فدایان ختم نبوتﷺکے ایمان افروز واقعات

فدایان ختم نبوتﷺکے ایمان افروز واقعات

ایک پانچ سالہ ننھامجاہدختم نبوت

تحریک ختم نبوت( ۱۹۵۳ء) میں دہلی دروازہ لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور مجاہدینِ ختم نبوت دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کرحضورتاجدارختم نبوتﷺ کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک اَسّی سالہ بوڑھا اپنے پانچ سالہ بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے،مگر تاریخ میں اِس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے خمیدہ کمر، اسّی سالہ بوڑھے سے لے کر پانچ سالہ بچے تک سب جان دے کر اپنے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔

مجاہدین ختم نبوت کے لئے زمین سمیٹ دی گئی

(۱۹۵۳ء) کی تحریکِ ختم نبوت میں گرفتاری کے لیے پیش ہونے والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کو پولیس پکڑ کر کراچی سے بلوچستان کی طرف تقریباً سو میل دُور ایک مقام پر چھوڑ کر آتی، لیکن پولیس والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہتی کہ جب ٹھیک تین چار گھنٹوں بعد اُنہی کارکنوں کو وہ کراچی میں پھر جلوس نکالتے ہوئے پاتے۔پولیس انکوائری کر کر کے تھک گئی کہ کونسی طاقت اُن کو اِس دُور دراز جنگل سے اتنی جلدی کراچی میں پہنچا دیتی ہے؟ زمین سمیٹ دی جاتی ہے؟ غائبانہ سواری کا انتظام ہوتا ہے؟ یا اس گروہ کو لانے والی کوئی مستقل تنظیم ہے؟ بہرحال پولیس کے لیے یہ معمہ رہا، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام کارکنوں کو جونہی دُور دراز جنگل میں چھوڑا جاتا، اﷲرَبّ العزّت اُن کے لیے فی الفور کراچی پہنچانے کا کوئی نہ کوئی انتظام فرما دیتا، وہ کارکن کراچی آتے ہی پھر تحریک کے الاؤ کو روشن کر نے میں لگ جاتے، بالآخر پولیس نے تھک کر یہ پروگرام ترک کر دیا۔

مجاہدین ختم نبوت کی رجال الغیب کے ذریعے مدد

ایک دفعہ پولیس والے مجاہدینِ ختمِ نبوتﷺ کے ایک جتھے کو رات کے وقت گرفتار کر کے دُور ایک جنگل میں چھوڑ آئے، پولیس کے جانے کے بعد یہ مجاہد چند قدم چلے تو روشنی نظر آئی، وہاں گئے تو جنگل میں چند گھرانے آباد دیکھے، ان گھرانوں میں سے ایک آدمی باہر آیا، ان مجاہدین کو بلایا، دُعا دی، راستہ اور حفاظت کا وظیفہ بتلایا، یہ حضرات چند گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ پولیس والے سو کر بھی نہ اُٹھے ہوں گے کہ یہ حضرات کراچی میں پھر ختمِ نبوت کے جلوس نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ جنگل میں کونسی قوم آباد تھی؟ وہ آدمی از خود بغیر آواز دئیے، کیسے رات کے وقت باہر آیا؟کراچی کا راستہ اور حفاظت کا وظیفہ کیوں بتایا؟دعا کیوں دی؟ وہ کون تھا؟ ان مجاہدین کے ساتھ ان کا یہ شفیق برتاؤ کیوں؟ آج تک اہلِ دنیا کے لیے یہ معمہ ہے، مگر اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات پر ختم نبوت کی وجہ سے اﷲربّ العزت کے اِنعامات کی بارش ہو رہی تھی۔

غیرت ایک خدادادنعمت ہے

تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لئے پڑھنے کے لئے جا رہا تھا۔ سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف بڑھا۔ کسی نے پوچھا :یہ کیا؟ جواب میں کہا:ہمیشہ پڑھتا رہا ہوں، آج عمل کرنے جا رہا ہوں۔ جاتے ہی ران پر گولی لگی، گر گیا۔ پولیس والے نے آ کر اٹھایا تو شیر کی طرح گرجدار آواز میں کہا:ظالم گولی ران پر کیوں ماری ہے،حضورتاجدارختم نبوتﷺکاعشق تو دل میں ہے، یہاں دل پر گولی مارو۔ تاکہ قلب و جگر کو سکون ملے۔

