مسلمان کا مندر کے اندر جاکر کہنا کہ اے بھگوان تو چاہے تو میں کامیاب ہو سکتا ہوں ۔مفتی محمود اختر ممبئی

مسلمان کا مندر کے اندر جاکر کہنا کہ اے بھگوان تو چاہے تو میں کامیاب ہو سکتا ہوں ۔ مفتی محمود اختر ممبئی

سوال :

مولانا زید صاحب ( جو امام بھی ہیں ) نے دوران تقریر غسل و حمام کے متعلق فرمایا کہ صرف بسم اللہ پڑھ کر حمام میں داخل ہو جائے اور غسل پورا ہونے تک حمام میں کچھ نہ پڑھا جائے کیونکہ منع ہے ۔منع ہے سخت منع ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا غسل جنابت اور غسل کی نیتیں اور دعائیں حمام سے باہر ہی پڑھ لی جائیں یا اندر جاکر وقت غسل پڑھی جائیں اور جن لوگوں کا برسوں سے یہ عمل رہا ہے کہ حمام ہی میں تسبیح و تہلیل کلمہ وغیرہ پڑھتے ہیں ان لوگوں کے لئے کیا حکم ہے ؟

(۲) ایک مسلم امیدوار الیکشن لڑنے کھڑا ہو ااور پہلے مندر میں جاکر ٹیکہ لگوایا اور پھر گھنٹہ بجابجاکر یوں کہا کہ اے بھگوان اگر تو چاہے تو میں جیت سکتا ہوں ۔ ایسے شخص کے لئے کیا حکم ہے کیا وہ مسلمان ہے اس کے ایمان و نکاح کا کیا حکم ہے ،ایسے شخص سے میل جول رکھنا،سلام و کلام کرنا،غمی و خوشی کے موقع پر اس کے گھر جانا اسے اپنے گھر بلانا کیسا ہے اور جو ان سے دلی تعلق رکھے اس کے لئے کیا حکم ہے ؟

(۳) ہندولوگ یا کوئی لیڈر اپنے مقصد کے لئے روزہ دار مسلمانوں کا روزہ افطار کرانے کے لئے پارٹی دیتے ہیں تو اس میں ہر فرقے کے لوگ جوق در جوق راضی بہ رضا شریک افطار ہوتے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے ؟


جواب :

مستحب یہ ہے کہ غسل خانہ میں نہ کوئی کلام کیا جائے اور نہ ہی کوئی دعا وغیرہ پڑھی جائے ۔رد المختار میں ہے و یستحب ان لا یتکلم بکلام مطلقا اما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف و اما الدعاء فلانہ فی مصب المستعمل و محل الاقذار والاوحال( فتاویٰ شامی ج ۱ ص ۱۱۵) شہزادۂ اعلٰحضرت سرکار مفتیٔ اعظم ہند قدس سرھما العزیز فرماتے ہیں ’’غسل خانہ میں جانے سے پہلے ستر کھولنے سے پہلے بسم اللہ شریف پڑھ لیں ،غسل خانہ میں جاکر کوئی دعا پڑھنا نہ چاہئے ( فتاویٰ مصطفویہ ص ۱۳۷) بعض حضرات نے حمام میں دعا وغیرہ کی عدم کراہت کا قول فرمایا ہے وہ بیان جواز کے لئے ہے مثلا حضرت سیدنا میر عبدالواحد بلگرامی قدس سرہ العزیز ذکر سے متعلق فرماتے ہیں ’’اور روایات اس باب میںوہ ہیں جو شرح الاوراد ،عمدۃ الابرار ،مجموع النوازل ،فتاویٰ خانیہ ،حامیہ ،ملتقط اور مزید میں ہیں کہ حمام میںبلند آواز سے قرآب پڑھنا مکروہ ہے اور آہستہ جی میں پڑھنا مکروہ نہیں البتہ تسبیح و تہلیل ( سبحان اللہ ،لاالٰہ الا اللہ پڑھنا) مکروہ نہیں اگرچہ بلند آواز سے ہو۔ جامع عصمت اللہ نے فرمایا یہ بات تو معلوم ہے کہ حمام میں اکثر نجاستیں وغیرہ ہوتی ہیں اور بعض آدمی اپنا ستر وغیرہ کھولے ہوتے ہیں پھر بھی تسبیح و تہلیل حمام میں بلند آواز سے جائز ہے تو گھروں میں ،مسجدوں میں گوشوں میںمکان کی خلوتوں میں جائز ہونا بدرجۂ اولیٰ ثابت ہے ۔ ( سبع سنابل ) تسبیح و تہلیل مکروہ نہیں یہ فرمان بیان جوازکے لئے ہے لہذایہ کہا جاسکتا ہے کہ حمام میں دعا وغیرہ پڑھنا جائز ہے مگر مستحب یہ ہے کہ حمام میں نہ پڑھی جائے بلکہ حمام میں داخل ہونے سے پہلے ہی پڑھی جائے اسی لئے علامہ شامی نے فرمایا ’’ ثم اجاب بحملہ علیٰ بیان الجواز او ان المسنون ترکہ مالا مصلحۃ فیہ ظاھرۃ اھ اقول او المراد الکراھۃ حال الکشف فقط کما افادہ التعلیل السابق۔

