سوانح حیات حسن بن زیاد لولوی رحمۃ اللہ علیہ

سوانح حیات حسن بن زیاد لولوی رحمۃ اللہ علیہ

نام و نسب: ان کا نام حسن ، کنیت ابو علی اور والد کا نام زیاد ہے۔ کوفہ کے رہنے والے تھے، وہاں کے قاضی مقرر ہوئے پھر اس سے استعفا دے دیا اور ۲۰۴ھ میں وفات پائی۔
جب امام حسن بن زیاد آتے تو انھیں دیکھ کر امام ابویوسف فرماتے علم کا صندوق آرہا ہے۔
یحی بن آدم کہتے ہیں: میں نے حسن بن زیاد سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا۔
امام حسن بن زیاد فرماتے ہیں: لقد عمرت أربعين عاماً ما نمت ولا قلت إلا والكتاب موضوع على صدري. چالیس سال کی عمر تک میں جب بھی سویا یا قیلولہ کیا میرے سینے پر کتاب رکھی رہی۔

روزانہ کا معمول:

نصیر بن یحی کا بیان ہے کہ امام حسن بن زیاد نے دن کو کئی حصوں میں تقسیم کررکھاتھا۔ صبح نماز فجر سے فراغت کے بعد زوال تک درس دیتے اور فقہی جزئیات میں غور و خوض کرتے، پھر گھر جاتے ، اس کے بعد اپنی ضروریات پوری کرتے پھر نماز ظہر ادا کرتے اور نماز ادا کر کے عصر تک عوام کے پاس پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے بیٹھتے، اس کے بعد عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھتے اور غروب آفتاب تک لوگ ان کے سامنے اصول میں بحث ومذاکرہ کرتے۔ پھر نماز مغرب سے فراغت کے بعد گھر جاتے ، اس کے بعد نکلتے اور عشا تک مشکل مسائل میں بحث کرتے ، پھر عشا کی نماز پڑھ کر تہائی رات تک گھر، وصیت اور حساب کے مسائل کے لیے بیٹھتے ، پھر گھر تشریف لے جاتے اور اس درمیان بھی مسائل میں غور کرتے رہتے ، ان کے پاس ایک باندی تھی، جب وہ کھانے یا وضو غیرہ میں مشغول ہوتے تو وہ انہیںکتاب اور مسائل پڑھ کر سناتی۔
یحی بن آدم کہتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے علم شریعت کی خوب وضاحت فرمائی۔
عمرو بن زرارہ کہتے ہیں: ما رأيت أحدا أجرأ على الفقه من ابن زياد یعنی میں نے فقہ میں حسن بن زیاد سے زیادہ جراءت مند کسی کو نہیں دیکھا۔
امام زفر سے پوچھا گیا کہ آپ کے اصحاب میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے ؟ فرمایا: حسن بن زیاد۔

تصنیف و تالیف:

ان کی تصانیف میں مجرد ہے جو عراق اور دیگر امصار کے فقہا کے درمیان مشہور ہے اور کتابالنوادر اور کتاب ادب القاضی وغیرہ بھی ان کی علمی یاد گار ہیں۔

امام اعظم کی بارگاہ میں :

بغداد کے مشایخ فرماتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے چالیس سال تک کوفہ میں موتی فروخت کیے۔ وہ امام ابو حنیفہ کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے اور سنتے ، پھر علم کی طرف ان کا میلان ہوا، ایک دن انھوں نے امام ابو حنیفہ سے کہا: میں کس طرح علم حاصل کر سکتا ہوں جب کہ میں بڑا ہو گیا ہوں؟ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : میں تم سے ایک سوال کر رہا ہوں اگر اس کا جواب دے دو گے تو علم حاصل کر لو گے ، حسن بن زیاد نے کہا: پوچھیے۔ فرمایا: تم اس بکری کے بارے میں کیا کہتے ہو جس سے دو بچے ہوئے جو نہ زندہ ہیں نہ مردہ ، نہ نر ہیں نہ مادہ، نہ سفید ہیں نہ سیاہ ۔ وہ سوچنے لگے تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا : میں تم کو ایک رات کی مہلت دیتا ہوں ، وہ ان کے پاس سے نکلے اور رات بھر غور کرتے رہے ، انھیں جواب سمجھ میں آگیا، صبح ہوتے ہی امام ابو حنیفہ کے پاس حاضر ہوئے، انھیں دیکھ کر امام ابو حنیفہ نے فرمایا: کیا ہوا؟ انھوں نے کہا: مجھے جواب سمجھ میں آگیا، ان میں سے ایک زندہ ہے دوسرا مردہ، اسی طرح ان کے دیگر اوصاف بھی ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : صحیح جواب ہے۔ تم بہت جلد عالم بن جاؤ گے ۔ اس کے بعد وہ علم فقہ کی تحصیل میں لگ گئے ، یہاں تک کہ اپنے زمانے کے امام بن گئے۔
زمانے میں کون حجت ہے ؟ فرمایا: حسن بن زیاد۔

احتیاط :

محمد بن احمد بن حسن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرے والد سے ایک مسئلے میں حکم شرع معلوم کیا گیا، تو جواب دینے میں ان سے خطا ہو گئی ، وہ مستفتی کو نہیں پہچانتے تھے، اس لیے ایک شخص کو اجرت پر رکھا جس نے یہ اعلان کیا کہ حسن بن زیاد سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا تھا جس کے جواب میں ان سے غلطی ہو گئی ، جسے فتوی دیا تھا وہ ان کے کے پاس آئے ، چند روز تک کسی کو فتوی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ شخص مل گیا تو اسے بتایا کہ مجھ سے جواب میں غلطی ہو گئی تھی صحیح جواب یہ ہے۔

حسن اخلاق:

احمد بن عبد الحمید حارثی کہتے ہیں: ما رأيت أحسن خلقا من زياد ولا – أقرب ما خذا و لا أسهل جانبا منه ، وكان يكسو مماليكه كما يكسو نفسه.میں نے زیاد بن حسن سے زیادہ خوش اخلاق، اچھے طور طریقے والا اور نرم دل کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنے غلاموں کو بھی ویسے ہی کپڑے پہناتے تھے جس طرح خود پہناتے تھے۔

وفات :

امام طحاوی کہتے ہیں کہ ۲۰۴ھ میں امام حسن بن زیاد کی وفات ہوئی۔
امام حسن بن زیاد فرماتے ہیں کہ ایک بارش کے دن امام ابو حنیفہ ہمارے پاس تشریف لائے ، ان کے ہمراہ ان کے دس تلاندہ بھی تھے، ان میں داؤد طائی، زفرین ہذیل عافیہ،وکیع بن جراح ، حفص بن غیاث ، حسن بن صالح بن یحی اور یعقوب بن ابراہیم تھے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : : أنتم مسار قلبي وجلاء أحزاني و أسرجت لكم الفقہ
والجمتہ فاذا شئتم فارکبوا۔
یعنی تم سب میرے دل کا سرور اور میرے غموں کا مداوا ہو۔ میں نے تمہارے لیے فقہ کو زین کس دی اور اسے لگام دی ہے ۔ تو جب چاہو اس پر سوار ہو جاؤ۔

سوانح حیات امام زفر رحمتہ اللہ علیہ
سوانح حیات امام ابو عمر و رحمتہ اللہ علیہ

Leave a Reply