ایک قادیانی میجرملعون کامجاہدختم نبوت پرظلم کرنا

چودھری نذیر احمد صاحب بھائی پھیرو میں کریانہ کا کاروبار کرتے ہیں۔( ۱۹۵۳ء) کی تحریک ختم نبوت کا واقعہ انہی کی زبانی سنیے اور اپنے ایمان کو تر و تازہ کیجئے، فرماتے ہیں:میری شادی کے چند ماہ بعد تحریک ختم نبوت ( ۱۹۵۳ء) شروع ہوئی۔ میں تحریک میں حصہ لینے کے لیے ننکانہ صاحب سے لاہور، مسجد وزیر خان چلا گیا۔ یہاں روزانہ جلسہ ہوتا اور جلوس نکلتے۔ ایک دن مسجد کی بجلی اور پانی کوبندکردیاگیا ۔ اس پر مسجد میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا، پھر جلوس نکلا۔ میں اس جلوس میں شامل تھا۔ فوج نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ چند احباب کے ہمراہ سرسری سماعت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ میرا نمبر آخر میں تھا۔ میری باری پر قادیانی میجر جنرل حیاء الدین (ملعون)نے کہا:معافی مانگ لو کہ آئندہ تحریک میں حصہ نہیں لو گے تو ابھی بری کر دوں گا۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو کہا کہ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت و ناموس کا مسئلہ ہو اور ایک امتی کی شفاعت کا ذریعہ ہو اور پھر وہ معافی مانگ لے؟ میجر نے کہا کہ سامنے لان میں چلے جاؤ۔ آدھا گھنٹہ اچھی طرح سوچ لو۔ میں لان میں بیٹھ گیا۔ پھر پیش کیا گیا تو میجر نے کہا کہ معافی مانگ لو۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو جواب دیا کہ شاید آپ کو اس مسئلہ کی اہمیت کا علم نہیں، آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس مسئلہ میں معافی کیا ہوتی ہے؟ اس پر میجر حیاء الدین نے غصہ کی حالت میں میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور آٹھ ماہ قید بامشقت اور ۵۰۰ روپے جرمانہ کا حکم دیا، جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ میرے نامۂ اعمال میں میری بخشش کے لیے یہی ایک نیکی کافی ہے۔
میری سزابڑھائی جائے

(۱۹۵۳ء) کی تحریک ختم نبوت میں میانوالی سے قافلے گرفتاری کے لیے لاہور جاتے تھے۔ ایک قافلہ میں میاں فضل احمد موچی بھی جا کر گرفتار ہو گیا۔ ان کی گرفتاری مارشل لاء کے تحت عمل میں آئی۔ مارشل لاء عدالت نے ان کے بڑھاپے کو دیکھ کر دیگر ساتھیوں کی نسبت کم سزا دی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ عدالت سے احتجاج کیا کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس سے عدالت نے سمجھا کہ شاید یہ سزا کم کرانا چاہتا ہے۔ عدالت نے جب پوچھا تو کہامجھ سے کم عمر کے لوگوں کو دس دس سال کی سزا دی، میرے ساتھ انصاف کیا جائے اورمیری سزا میں اضافہ کیا جائے۔ اس بوڑھے جرنیل کی ایمانی غیرت پر جج انگشت بدنداں اٹھ کر عدالت سے ملحق کمرہ میں چلا گیا۔ میاں فضل احمد نے عدالت میں کپڑا بچھا کر گرفتاری، سزا اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنی قربانی کی بارگاہ خداوندی میں قبولیت کے لیے نوافل پڑھنے شروع کردئیے۔
سبحان اللہ !کیاان کاایمان تھاکہ سزاسے ڈرے نہیں بلکہ کہتے ہیںکہ سزااوربڑھائو، لیکن افسوس توآج کے ان علماء پرہوتاہے جنہوںنے (۲۰۱۸ء)میںمجاہدین ختم نبوت ﷺکی گرفتاریوں پراعلان لاتعلقی کیاتھا۔ جنہوںنے زندگی ساری اسلام کے نام پرکھایااورجب اسلام کومددکی ضرورت پڑی توانہوںنے ہاتھ کھڑے کردیئے ۔
ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان سے یہ واقعات ماخوذ ہیں ۔

Leave a Reply