مسلم خواتین کی چیخ و پکار اور ہمارا کردار ( ماضی و حال )

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسلم خواتین کی چیخ و پکار اور ہمارا کردار
( ماضی و حال )

( امید ہے کہ پورا پڑھیں گے )

 محمد شہاب الدین علیمی
٢١ جون ٢٠٢٤ع بروز جمعہ

جب ہمارے اندر غیرت و حمیت باقی تھی ، جب ہماری رگوں میں خون دوڑتا تھا ، جب ہمارے دلوں کے اندر ہم دردی تھی تو مسلم خواتین کی چیخ اسلام کے شیروں کو متحرک کرنے کے لیے کافی ہوا کرتی تھی ، اسلامی فوج ان خواتین کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے دشمنوں کے خون کی ندیاں بہا ڈالتی تھی ، وہ ایسا دور تھا جب ہمیں عزت حاصل تھی ، کرامت ہمارے پاس تھی ، رتبہ ہمارا تھا ، ساری زمین ہمارے قدموں تلے تھے ، ساری دنیا ہم سے ڈرتی تھی ، اس دور میں خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا :
"نحن قوم أعزنا الله بالإسلام فإذا ابتغينا العزة في غيره أذلنا الله” ( المستدرک علی الصحیحین )
"اللہ تعالی نے ہم کو اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ، پس اگر ہم عزت غیر اسلام میں تلاش کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں ذلیل فرما دے گا”

کیا آپ کو وہ دور یاد ہے جب مسلم خواتین کی پکار پر غیرت مند حکام اور نڈر اسلامی افواج تڑپ جاتے تھے اور فورا ان کے دین اور عزت و کرامت کی حفاظت کرتے تھے ، آئیے آپ کو ماضی کی طرف لے چلتا ہوں۔

ہمارے آقا علیہ الصلاۃ و السلام نے مدینہ شریف کا لشکر صرف ایک مسلمان عورت کی عزت کا بدلہ لینے کے لیے تیار کیا تھا اور سارے یہودیوں کو جلا وطن کر دیا ، ہند و سندھ کی فتح کی وجہ ایک مسلم یتیم خاتون کی پکار تھی ، جس نے حجاج کو وا حجاجاہ! کہہ کر مدد کے لیے پکارا تھا ، عموریہ جو نصاری کی سب سے مقدس سرزمین تھی وہ صرف ایک مسلم عورت کی پکار "وا معتصماہ!” کہنے کی وجہ سے فتح ہوئی۔

اس اجمال کی تفصیل

رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بہت غضبناک تھے :

ابن ہشام نے اپنی تاریخ میں لکھا کہ ایک عربی عورت بنی قینقاع ( یہودیوں کا قبیلہ ) کے بازار میں کچھ بیچنے آئی ، بیچنے کے بعد ایک یہودی سنار کے پاس کسی کام سے بیٹھ گئی ، کچھ یہودی اس عورت کے چہرے سے نقاب اتارنا چاہ رہے تھے ، اس نے انکار کر دیا ، تو سنار نے اس کے تہبند کا ایک کنارہ اس کے پیٹھ کے حصے والے کپڑے سے باندھ دیا ، جب وہ اٹھی تو اس کا ستر کھل گیا اور وہ یہودی اس پر ہنسنے لگے ، اس عورت نے چیخ کر مدد کے لیے مسلمانوں کو پکارا ، فورا ایک مسلم جوان سنار کے اوپر کود پڑا اور اس کو قتل کر دیا ، پھر یہودیوں نے اس مسلمان کو قتل کر دیا ، مسلمانوں نے اور دوسرے مسلمانوں کو مدد کے لیے بلایا اور مسلمان اور یہودیوں کے درمیان ایک فساد برپا ہو گیا ، بس واقعہ کے ذریعہ یہودیوں نے اس معاہدہ کو توڑ دیا جو ان کے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ہوا تھا ، دو ہجری نصف شوال کا یہ واقعہ ہے ۔ جب آقا علیہ السلام کو اس بات کی خبر ہوئی تو فورا آپ نے ایک فوج تیار کی اور یہودیوں کا محاصرہ کر لیا ، کئی دن تک محاصرہ چلتا رہا یہاں تک کہ یہودی پریشان ہو کر باہر آئے ، تو رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول آگے آیا اور سرکار علیہ السلام سے عرض کرنے لگا کہ میرے دوستوں کے بارے میں بھلائی کیجیے ، رسول پاک ﷺ نے اس سے اعراض کیا ، وہ بار بار اصرار کرتا رہا ، رسول پاک علیہ السلام بہت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخی کے بجائے شدتِ غضب سے مائل بہ سیاہ ہو گیا ، آپ اتنے غضبناک تھے کہ ان سب کو قتل کر دینا چاہ رہے تھے لیکن اس منافق کی وجہ سے آپ نے دوسرا حکم جاری کیا اور آپ نے فرمایا کہ مدینہ شریف سے ان کو بھگا دیا جائے اور سارے یہودیوں کو آپ نے جلا وطن کر دیا ۔

