مسلمان کو ارتدادکی دعوت دینا کافروں کے قتل سے زیادہ سخت ہے

مسلمان کو ارتدادکی دعوت دینا کافروں کے قتل سے زیادہ سخت ہے

{وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ کَذٰلِکَ جَزَآء ُ الْکٰفِرِیْنَ}(۱۹۱){فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}(۱۹۲){وَقٰتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ فَاِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوٰنَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ}(۱۹۳)
ترجمہ کنزالایمان : اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے ،پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اورایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر۔

ترجمہ ضیاء الایمان : اورکافروں کو جہاں پائوقتل کرواورانہیں وہاں سے نکال دوجہاں سے انہوںنے تمھیں نکالاتھااوران کافسادتوقتل سے بھی سخت ہے اورمسجد حرام شریف کے پاس ان کے ساتھ قتال نہ کرو، جب وہ تم سے نہ لڑیں اوراگر وہ تم سے قتال کریں توتم بھی انہیں قتل کرو ، کافروں کی یہی سزاہے ۔ پھروہ اگرباز آجائیں تو بے شک اللہ تعالی بخشنے والامہربان ہے ۔اوران سے قتال کرتے رہوجب تک کہ فتنہ ختم نہ ہوجائے اورایک اللہ تعالی کی عبادت ہوپھراگروہ باز آجائیں تو صرف ظالموں پر سختی کی سزاباقی رہتی ہے ۔

فتنہ کی اصل کیاہے ؟

أَنَّ الْفِتْنَۃَ أَصْلُہَا عَرْضُ الذَّہَبِ عَلَی النَّارِ لِاسْتِخْلَاصِہِ مِنَ الْغِشِّ، ثُمَّ صَارَ اسْمًا لِکُلِّ مَا کَانَ سَبَبًا لِلِامْتِحَانِ تَشْبِیہًا بِہَذَا الْأَصْلِ، وَالْمَعْنَی:أَنَّ إِقْدَامَ الْکُفَّارِ عَلَی الْکُفْرِ وَعَلَی تَخْوِیفِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعَلَی تَشْدِیدِ الْأَمْرِ عَلَیْہِمْ بِحَیْثُ صَارُوا مُلْجَئِینَ إِلَی تَرْکِ الْأَہْلِ وَالْوَطَنِ ہَرَبًا مِنْ إِضْلَالِہِمْ فِی الدِّینِ، وَتَخْلِیصًا لِلنَّفْسِ مِمَّا یَخَافُونَ وَیَحْذَرُونَ،فِتْنَۃٌ شَدِیدَۃٌ بَلْ ہِیَ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ الَّذِی یَقْتَضِی التَّخْلِیصَ مِنْ غُمُومِ الدُّنْیَا وَآفَاتِہَا، وَقَالَ بَعْضُ الْحُکَمَاء ِ:مَا أَشَدُّ مِنْ ہَذَا الْقَتْلِ الَّذِی أَوْجَبَہُ عَلَیْکُمْ جَزَاء ً غَیْرَ تِلْکَ الْفِتْنَۃِ.

ترجمہ :حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) ر حمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سونے کو آگ پرپیش کرناتاکہ وہ کھوٹ سے پاک اورخالص ہوجائے ، پھراس اصل سے تشبیہ کی وجہ سے ہر سبب اورامتحان اورآزمائش کانام فتنہ بن گیا، تواب معنی یہ ہوگاکہ کفارکااہل ایمان کو ڈرانااورپریشان کرنااوران پر سختی کااقدام اس قدرشدیدتھاکہ وہ اہل خانہ اوراپناوطن ترک کرنے پر مجبورہوگئے تاکہ دین میں ان کی گمراہی سے بچ جائیں اورنفوس ان کی سختیوں سے محفوظ ہوجائیں تویہ شدیدفتنہ ہے بلکہ اس قتل سے بھی جو اس دنیااوراس کی آفات سے خلاصی دے دیتاہے ۔ بعض حکماء نے کہاکہ اس قتل سے جو تم پربدلہ لازم کردے کوئی فتنہ کے علاوہ شدیدنہیں ہے۔

(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۵:۲۸۸)

