مسافر امام کی اقتدا میں نماز کا طریقہ؟ از مفتی محمد نظام الدین قادری

مسافر امام کی اقتدا میں نماز کا طریقہ؟

اگر ایک رکعت فوت ہونے کے بعد مسافر امام کی اقتدا کی تو نماز کس طرح پوری کرے؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام مسٸلہ ذیل کے بارے میں: مسافر امام کی اقتدا کرنے والے مقتدی کیسے نماز پڑھیں امام دورکعت پڑھاکر سلام پھیر دیا اب مقتدی چپ چاپ کھڑا رہے یا باقی رکعتوں میں قرأت کرے .اور اگر قرات سہوا یا قصدا کرتا ہے تونماز ہوگی کہ نہیں ؟

مسافر امام کے ایک رکعت پڑھانے کے بعد مقتدی شامل ہوا۔ اب مقتدی بعد کو اپنی نماز کیسے مکمل کرے ؟

ساٸل ۔ ۔ چاند بابو
بلرام پور 812722286

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

الجوابـــــــــــــــــــــــــ

مسافر امام کی اقتدا کرنے والا بھی اگر مسافر ہو یا مسافر نہ ہو مگر فجر یا مغرب کی نماز ہو تو امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا اور اگر مسبوق ہو تو امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، بلکہ امام کے سلام کے بعد اپنی فوت شدہ رکعت پڑھ کر سلام پھیرے گا اور اپنی فوت شدہ رکعت پڑھنے میں مسبوق کی طرح قراءت بھی کرے گا۔

لیکن اگر فجر اور مغرب کے علاوہ نماز میں مسافر امام کی اقتدا کرنے والا مسافر نہ ہو بلکہ مقیم ہو تو امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا بلکہ دو رکعت پڑھنے کے بعد جب امام سلام پھیرے گا تو یہ اپنی باقی دو رکعت پوری کرے گا جن میں قراءت نہیں کرے گا بلکہ اتنی دیر تک خاموش کھڑا رہے گا جتنی دیر میں سورہ فاتحہ پڑھ لے۔

اور اگر مسافر امام کی اقتدا کرنے والے مقتدی کی ایک یا دونوں رکعتیں چھوٹ گئی ہوں تو ایسا مقتدی لاحق اور مسبوق دونوں ہے، لہذا پہلے لاحق ہونے کی حیثیت سے اپنی نماز بغیر قراءت کیے پوری کرے گا،پھر مسبوق ہونے کے اعتبار سے فوت شدہ ایک یا دو رکعت پڑھے گا جن میں قراءت بھی کرے گا۔ اب اگر مسبوق کی ایک رکعت فوت ہوئی ہے اور دوسری رکعت میں شریک ہوا ہے تو اس کو چار قعدے کرنے ہیں: پہلا قعدہ امام کے ساتھ ۔اور پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت بلا قراءت کے بعد شفعہ مکمل ہونے کی وجہ سے دوسرا قعدہ ۔ اور پھر ایک رکعت بلا قراءت کے بعد تیسرا قعدہ۔ اور پھر قراءت کے ساتھ چوتھی رکعت کے بعد چوتھا قعدہ کرنا ہے۔حاصل یہ کہ اِس مقتدی کو ہر رکعت پر قعدہ کرنا ہے۔
اور اگر مسافر امام کے ساتھ دونوں رکعتیں چھوٹی ہیں تو تین قعدے ہوں گے ۔ ایک امام کے ساتھ وہ قعدہ جس میں شریک ہوا ہے اور پھر دو رکعت بلا قراءت پڑھنے کے بعد دوسرا قعدہ، اور پھر دو رکعت با قراءت کے بعد تیسرا قعدہ کرنا
ہوگا۔
صدر الشریعہ علیہ علامہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

"مقتدی کی چار قسمیں ہیں :

