہ گوشت کسی نہ کسی مسلمان کی نگرانی میں رہا ہو۔اگر ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اس طرح کافر کے قبضہ میں رہا کہ کوئی مسلمان اس کا نگراں نہ ہو تو اس گوشت کا کھانا حلال نہ ہوگا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:
"اگر وقتِ ذبح سے وقتِ خریداری تک وہ گوشت مسلمان کی نگرانی میں رہے، بیچ میں کسی وقت مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہو اور یوں اطمنانِ کافی حاصل ہو کہ یہ مسلمان کا ذبیحہ ہے تو اس کا خریدنا جائز اور کھانا حلال ہوگا”۔
(فتاوی رضویہ ج٨ ص٣۴٩)
اور تحریر فرماتے ہیں:
"وہ شرطیں جو ان (کافروں)سے کی جارہی ہیں ان میں مسلمانوں کی نگرانی اس طرح کی ہو جیسی ہم نے بیان کی کہ وقتِ ذبح سے وقتئ خریداری تک کسی آن مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہوورنہ کافی نہیں” (فتاوی رضویہ ج ٨ ص ٣۵٠ )
پھر اگر کسی مسلمان کے گھر دعوت میں دستر خوان پر گوشت ہو تو یہاں ظنِّ غالب یہی ہے کہ اس گوشت میں حلال ہونے کی ساری شرطیں حاصل ہوں گی اور ہمیں یہاں یہ تحقیق ضروری نہیں ہے کہ
(١)یہ گوشت حلال جانور کا ہے یا حرام جانور کا؟اور (٢) جانور ذبح کرنے والا مسلمان تھا یا کافر؟ اور (٣) جانور ذبح کرتے وقت ذبح کرنے والے نے ذکرِ خدا (مثلاً:بسم اللہ اللہ اکبر) پڑھا تھا یا قصداً چھوڑ دیا تھا؟۔ اور (۴) ذبح میں تین یا چاروں رگیں کٹ گئی تھیں یا نہیں؟وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اگر کسی طرح تحقیق ہوجائے کہ مسلمان کے دستر خوان پر موجود یہ گوشت کسی حرام جانور کا ہے۔ یا کسی کافر کا ذبح کیا ہوا ہے۔ یا ذبح کرنے والے نے وقتِ ذبح قصداً ذکرِ خدا چھوڑ دیا تھا۔یاذبح میں دو یا ایک ہی رگ کٹی تھی تو اس گوشت کا کھانا حرام ہوگا۔
اسی طرح جب کسی مسلمان نے کسی مسلمان دکان دار سے گوشت خریدا تو ظاہر یہی ہے کہ گوشت حلال ہے، لیکن اگر تحقیقِ شرعی سے ثابت ہوجائے کہ یہ گوشت کافر کے ذبیحہ یا مشینی ذبیحہ کا ہے تو اس کا خریدنا اور کھانا بلا شبہہ حرام ہے۔
اب صورتِ مسئولہ میں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس مسلم دکان دار کا یہ کہنا (یہ گوشت ہاتھ کا ذبیحہ ہے) اُس ذبح خانہ کے کافر مالک کے بیان یا حلال تحقیقی ادارہ کے سرٹیفکٹ پر اعتماد کی وجہ سے ہے تو اس مسلمان دکان دار سے خریدے گیے گوشت کے حلال ہونے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔اور اگر خود تحقیق کے بعد خریدے اور بیچے تو اس کے یہاں کا خریدا ہوا گوشت حلال ہوگا۔
اب یہاں جو یہ سوال ہے کہ گوشت خریدنے والے پر تحقیق لازم ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے اگر مستور (ایسا مسلمان جس کا فسق ظاہر نہ ہو) یا عادل کی خبر یا کسی معتمد ذریعہ سے اس مسلمان دکان دار کے یہاں کا گوشت مشتبہ ہو تو تحقیق ضروری ہے ورنہ نہیں۔
امام احمد رضا قدس سرہ سے سوال ہوا کہ سفر میں امام کے عقائد کی تصدیق کی ضرورت ہے یانہیں؟ اس سوال کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا:
"ضرورت ہے اگر محلِ شُبہ ہو مثلاً کسی سے سنا کہ یہ امام وہابی ہے وُہ کہنے والا اگر چہ عادل نہ ہو صرف مستور ہو تحقیق ضرور ہے۔قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کیف وقد قیل”۔(فتاوی رضویہ ج٣ ص ٢٦٣)
اسی فتاوی رضویہ میں ایک دوسرے مقام پر یہ سوال ہے کہ
"کسی مسجد میں جماعت تیار ہے لیکن اتنا وقت نہیں کہ دریافت کیا جائے کہ امام سُنّی ہے یا وہابی، تو جماعت سے نماز پڑھنا چاہئے یا اپنی علیحدہ؟”
اس سوال کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
"جبکہ شُبہ کی کوئی وجہ قوی نہ ہو جماعت سے پڑھے ،پھر اگر تحقیق ہو کہ امام وہابی تھا نماز پھیرے”(فتاوی رضویہ ج٣ ص٢۵٩)
ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ اگر امام کے بدعقیدگی کے شبہہ کی کوئی قوی وجہ ہو تو تحقیق کرنے کا حکم ہے یوں ہی شبہہ کی قوی وجہ ہونے کی صورت میں جماعت جو واجب ہے اس کے ترک کا حکم ہے تو گوشت کھانا جو واجب نہیں ہے وہاں بھی اگر شبہہ کی قوی وجہ ہو تو تحقیق کرنا یا اُس دکان سے خریداری میں احتیاط لازم ہونے کا حکم ہوگا۔
ؐحاصل یہ ہے کہ جس کو اس مسلمان دکان دار کے یہاں کے گوشت کے حرام ہونے کی تحقیق ہو اس کے لیے وہاں سے گوشت خریدنا حرام ہے اور جس کو تحقیق نہیں اس کے لیے خریدنے کی گنجائش ہے جب کہ اس کے نزدیک گوشت کے مشتبہ ہونے کی کوئی قوی وجہ نہ ہو اور اگر گوشت کے مشتبہ ہونے کی کوئی قوی وجہ ہو تو تحقیق ضروری ہے یا اس کی دکان سے خریدنے سے بچنا لازم ہے ۔ہذا ما ظہر لی والعلم بالحق عند اللہ تعالی وھو سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ:محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی۔بستی۔ یوپی۔١۴
/شوال المکرم ١۴۴٢ھ//٢٧/مئی ٢٠٢١ء