فتنہ کیاہے ؟

عَنْ مُجَاہِدٍ فِی الْآیَۃِ قَالَ:ارْتِدَادُ الْمُؤْمِنِ إِلَی الْوَثَنِ أَشُدُّ عَلَیْہِ مِنْ أَنْ یَقْتُلَ مُحِقًّا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مجاہد المتوفی : ۱۰۴ھ)رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتنہ سے مراد مومن کابتوں کی عبادت کی طرف لوٹناہے یعنی بندہ مومن کابت کی عبادت کی طرف لوٹنامومن پراس سے زیادہ سخت ہے کہ وہ اعلائے کلمۃ حق کے لئے شہید ہوجائے ۔
(تفسیر مجاہد:أبو الحجاج مجاہد بن جبر التابعی المکی القرشی المخزومی :۲۲۳)

فتنہ عربی زبان کا لفظ ہے، جو متعدد معانی کے لیے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن معروف معنی دنگا فساد ہی ہے۔ اور اسی معنی میں یہ لفظ اردو میں بھی مستعمل ہے۔ روزمرہ کی گفتگو میں بھی فتنہ وفساد وغیرہ الفاظ ہم استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے فرمان شریف کے مطابق امت مسلسل فتنوں کا شکار رہے گی۔

شرک قتل سے بھی سخت ہے

وَأخرج ابْن أبی حَاتِم عَن أبی الْعَالِیَۃ فِی قَوْلہ (والفتنۃ أَشد من الْقَتْل)قَالَ:الشّرک أَشد۔
ترجمہ :امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناامام ابوالعالیہ رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیاہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ فتنہ شرک جس پر تم قائم ہووہ قتل سے بھی بڑاہے ۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن:محمد بن جریر بن یزید أبو جعفر الطبری (۳:۵۶۶)

مسلمان کو کفرکی طرف دعوت دیناقتل سے بھی زیادہ سخت ہے

وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ أَیِ الْفِتْنَۃُ الَّتِی حَمَلُوکُمْ عَلَیْہَا وَرَامُوا رُجُوعُکُمْ بِہَا إِلَی الْکُفْرِ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَقَالَ غَیْرُہُ:أَیْ شِرْکِہِمْ بِاللَّہِ وَکُفْرِہِمْ بِہِ أَعْظَمُ جُرْمًا وَأَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ الَّذِی عَیَّرُوکُمْ بِہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ فتنہ جس پر انہوںنے تمھیں دعوت دی اوران کافروں نے تمھیں جس کفرکی طرف لوٹانے کی کوشش کی وہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے ۔اورعلماء کرام علیہم الرحمہ نے یہ بھی فرمایاہے کہ کفارنے اہل اسلام کو یہ طعنہ دیاکہ تم کفارکو قتل کرتے ہوتواللہ تعالی نے ان کو جواب دیاکہ تمھارااللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنااوراس کاانکارکرنایہ اللہ تعالی کے ہاں زیادہ سخت ہے اس سے جس سے تم اہل اسلام کو عاردلاتے ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح القرطبی (۲:۲۵۰)