(۱) مدرک۔

(۲) لاحق۔

(۳) مسبوق۔

(۴) لاحق مسبوق۔

مدرک اسے کہتے ہیں جس نے اوّل رکعت سے تشہد تک امام کے ساتھ پڑھی، اگرچہ پہلی رکعت میں امام کے ساتھ رکوع ہی میں شریک ہوا ہو۔

لاحق وہ کہ امام کے ساتھ پہلی رکعت میں اقتدا کی مگر بعدِ اقتدا اس کی کل رکعتیں یا بعض فوت ہوگئیں ، خواہ عذر سے فوت ہوں ، جیسے غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے رکوع سجود کرنے نہ پایا، یا نماز میں اسے حدث ہوگیا یا مقیم نے مسافر کے پیچھے اقتدا کی یا نمازِ خوف میں پہلے گروہ کو جو رکعت امام کے ساتھ نہ ملی۔ خواہ بلا عذر فوت ہوں ، جیسے امام سے پہلے رکوع سجود کرلیا پھر اس کا اعادہ بھی نہ کیا تو امام کی دوسری رکعت، اس کی پہلی رکعت ہوگی اور تیسری دوسری اور چوتھی تیسری اور آخر میں ایک رکعت پڑھنی ہوگی۔

مسبوق وہ ہے کہ امام کی بعض رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔

لاحق مسبوق وہ ہے جس کی کچھ رکعتیں شروع کی نہ ملیں ، پھر شامل ہونے کے بعد لاحق ہوگیا۔
لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ پڑھے گا، تو اس میں نہ قراء ت کرے گا، نہ سہو سے سجدۂ سہو کرے گا اور اگر مسافر تھا تو نماز میں نیتِ اقامت سے اس کا فرض متغیر نہ ہوگا کہ دو سے چار ہو جائے اور اپنی فوت شدہ کو پہلے پڑھے گا، یہ نہ ہو گا کہ امام کے ساتھ پڑھے، پھر جب امام فارغ ہو جائے تو اپنی پڑھے، مثلاً اس کو حدث ہوا اور وضو کرکے آیا، تو امام کو قعدۂ اخیرہ میں پایا تو یہ قعدہ میں شریک نہ ہوگا، بلکہ جہاں سے باقی ہے، وہاں سے پڑھنا شروع کرے، اس کے بعد اگر امام کو پا لے تو ساتھ ہو جائے اور اگر ایسا نہ کیا بلکہ ساتھ ہو لیا، پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد فوت شدہ پڑھی، تو ہوگئی، مگر گنہگار ہوا۔”
(بہار شریعت ح ٣ ص۵٩٢ ، ۵٩٣)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

"لاحق مسبوق کا حکم یہ ہے کہ جن رکعتوں میں لاحق ہے ان کو امام کی ترتیب سے پڑھے اور ان میں لاحق کے احکام جاری ہوں گے، ان کے بعد امام کے فارغ ہونے کے بعد جن میں مسبوق ہے، وہ پڑھے اور ان میں مسبوق کے احکام جاری ہوں گے، مثلاً چار رکعت والی نماز کی دوسری رکعت میں ملا پھر دو رکعتوں میں سوتا رہ گیا، تو پہلے یہ رکعتیں جن میں سوتا رہا بغیر قراء ت ادا کرے، صرف اتنی دیر خاموش کھڑا رہے جتنی دیر میں سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے پھر امام کے ساتھ جو کچھ مل جائے، اس میں متابعت کرے، پھر وہ فوت شدہ مع قراء ت پڑھے۔” (بہار شریعت ح ٣ ص ۵٩٦)

امام اہل سنت اعلی حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان قدس سرہ مسافر امام کے پیچھے ایک یا دونوں رکوع چھوٹ جانے کی صورت کا حکم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

