تعارف مفتی سلمان احمد القادری الازہری

تعارف مفتی سلمان احمد القادری الازہری

نام و ولدیت:

سلمان احمد، والد کا نام مولانا محمد ابن حسن ،والدہ کا نام عایشہ ہے۔

سکونت :

آپ کا آبائ وطن کٹیاڈی کیرالا ہے ۔ لیکن والد صاحب کے فراغت کے بعد چوںکہ آپ تڑس میں ہی دینی خدمات انجام دے رہے تھے اس لیے وہیں رہ گئے اور آپ کا خاندان یہیں بس گیا ۔ان دنوں ممبئ عظمی میں دینی خدمات اور تحفظ ناموس رسالت میں سر گرم عمل ہیں ۔

ولادت :

۸ ربیع الاول ۱۴۰۶ ہ بمطابق ۲۱ نومبر ۱۹۸۵ بروز جمعرات آپ کی ولادت ایک نہایت ہی علمی مذہبی، اور پرہیزگار خاندان میں آپ کی ولادت ہوئ۔ آپ کے والد گرامی نہایت پرہیزگار و تقوی شعار عالم دین تھے ۔ جنہوں نے الجامعۃ الاشرفیہ میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے آغوش تربیت سے فیض حاصل کیا ۔ اور اسی وقت اپنے وقت کے ولی کامل حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے بیعت کا شرف حاصل کیا اور ہبلی شہر میں دینی خدمات انجام دینے لگے ۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائ تعلیم آپ نے والد ماجد سے حاصل کی ۔ بارہ سال کی عمر میں آپ کی ذیانت ،لگن اور ہوشیاری دیکھ کر والد گرامی نے فیصلہ کیا کہ اس بچے کو حافظ قرآن اور بہترین عالم بنانا ہے ۔ اسی دوران آپ کے بڑے بھائ حضرت علامہ مفتی زبیر احمد مصباحی صاحب قبلہ جو کہ الجامعۃالاشرفیہ میں اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھے ، ان کے ہمراہ مفتی سلمان صاحب کو بھی الجامعۃ الاشرفیہ بھیج دیا ۔ آپ کو تعلیم کے لیے بھیجتے وقت آپ کے والد نے خصوصی نصیحتیں کی تھیں اور ایک تاریخی جملہ بھی ارشاد فرمایا تھا ۔ جو آج بالکل سچ ثابت ہے ۔ آپ نے فرمایا بیٹا میں نے تجھے اللہ کے لیے وقف کر دیا ہے ، گھر کی طرف خیال نہ کرنا اور نہ ہم تمہیں دنیا کمانے اور ہمیں پالنے کی نیت سے بھیج رہے ہیں ، بلکہ امت مصطفی ﷺ کی خدمت اور ہمارے لیے آخرت کا سامان سمجھ کر بھیج رہے ہیں ۔

مفتی سلمان صاحب کی پہلی درسگاہ الجامعۃ الشرفیہ ہے ۔ جہاں پر آ پ نے ابتدا میں حافظ شبیر صاحب کے پاس چھ پارے حفظ کیے ، پھر حضرت حافظ ہاشمی صاحب کے پاس صرف دیڑھ سال کی مدت مین حفظ قرآن مکمل فرما لیا ۔ اور الجامعۃ الشرفیہ میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہوے پہلے نمبر پر حفظ قرآن کی دستار و سند حاصل کیا ۔ اکابر علما و مفتیان عظام نے آپ کے سر پر عمامہ شریف باندھا ۔ یہ سن ۲۰۰۰ کی بات ہے ۔ اس کے بعد آپ درس نظامی کی تعلیم کے لیے برادر کبر کے ساتھ ممبئ چلے آے ۔ٓپ ممبئ کی موقر اور علمی درسگاہ الجامعۃ الغوثیہ میں پڑھا رہے تھے ۔ سات سال تک مختلف اساتذہ سے آپ نے شرف تلمذ حاصل کیا اور بڑی محنت و جانفشانی کے ساتھ تعلیم حاصل کی ۔

اللہ کی طرف سے آپ کو خاندانی طور پر نجابت اور ذہانت عطا کی گیئ تھی تو یہاں پر بھی آپ ہر سال اول پوزیشن حاصل کرتے رہے ۔ جبکہ آخری سال پورے جامعہ میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کی ۔ تمام کتب متداولہ میں آپ نے بہترین صلاحیت حاصل کی ۔ عربی زبان میں شروؑ سے ہی دلچسپی رہی ۔ لہذا نحو و صرف ،فقہ ،اصول فقہ ،حدیث ، اصول حدیث،تفیر بلاغت ، معانی،منطق و فلسفہ میں آپ کو مہارت حاصل ہے ۔