مشرکین کافتنہ کیاتھا؟

فِی الْمُرَادِ بِالْفِتْنَۃِ ہاہنا وُجُوہٌ أَحَدُہُمَا:أَنَّہَا الشِّرْکُ وَالْکُفْرُ، قَالُوا:کَانَتْ فِتْنَتُہُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا یَضْرِبُونَ وَیُؤْذُونَ أَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَکَّۃَ حَتَّی ذَہَبُوا إِلَی الْحَبَشَۃِ ثُمَّ وَاظَبُوا عَلَی ذَلِکَ الْإِیذَاء ِ حَتَّی ذَہَبُوا إِلَی الْمَدِینَۃِ وَکَانَ غَرَضُہُمْ مِنْ إِثَارَۃِ تِلْکَ الْفِتْنَۃِ أَنْ یَتْرُکُوا دِینَہُمْ وَیَرْجِعُوا کُفَّارًافَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ، وَالْمَعْنَی:قَاتِلُوہُمْ حَتَّی تَظْہَرُوا عَلَیْہِمْ فَلَا یَفْتِنُوکُمْ عَنْ دِینِکُمْ فَلَا تَقَعُوا فِی الشِّرْکِ وَثَانِیہَا:قَالَ أبو مسلم:معنی الفتنۃ ہاہنا الْجُرْمُ قَالَ:لِأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَمَرَبِقِتَالِہِمْ حَتَّی لَا یَکُونَ مِنْہُمُ الْقِتَالُ الَّذِی إِذَا بدء وا بِہِ کَانَ فِتْنَۃً عَلَی الْمُؤْمِنِینَ لِمَا یَخَافُونَ عِنْدَہُ مِنْ أَنْوَاعِ الْمَضَارِّ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارکافتنہ یہ تھاکہ وہ مکہ مکرمہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکلیفیں دیتے اورگستاخیاں کرتے تھے یہاں تک کہ وہ حبشہ چلے گئے ، پھربھی انہوںنے اذیتیں جاری رکھیں حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ ہجرت کرگئے ۔
اس فتنہ سے ان کی غرض یہ تھی کہ یہ اپنے دین کوترک کرکے کافرہوجائیں (نعوذ باللہ من ذالک) تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی تومعنی یہ ہواکہ ان سے لڑوتاکہ تم ان پر غالب آجائواوریہ تمھیں ، تمھارے دین سے فتنہ میں نہ ڈال سکیں تاکہ تم شرک میں نہ پڑو۔الشیخ ابومسلم رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاہے کہ یہاں فتنہ کامعنی جرم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے خلاف قتال کاحکم دیا تاکہ وہ قتال نہ سکیں کہ جب وہ قتال کرتے ہیں تواہل ایمان کے لئے فتنہ بن جاتاہے اوریہ اس سے نقصان کاخوف رکھتے ہیں۔
( التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۵:۲۸۸)

مشرکین کو حرم میں ہی قتل کردو

وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ فیکون المقصود حث المؤمنین علی قتلہم إیاہم فی الحرم ای لا تبالوا بقتلہم أینما وجدتموہم فان فتنتہم ای ترکہم فی الحرم وصدہم إیاکم عن الحرم أشد من قتلکم إیاہم فیہ وَلا تُقاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ ای لا تفاتحوہم بالقتل ہناک وہتک حرمۃ المسجد الحرام حَتَّی یُقاتِلُوکُمْ فِیہِ حتی یبدأوکم بالقتال فی الحرم وہذا بیان لشرط کیفیۃ قتالہم فی ہذہ البقعۃ خاصۃ فیکون تخصیصا لقولہ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ فَإِنْ قاتَلُوکُمْ ثمۃ فَاقْتُلُوہُمْ فیہ ولا تبالوا بقتالہم ثمۃ لانہم الذین ہتکوا حرمتہ فاستحقوا أشد العذاب۔کَذلِکَ ای مثل ذلک الجزاء علی ان الکاف فی محل الرفع بالابتداء جَزاء ُ الْکافِرِینَ یفعل بہم مثل ما فعلوا بغیرہم فَإِنِ انْتَہَوْا عن القتال وکذا عن الکفر فان الانتہاء عن مجرد القتال لا یوجب استحقاق المغفرۃ فضلا عن استحقاق الرحمۃ فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ یغفر لہم ما قد سلف وَقاتِلُوہُمْ ای المشرکین حَتَّی لا تَکُونَ الی ان لا توجد ولا تبقی فِتْنَۃٌ ای شرک یعنی قاتلوہم حتی یسلموا فلا یقبل من الوثنی الا الإسلام فان أبی قتل۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اہل اسلام کو مشرکین کے قتل کی ترغیب دلارہاہے کہ اے اہل اسلام ! تم حرم شریف میں کفارکوقتل کرنے کی کچھ بھی پروانہ کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، کیونکہ یہ میں نے ہی حکم دیاہے ، فلہذاجہاں بھی وہ تمھیں ملیں انہیں قتل کردوکیونکہ انہوںنے کون سی کمی کی ہے ، انہوں نے تمھیں حرم شریف میں قتل کیااورپھرتمھیں مکہ معظمہ کی حاضری سے روکا۔ ان کی طرف سے صادرہونے والی حرکتیں بہت زیادہ سخت ہیں اس سے کہ تم ان کو حرم مکرم میں قتل کرو۔