"یہ صورت مسبوق لاحق کی ہے، وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافر سے ساقط ہیں مقیم مقتدی لاحق ہے، لانہ لم یدرکھما مع الامام بعد ما اقتدی بہ۔ اور اس کے شریک ہونے سے پہلے ایک رکعت یادونوں جس قدر نماز ہوچکی ہے اس میں مسبوق ہے، لانھا فاتتہ قبل ان یقتدی۔ درمختار و ردالمحتارمیں ہے:مقیم ائتم بمسافر فھو لاحق بالنظر للاخیرتین، وقد یکون مسبوقا ایضا۱ھ کما اذافاتہ اول صلاۃ امامہ المسافر۔
اور حکم اس کا یہ ہے کہ جتنی نماز میں لاحق ہے پہلے اسے بے قراء ت ادا کرے، یعنی حالت قیام میں کچھ نہ پڑھے، بلکہ اتنی دیر کہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش کھڑا رہے۔ بعدہ، جتنی نماز میں مسبوق ہوا ، اسے مع قراء ت یعنی فاتحہ وسورت کے ساتھ ادا کرے،فی الدر المختار : اللاحق یبدأ بقضاء مافاتہ بلاقراء ۃ ثم ماسبق بہ بھا ان کان مسبوقا ایضا ۔ ۱ھ ملخصا۔
رد المحتارمیں ہے: قولہ ماسبق بہ بھا الخ ای ثم صلی اللاحق ماسبق بہ بقراءة ان کان مسبوقا ایضا بان اقتدی فی اثناء صلاۃ الامام ثم نام مثلا وھذا بیان للقسم الرابع وھو المسبوق اللاحق الخ

پس اگردونوں رکوع نہ پائے تھے تو پہلے دو رکعتیں بلاقرأت پڑھ کر بعد التحیات دو رکعتیں فاتحہ و سورت سے پڑھے، اور اگر ایک رکوع نہ ملا تھا تو پہلے ایک رکعت بلاقراءت پڑھ کر بیٹھے اور التحیات پڑھے کیوں کہ یہ اس کی دوسری ہوئی، پھر کھڑا ہوکر ایک رکعت اور ویسی ہی بلاقراءت پڑھ کر اس پربھی بیٹھے اور التحیات پڑھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے، مگرامام کے حساب سے چوتھی ہے اور رکعات فائتہ کو نماز امام کی ترتیب پر ادا کرنا ذمہ لاحق لازم ہوتا ہے ۔ پھر کھڑا ہوکر ایک رکعت بفاتحہ وسورت پڑھ کر بیٹھے اور بعد تشہد نماز تمام کرے۔

فی ردالمحتار عن شرحی المنیۃ والمجمع انہ لوسبق برکعۃ من ذوات الاربع ونام فی رکعتین یصلی اولا ما نام فیہ ثم ما ادرکہ مع الامام ثم ماسبق بہ فیصلی رکعۃ مما نام فیہ مع الامام ویقعد متابعۃ لہ لانھا ثانیۃ امامہ ثم یصلی الاخری مما نام فیہ ویقعد لانھا ثانیتہ ثم یصلی التی انتبہ فیھا و یقعد متابعۃ لامامہ لانھا رابعۃ و کل ذلک بغیرقراءۃ ، لانہ مقتد ثم یصلی الرکعۃ التی سبق بھا بقراءۃ الفاتحۃ وسورۃ، والاصل ان اللاحق یصلی علی ترتیب صلاۃ الامام، والمسبوق یقضی ماسبق بہ بعد فراغ الامام ۔ ۱ھ

اقول: فھذہ ھی الصورۃ المسؤل عنہا بید ان ما نحن فیہ اعنی اقتداء المقیم بالمسافر لا یتحقق فیہ الادراک بعد ماصار لاحقا ، لانہ انما یصیر لاحقا فی الاخیرتین ، وذلک انما یکون بعد سلام الامام فلا تتأتی ھنا صورۃ المتابعۃ بعد اداء ماھو لاحق فیہ کمالایخفی ولذٰلک تغیر بعض الترتیب۔”
(فتاوی رضویہ ج ٣)

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔
٢٦/ جمادی الاولی ١۴۴٣ھ/ /٣١/ دسمبر ٢٠٢١ء

Leave a Reply