۲۰۰۷ کے اوائل میں سنی دعوت اسلامی کے سالانہ اجتماع جو کہ ٓا زاد میدان میں منعقد ہوتا ہے وہاں حضرت مفتی شبیر حسن رحمہ اللہ سے ختم بخاری کا شرف حاصل کیا ۔ اور اسی اجتماع مین علما و مشائخ کے دستار فضیلت سے نوزے گیے اور سند فضیلت سے سرفراز ہوے ۔آپ کے اکثر ساتھی یہیں پر تعلیم موقوف کرکے کسب معاش میں مصروف ہوگئے ، مگر آپ کی علمی پیاس ابھی نہیں بجھی تھی ۔ آپ نے والد گرامی کے حکم پر افتا کورس کے لیے بریلی شریف تشریف لے گئے ۔ْ وہاں پر آپ نے پیر و مرشد حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں رہ کر افتا کی مشق کی ۔

جامعہ ازہر روانگی :

۲۰۰۷ کے آخر میں جامعۃ الازہر سے آپ کے لیے سلیکشن لیٹر آیا اور آپ نے سفر کی تیاری شروع کر دی ۔ نومبر کا آخری جمعرات تھا جب جامعۃ الرضا کے سب سے پہلے فارغ مفتی جامعۃ الازہر روانہ ہو رہے تھے ۔ اس موقع پر حضور تاج الشریعہ نے جامعۃ الرضا میں ایک تقریب منعقد کرنے کا حکم فرمایا اور سارے طلبا واساتذہ علامہ حسن رضا کانفرنس حال میں جمع ہوے ۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ تشریف لاے اور آدھا گھنٹہ تک سارے طلبہ سے خطاب فرمایا ۔ اور مفتی صاحب کے لیے اسی مجمع میں ارشاد فرمایا ــ:یہ میرے سب سے بہترین شاگرد رہے ہیں ۔ میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ اپنے مقصد پر کاربند رہیں ۔ ساتھ اس مجلس میں آپ کے لیے خصوصی دعا فرما کر چند قیمتی تحفوں سے سرفاراز فرمایا ۔

جامعہ ازہر میں آپ کے کلیہ الدعوہ الاسلامیہ میں داخلہ لیا ۔ اس کلیہ میں تفسیر ،اصول تفسیر ، حدیث ،اصول حدیث ،فقہ و اصول فقہ کے ساتھ خاصطور پر تقابل ادیان کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ جس میں دنیاکے تقریبا بڑے بڑے مذاہب کو مکمل ریسرچکے ساتھ پڑھایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے علوم پڑھاے جاتے ہیں ۔ الحمد للہ یہاں بھی مفتی صاحب نے اعلی درجہ کی کامیابی حاصل کی ۔ اور آج ان کی کا میابی کا شہرا پوری دنیا مین گونج رہا ہے ۔ یہ اللہ کا بڑا فضل و احسان ہے ۔

خدمات دین :

چار سال مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک عظیم اسلامی اسکالر کی حیثیت سے ہندوستان تشریف لاے ۔ شروع کے دنوں میں آپ نے والد گرامی کے حکم سے ہبلی شہر میں سرکار مفتی اعطم ہند اور علامہ مشتاق احمد نظامی کے قائم کیے ہوے پچاس سالہ پرانے ادارے دارالعلوم غوثیہ میں بحیثیت مدرس مقرر ہوے ۔اور ہاشمی مسجد قول پیٹھ میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ بڑے شوق و ذوق سے بچوں کو تعلیم سے نوازا ۔ ایک سال کے بعد ہبلی شہر کے مضافات میں واقع ایک سنی ادارہ الجامعۃ القادریہ نوریہ میں بحیثیت صدر مدرس کے آپ نے عہدہ سنبھالا ۔ یہاں بھی آپ نے لگ بھگ دو سال تک بچوں کو بڑی ہی لگن اور جاںفشانی کے ساتھ سنوارا ۔ مگر ایک بھیانک حادثہ میں اس مدرسے کے چھہ طلبا شہید ہوگیے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرماے ۔

اس کے بعد حالات صحیح نہ ہونے کی بنیاد پر ہبلی شہر کی مشہور ہاشمی جامع مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے لگے ۔ ساتھ ہی کچھ طلبہ کو لیکر ایک ادارہ بنام جامعہ ریاض الجنہ قائم کیا ۔ تقریبا پانچ سال آپ نے شہر ہبلی میں خدمات انجام دی ،ہبلی شہر کا ہر سنی آپ کی خدمات کو دیکھ کر متاثر ہوے بغیر نہیں رہا ۔ ہمیشہ اآپ نے نوجوانون میں انقلاب پیدا کیا ۔ ہماری کے نوجوانوں کو دین سے قریب کرکے علم قرآن اور علم دین سے سرفراز فرمایا ۔