( رد المختار ج ۱؍ ص ۱۱۵)

           غالباً امام صاحب نے یہی بتانا چاہا کہ حمام میں داخل ہونے سے پہلے ہی پڑھ لے حمام میں پڑھنا خلاف استحباب اور خلاف اولیٰ ہے ۔ اور منع سے یہی مراد لیا ہو ان سے اس کی وضاحت کرائی جاسکتی ہے ۔ جنہوں نے بسم اللہ شریف وغیرہ ستر کھولنے سے پہلے حمام میں پڑھی انہوں نے مستحب کے خلاف عمل کیا مگر ان پر گناہ کا حکم نہ ہوگا ۔

واللہ تعالیٰ اعلم ۔

(۲) قشقہ (تلک ) لگواناشعار کفر ہے ۔اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ قشقہ ضرور شعار کفرو منافی اسلام ہے جیسے زُنار بلکہ اس سے زائد کہ وہ جسم سے جدا ایک ڈورا ہے جو اکثر کپڑوں کے نیچے چھپارہتا ہے اور یہ خاص بدن پر اور بدن میں بھی کہاں چہرے پر اور چہرے میں کس جگہ ماتھے پر جو ہر وقت چمکے اور دور سے کھلے حرفوں میں مونہہ پر لکھا دکھائی دے کہ ھذا من الکافرین

( فتاویٰ رضویہ ج ۶ ص ۸۵)

اسی طرح مندر میں جاکر گھنٹہ بجانابتوں سے سوال کرنا اور اپنی فتح مانگناشعار کفر ہے اور بلااِکراہِ شرعی ایسی حرکت کرنے والا ضرور کافر ہے ۔ صورت مسئولہ میں اگر واقعی اس امیدوار نے مندر میں جاکر قشقہ لگوایا ،بتوں کے سامنے گھنٹہ بجایا ،بتوں سے اپنی فتح کاسوال کیا وہ ضرور کا فر ہوگیا اس پر فرض ہے کہ سچے دل سے کلمہ پڑھ کر نئے سرے سے مسلمان ہو ،بیوی والاہو تو تجدید ایمان کے بعد اس سے تجدید نکاح بھی کرے اگر وہ توبہ اور تجدید اسلام نہ کرے تو مسلمان اس سے قطع تعلق کرلیں،اس کی غمی خوشی میں ہر گزشریک نہ ہوں نہ اس کی دعوت کریں اونہ ہی اس کی دعوت پر جائیں۔ لقو لہٖ تعالیٰ فا ماینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکر یٰ مع القوم الظلمین ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

( ۳) جس دعوت میں کا فر ،بد عقیدہ ،بد مذہب ہر طرح کے لوگ ہوں اس دعوت میں شرکت نہ کریں کہ حدیث شریف میں ہے : ایا کم و ایاھم لا یضلونکم ولایفتنونکم ‘‘تم اپنے آپ کو ان سے دور رکھو اور انہیں خود سے دور بھگائو ۔ نیز بد مذہبوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’ فلا تجالسوھم ولا تشاوروھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ۔ نہ ان کے پاس بیٹھو ،نہ ان کے ساتھ کھائو پیو اور نہ ہی ان سے شادی بیاہ کرو ۔لہذا ایسی دعوتوں سے دور رہیں ۔

واللہ تعالیٰ اعلم ۔


رحمت اورشفاعت پربھروسہ کرکے گناہ کرناکیسا؟

1 thought on “مسلمان کا مندر کے اندر جاکر کہنا کہ اے بھگوان تو چاہے تو میں کامیاب ہو سکتا ہوں ۔مفتی محمود اختر ممبئی”

  1. Janab assalamualaikum Azhar Bhai humara naam sazid hai or hum Jhansi up se hai humri problem ye hai ki hume peshab karne ke baad peshab ke katre aate hai aap hume is takleef se bahar nikal ne ka sahi tarika bataye hume aapse bohot ummeed hai kyonki hume namaj padhne mai bahut dikkat hoti hai hume ??

    جواب دیں

Leave a Reply