مسافر کی مسافرت کب پوری ہوگی وہ کب قصر اور کب پوری پڑھے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک شخص شرعی مسافر تھا اور وہ گاؤں کا رہنے والا تھا کیا اس کی مسافرت شہر میں داخل ہوتے ہی ختم ہو جائے گی یا نہیں؟ اسی طرح شہری کی اپنے شہر سے متصل گاؤں میں داخل ہونے سے ختم ہو جائے گی یا نہیں؟
اگر گاؤں والے کو گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے اپنے شہر کے کورنٹائین سنٹر میں داخل کر دیا گیا تو وہ وہاں نماز قصر کرے گا یاپوری؟
فقہ حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔
سائل: اشتیاق احمد قادری۔ ساکن برہون تحصیل تھنہ منڈی راجوری۔
باسمه تعالي وتقدس
الجواب اللهم هداية الحق والصواب:
گاؤں کا رہنے والا شخص جو کہ شرعی مسافر ہو جب تک کہ اپنی بستی (گاؤں) میں نہ پہنچ جائے مسافر ہی رہے گا، شہر میں داخل ہونے سے اس کی مسافرت ختم نہ ہوگی ۔ اور شہر کا رہنے والا وہ شخص جو کہ شرعاً مسافر ہو وہ بھی اس وقت تک مسافر ہی رہے گا جب تک کہ وہ اپنے شہر میں داخل نہ ہو جائے ۔ شہر سے متصل گاؤں میں داخل ہونے سے اس کی بھی مسافرت ختم نہ ہوگی ۔
جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ گاؤں کا رہنے والاشخص جب تک کہ اپنے گاؤں میں داخل نہ ہو جائے مسافر ہی ہے ۔لہذا اگر اس کوحکومت وقت کی طرف سے گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے ہی اپنے شہر کے کورنٹائن سینٹر میں داخل کر دیا گیا تو وہ چار رکعت والی فرض نمازوں میں قصر کرے گا یعنی چار کی دو ہی پڑھے گا۔
بہار شریعت میں ہے
"مسافر جا رہا ہے اور ابھی شہر یا گاؤں میں پہنچا نہیں اور نیت اقامت کرلی تو مقیم نہ ہوا”(ج۱ ح۴ ص۷۴۵)
نیز اسی میں ہے
"فنائے شہر سے جو گاؤں متصل ہے شہر والے کے لیے اس گاؤں سے باہر ہو جانا ضروری نہیں”(ج۱ ح۴ ص۸۴۲ )
اور فتاوی رضویہ شریف میں ہے
"جب وہاں سے بقصد وطن چلے اور وہاں کی آبادی سے باہر نکل آئےاس وقت سے جب تک اپنے شہر کی آبائی وادی میں داخل نہ ہو قصر کرے گا” (ج۸ ص۲۵ص ۲۵۸ مترجم) والله تعالي اعلم بالصواب
کتبہ محمد ارشاد رضا علیمی عفی عنہ،پلانگڑ،تھنہ منڈی راجوری جموں وکشمیر
۳/رمضان المبارك مطابق ۲۷/اپریل ۲۰۲۰ء
الجواب صواب والمجیب نجیح واللہ اعلم
محمد اسلم رضا مصباحی عفی عنہ،مرکزی دار الافتا اہلسنت صوبہ جموں