غور کرو اسلام کے ماننے والو! ہمارے نبی ﷺ نے اتنا بڑا قدم صرف ایک عورت کی پکار پر اٹھایا ، اس عورت کی چیخ نے اسلام کے غیرت مندوں کو کیسا ابھارا کہ اس مسلمان نے فورا اس سونار کو قتل کر دیا جس نے مسلم خاتون کی ہتک عزت کی تھی ، اور رسول پاک ﷺ نے کچھ ہی دنوں میں سارے یہودیوں کو جلا وطن کر کے مدینہ شریف سے دور کر دیا ۔ ہمیں آج کیا ہو گیا کہ بڑے بڑے حادثے ہمیں بیدار نہیں کر پا رہے!

سندھ کی فتح کا سبب ایک مسلم خاتون کی پکار

حجاج بن یوسف ثقفی کے دور میں اسلامی فتوحات کا دائرہ کافی وسیع ہوا ، حجاج اور سندھ کے راجا داہر کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں ، داہر نے حجاج کی فوج کو کئی بار شکست دی حجاج نے ان شکستوں کے بعد اتنا بڑا اقدام نہ کیا جتنا ایک عربی مسلم خاتون کے استغاثے پر کیا تھا ۔ واقعہ یوں پیش آیا کہ موجودہ سری لنکا کے بادشاہ نے حجاج کا قرب پانے کے لیے کچھ مسلم عورتوں کو تحفے میں حجاج کے پاس بھیجا جو اس کے ملک میں پیدا ہوئی تھیں ؛ لیکن ان کے والد انتقال کر چکے تھے جو تجارت کے لیے وہاں آئے ہوئے تھے ، یہ خواتین کشتی میں سوار ہو کر حجاج کے پاس جا رہی تھیں ، کشتی جب مقام دیبل موجودہ کراچی پہنچی تو سمندری ڈاکوؤں نے کشتی اور ساز و سامان کو قبضے میں لے لیا اور عورتوں کو قید کر لیا ، اس مصیبت میں بنو یربوع کی ایک عورت نے حجاج کو ندا دی "یا حجاجاہ”! ۔ جب حجاج کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے کہا "یا لبیک” ، اور فورا داہر کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ عورتوں کو چھوڑ دے ، راجا داہر نے کہا کہ وہ سمندری ڈاکو تھے ، مجھے ان پر کوئی قابو نہیں ہے ، حجاج نے جب یہ سنا تو غضبناک ہو گیا اور فورا یکے بعد دیگرے اپنے دو عاملوں کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا ؛ لیکن دونوں شہید ہو گئے پھر حجاج نے محمد بن قاسم کو اس کی ذمہ داری دی ، وہ جنگ کے لیے رے گئے ہوئے تھے ، حجاج نے وہاں دوسرے کو قائم مقام کیا اور محمد بن قاسم کو بلا لیا ، 20 ہزار کا لشکر تیار کیا ، جس میں 6 ہزار گھوڑسوار تھے ، ایک بہت بڑی کشتی تیار کی گئی ، جس میں پیدل چلنے والی فوج اور ساز و سامان تھے ، اس میں پانچ بڑے منجنیق بھی تھے ، لشکر میں ہر طرح کے سامان کا خیال رکھا گیا یہاں تک کہ سوئی دھاگا تک کو نہ چھوڑا گیا ، حجاج نے یہاں تک انتظام کیا کہ اس کے حکم پر روئی کو سرکے میں بھگو کر سکھا لیا گیا ، حجاج نے کہا کہ سندھ میں سرکہ نہیں ملےگا ؛ لہذا روئی کو گرم پانی میں رکھ کر جوش دینا اور چھان کر کے پینا ، الغرض ہر چیز کا خیال رکھا گیا ، حجاج نے اس کام میں چھ کروڑ درہم خرچ کیے اور محمد بن قاسم کو تنبیہ کی کہ ہر تین دن کے بعد خط پہنچنا چاہیے ، سلسلہ منقطع نہ ہو۔

90 ہجری میں محمد بن قاسم روانہ ہوئے اور موجودہ کراچی پہنچ کر وہاں فتح حاصل کی ۔ پھر وہاں مسجد تعمیر کی اور 4000 مسلمان وہاں آباد کر کے آگے بڑھے ، جس شہر میں آپ پہنچتے اس کو فتح کر لیتے ، بت خانوں کو مسمار کر کے اسلامی شعائر کو قائم فرماتے اور مسلمانوں کو آباد کرتے ، لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے ، یہاں تک کہ سندھ پہنچے اور راجا داہر کو بھی شکست دی۔ 93 ہجری میں ایک سخت معرکہ ہوا اور راجا داہر کا سر آپ نے حجاج کے پاس بھیجا ۔ حجاج نے محمد بن قاسم پر چھ کروڑ درہم خرچ کیا تھا اور ان تمام فتوحات کے بعد بارہ کروڑ درہم مال غنیمت ہاتھ آیا ، تو حجاج بہت خوش ہوا اور کہا : "ہمارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ، ہمارا کام پورا ہو گیا ، اور مزید ہمیں چھ کروڑ درہم اور داہر کا سر ملا ۔ پھر محمد بن قاسم نے فتح کا سلسلہ جاری رکھا اور 95 ہجری میں کشمیر تک اسلام کی روشنی پھیلا دی ۔ صرف چھ سال میں اتنی وسیع فتح تعجب خیز ہے ۔