اورتم مشرکین کو حرم شریف میں قتل کرنے کاآغاز نہ کرناجب تک کہ وہ تم کو قتل کرنے سے آغاز نہ کریں ، اوریہ حملہ صرف اسی مقام پر جنگ کی کیفیت کے ساتھ مخصوص ہوگا، ورنہ {وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ}توتم ان کو قتل کروجہاں بھی ملیں ۔ یہ حکم عام ہے ۔{ فَإِنْ قاتَلُوکُم}اگروہ لوگ اسی مقام یعنی بیت اللہ شریف میں تمھارے ساتھ لڑنے لگ جائیں تو{ فَاقْتُلُوہُمْ}توتم ان کو قتل کرویہ پروانہ کرو کہ بیت اللہ شریف توامن کامقام ہے ہم کیسے ان کے ساتھ قتال کریں ، کیونکہ لڑائی کاآغازاورکعبۃ اللہ کی ہتک کاسلسلہ مشرکین نے ہی شروع کیاہے فلھذااب وہ سخت سے سخت عذاب کے مستحق ہیں اورعذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ تم انھیں جہاں پائوان کوقتل کردو۔
{کَذلِک}یعنی اس جزاء کی مثل ، یہ کاف محل رفع بالابتداء ہے {جَزاء ُ الْکافِرِین}کفارکی جزاء ہے یعنی ان کے ساتھ وہی کیاجائے جو انہوںنے اہل اسلام کے ساتھ کیا۔{ فَإِنِ انْتَہَوْا}پس اگروہ جنگ سے یاکفرسے رک جائیں ۔ اس سے معلوم ہواکہ ان سے جنگ روک دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ اب وہ مغفرت کے مستحق ہوگئے ہیں ، چہ جائیکہ انکو رحمت کامستحق ٹھہرایاجائے ، { فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ}بے شک اللہ تعالی بخشنے والامہربان ہے۔ ان کی گزشتہ غلطیاں بخش دے گا، { فَاقْتُلُوہُمْ}اورمشرکین کے ساتھ جنگ کرو۔ {حَتَّی لا تَکُونَ فِتْنَۃ }یہاںتک کہ فتنہ ختم ہوجائے یعنی مشرکین کے ساتھ جنگ کرویہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں ۔ اس سے یہ معلوم ہواکہ بت پرست کو اسلام پیش کیاجائے اگروہ بت پرستی سے تائب ہوجائے اوراسلام قبول کرلے توفبہاوگرنہ اسے قتل کردیاجائے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۳۰۶)

مشرکین کو جزیرہ عرب سے بھی نکال دیاگیا

أَخْرِجُوہُمْ مِنْ مَنَازِلِکُمْ، إِذَا عَرَفْتَ ہَذَا فَنَقُولُ:إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِأَنْ یُخْرِجُوا أُولَئِکَ الْکُفَّارَ مِنْ مَکَّۃَ إِنْ أَقَامُوا عَلَی شِرْکِہِمْ إِنْ تَمَکَّنُوا مِنْہُ، لَکِنَّہُ کَانَ فِی الْمَعْلُومِ أَنَّہُمْ یَتَمَکَّنُونَ مِنْہُ فِیمَا بَعْدُ، وَلِہَذَا السَّبَبِ أَجْلَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کُلَّ مُشْرِکٍ مِنَ الْحَرَمِ ثُمَّ أَجْلَاہُمْ أَیْضًا مِنَ الْمَدِینَۃِ،وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: لَا یَجْتَمِعُ دِینَانِ فِی جَزِیرَۃِ الْعَرَبِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیاکہ کفارکو مکہ مکرمہ سے نکال دو، اگریہ شرک پرقائم ہیں ، بشرطیکہ تمھیں طاقت ہواورتمھیں معلوم بھی ہو کہ بعدمیں یہ طاقتورہوئے ، اسی وجہ سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حرم شریف سے ہر مشرک کو نکال دیااوراس کے بعد مدینہ منورہ سے نکال دیااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: دودین جزیرہ عرب میں جمع نہیں ہوسکتے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۵:۳۸۸)

قتل فی سبیل اللہ کی چارصورتیں

حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قتل فی سبیل اللہ کی چار صورتیں ہیں۔ مرتدکاقتل ،زانی کاقتل، ظلماً قاتل کاقتل اورحضوتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخ کاقتل اگرچہ ہمارابھائی ہی کیوں نہ ہومگرہے مستحق قتل ۔ عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے ایک گستاخی پر اپنے باپ کو قتل کرنے کاارادہ فرمایا، ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنی گستاخ ماں کو قتل کردیا۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲: ۲۴۴)

Leave a Reply