کارہاے نمایاں :

حضرت مفتی سلمان ازہری صاحب جہاں دین کی تعلیم سے طلبہ کو روشناش کراتے رہے وہین پر آپ نے قوم کی بے پناہ خدمات کو بھی اپنا فرض منصبی سمجھ کر انجام دیتے رہے ۔ خصوصیت کے ساتھ ناموس رسالت اور قرآن کے خلاف بکواس کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔

(۱) ملعون کملیش تیواری نے نومبر ۲۰۱۵ میں لکھنو میں ایک پریس کانفرس کے درمیان حضور پاک ﷺ کی شان گستاخانہ بیان دیا تھا ۔ اس کے خلاف مفتی صاحب نے ہبلی شہر میں جم کر احتجاج کیا ۔ سینکڑوں علما ،طلبا و حفاظ اور عوام اس احتجاج میں شریک تھی ۔ الحمد للہ ملعون زمانہ چند دنوں پہلے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اور ہر گستاخ کی سزا بھی یہی ہونی چاہیے ۔

(۲) ان دنوں ملعون ،شیطان کا چیلہ نرسمہا آنند نے نبی پاک کی شان میں گستاخی کی ۔اللہ اس کو غارت فرماے ۔ اس کے بھی مقابل میں حضرت نے بڑا چیلنج کیا اور دعوت مباہلہ بھی دے دیا ۔ لیکن حق و باطل کے درمیان کا فرق واضح ہو گیا اور مردود زمانہ اپنی بات پر نہ قائم رہ سکا اور راہ فرار اختیار کر لیا ۔ آج الحمد للہ اس ملعون کو اچھی طرح سے لتاڑنے کی وجہ سے دنیا بھر سے سینکڑوں علما کے کال اور میسیجج آرہے ہیں ، سب کے سب ناموس رسالت کی خاطر حضرت مفتی صاحب قبلہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اور یہی حقانیت کی علامت ہے ۔

(۳) ہبلی شہر میں اسلامک کورٹ یعنی دار القضا آپ نے قائم فرمایا ۔ جس میں سیکڑوں مسائل کے حل بھی نکالے گیے ۔ دیکھنے والوں کے بیان کے مطابق جب یہ مجلس قائم ہوتی تھی تو لوگوں پر ایک الگ ہی کیفیت طاری ہوتی تھی جو کہ بیان سے باہر ہے.

(۴)ساتھ ہی جامعہ ریاض الجنہ کا قیام بھی ہبلی شہر میں فرمایا ، جو کی آج بڑے آن ،بان اور شان کے ساتھ وکرولی پارک سایٹ کی مدینہ جامع مسجد میں جاری ہے ۔ اللہ اس مدرسے کو تا قیامت قائم رکھے ۔یہاں پر بہت سارے طلبا دینی علوم سے سرفراز ہو رہے ہیں ۔

(۵) نوجوانوں کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا جن کے ذمہ ان کی تعلیم کے ساتھ بہت ساری چیزیں تھیں اور ہیں ۔ جس میں غریبوں ،یتیموں کی مدد ،بیماروں کی ہاسپٹل جاکر ان کی تیمار داری کرنا ،ان کی دیکھ بھال کرنا ،خون ڈونیٹ کرنا وغیرہ۔

(۶)غریب بچوں کی تعلیم و تربیت میں رکاوٹ نہ آے جس کے لیے آپ نے الامان نامی تنظیم قائم فرمایا جو غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ،غریبوں کی تجہیزوتکفیں وغیرہ کا بھی بندوبست اس تنظیم کے ذمہ ہے ۔ اس کے علاوہ بھی تنظیم کے سینکڑوں مقاصد جو آہستہ آہستہ بروے کار ہو رہے ہیں ۔

بیعت و خلافت :

حضور تاج الشریعہ سے بیعت و خلافت حاصل ہے ۔ساتھ ہی ہندوستان کی مشہور خانقاہ مارہرہ مطہرہ اور کالپی سے بھی اجازت و خلافت حاصل ہے ۔ ہند و بیرون ہند علماے کرام و مقدس شخصیات سے زبردست اور گہرے تعلقات ہیں ۔

اللہ تعالی مفتی صاحب کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے ۔اور ہم سب کو بھی سچا پکا عاشق رسول بناے ۔

پیش کردہ :      

masailworld.com

5 thoughts on “تعارف مفتی سلمان احمد القادری الازہری”

  1. Allah Hazrat ko lambi umar or achi sehat aata kare, Allah Hazrat ka saya hamesha humre saro par rakhe أمين سماه أمين ربول الأمين

    جواب دیں

Leave a Reply