غور فرمائیں! ہند و سندھ کی یہ عظیم الشان فتح ، لاکھوں لوگوں کو اسلام کے دامن میں پناہ کا ملنا ، کیوں کر ہوا ؟ یہ صرف ایک مسلمان عورت کی پکار تھی ، جس کے سبب صاحب غیرت و حمیت حاکم نے فورا اقدام کیا اور اسلامی خاواتین کی عزت و کرامت کی حفاظت کی۔

وا معتصماہ! !

روم کے بادشاہ تحفیل میکائیل نے ایک لاکھ سے زیادہ تعداد کی ایک بڑی فوج تیار کی اور 223 ہجری میں بلاد اسلام پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا ، اس فوج نے بہت سے شہروں اور علاقوں کو فتح کر لیا وہاں کے مردوں کو قتل کر کے ان کا مثلہ کیا ، ان کے ناک کان کاٹ دیے ، آنکھوں کو پھوڑ دیا ، بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا ، ان قیدی خواتین میں ہاشمی خاندان کی ایک عورت جو رومیوں کے قبضے میں تھی اس نے معتصم کو ندا دی "وا معتصماہ”! ۔ جب معتصم کو اس کی خبر پہنچی تو اس وقت وہ تخت شاہی پر بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا : "لبیک لبیک” ، اور اپنے محل میں فورا اعلان کیا دشمنوں کی طرف کوچ کرو ، اور کچھ ہی لمحوں میں پانچ لاکھ مجاہدین کا لشکر تیار کیا اور پوچھا کہ روم کا کون سا شہر سب سے مضبوط اور محفوظ ہے ؟ اسے بتایا گیا : عموریہ ، ابتدائے اسلام سے کسی نے اس پر حملہ نہیں کیا وہ نصاری کی آنکھ اور جڑ ہے ، ان کے نزدیک وہ قسطنطنیہ سے بھی عظیم ہے، معتصم عموریہ پہنچا ، اور چھ رمضان 223 ہجری کو اس محاصرہ کر لیا ، منجنیق کو نصب کرایا اور حملہ شروع کر دیا یہاں تک کہ ایک بڑے معرکے کے بعد عموریہ کو فتح کر لیا ، 55 دن تک محاصرہ جاری رہا چھ رمضان شریف کو محاصرہ کیا گیا تھا اور آخری شعبان میں فتح نصیب ہوئی ، پھر معتصم نے حکم دیا کہ بہت بڑی آگ عموریہ کے گرد لگائی جائے اور شہر کو جلا کر سب کچھ ختم کر دیا جائے۔

غور کریں کیسی غیرت تھی ہمارے اندر! صرف ایک خاتون کی پکار پر پانچ لاکھ کی بڑی فوج تیار کر کے حملہ کیا گیا ، بلکہ سارے شہر کو ہی تباہ کر دیا گیا ، اس کے بعد سے یہ جملہ وا معتصماہ شجاعت کا رمز بن گیا ، عورتوں کی حفاظت و دفاع کی علامت بن گیا ۔

آج امت مسلمہ پر کیا کیا مصیبتیں نہیں ہیں ، غم و آلام کا ایک نا پیدا کنار سمندر ہے ، اہل فلسطین پر ہونے والے مظالم ، وہاں کے خواتین کی آبرو ریزی ، الشفاء ہاسپیٹل میں ٨٠ عورتوں کے ساتھ بدکاری ، اہل ہند ، برما اور شام پر ٹوٹتی ہوئی قیامتیں ، کیا کیا تکلیفیں نہیں ہیں ، جن سے امت مسلمہ آج دو چار ہے ، لیکن ہماری قوم کے وہ مسلمان جن کے پاس طاقت ہے ، قوت ہے ، اقتدار ہے ، ان کی غیرت کہاں ہے ؟ ماضی کی حمیت کہاں گم ہو گئی ؟ آج رد عمل تو دور کی بات کوئی بولتا تک نہیں ، دنیا کی محبت نے ہماری غیرت و حمیت اور ہمدردی کو کچل ڈالا ہے ، قیامت سے پہلے امت پر یہ ایک قیامت ہے ، ماضی ہمارا تابناک تھا ، لیکن حال ہمارا ظلمت کدہ ہے ، ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرے ، اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان اتحاد و اتفاق فرمائے اور ہماری غیرت بیدار فرمائے۔

Leave a Reply