سفیراسلام:علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی کی مبارک حیات اورزریں خدمات پرایک طائرانہ نظ
خانوادۂ صدیقی:
مبلغِ اسلام ،سفیرِنظامِ مصطفی حضرت مولاناشاہ عبدا لعلیم علیمؔ صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ ۱۵رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ / ۳ اپریل ۱۸۹۲ء شہرمیرٹھ (انڈیا)کے محلہ مشائخان میں صدیقی شرفاکے مشہورگھرانے میںپیداہوئے ۔
والدِماجدحضرت مولاناشاہ عبدالحکیم جوشؔ(۱)میرٹھی خود ایک باوقارعالمِ دین ،صوفیِ با صفا اور بہترین شاعرتھے ۔ گویا پیدا ہونے والے خوش نصیب فرزندنے علم وتقوی اورصدق وصفاکے ماحول میں آنکھیں کھولیں ۔حضرت علامہ شاہ عبدالحکیم جوشؔ کوسلسلۂ عالیہ قادریہ غوثیہ میں حضرت شیخ سیدمحمدغوث علی شاہ قلندرعلیہ ا لرحمہ سے اورسلسلہ چشتیہ صابریہ میں حضرت شیخ امداداللہ مہاجرمکی علیہ الرحمہ سے بیعت وخلافت حاصل تھی ۔(۲)
آپ ایک متقی ،صوفی منش بزرگ تھے ۔آ پ کوشعروشاعری سے بھی شغف تھا چنانچہ ’’ذکرِ حبیب‘‘میں آپ کی ۵نعتیں حکیم ؔتخلص کے ساتھ اور۲جوشؔکے ساتھ مرقوم ہیں۔نمونۂ کلام یہ ہے:
مظہرِ شانِ خدا ہو یا حبیبِ کبریا
تم نبی الانبیا ہو یا حبیبِ کبریا
اللہ اللہ کنزِمخفی کا ہوا جس سے ظہور
تم ہی وہ شمعِ ہدی ہو یا حبیبِ کبریا
شوقِ دیدارِ الٰہی میں ہو مستغرق حکیمؔ
روح جب تن سے جدا ہو یا حبیبِ کبریا(۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یارب ہمارے ساقیِ کوثرہوں میزباں
جب حشرمیں بصورتِ مہمان جائیں ہم(۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملائک آمنہ خاتون کومژدہ سناتے ہیں
ابوالقاسم محمدمصطفی تشریف لاتے ہیں
حکیم ؔ اب وقتِ پیری ہے درِاحمدپہ جابیٹھو
حیاتِ جاودانی جس جگہ عشاق پاتے ہیں(۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے درد تودرمان مااے عشق توایمان ما
اے شان تو شانِ خدامشتاق دیدار توام
بر درگہِ خیرالورٰی باصد ادب باد صبا
گو ازحکیمِ بے نوا مشتاقِ دیدارِ توام(۶)
ؔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الٰہی! نعتِ احمدسے بیاں شیریں زباںترہو
سخن مقبول ، تکرارِ سخن قندِ مکرر ہو
تری بوے محبت سے دماغِ جاں معطر ہو
تری شمعِ تجلی سے حریمِ دل منور ہو
خداوندا بحقِ شاہِ بطحا احمدِ مرسل
دمِ آخر زبانِ جوشؔ پر اللہ اکبر ہو(۷)
ابتدائی تعلیم وتربیت:
حضرت مبلغِ اسلام علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم گھرپرہوئی۔ آپ بچپن ہی سے نہایت ہونہاراورذہین وفطین تھے گویا
بالاے سرش ز ہوش مندی
می تافت ستارۂ بلندی
مبلغِ اسلام نے اپنے والدِگرامی سے صرف چارسال دس ماہ کی عمرمیں قرآنِ مجیدناظرہ پڑھ لیا،اس کے بعداردو،فارسی اورعربی کی تعلیم کا آغاز ہوگیا۔حضرت شاہ عبدالحکیم جوشؔ اپنے اس ہونہارفرزندکوبارہ سال تک اپنی روحانی وعرفانی آغوش میں الااللہ کی لوریوں اورتھپکیوں کے ساتھ مستقبل کے کارہاے نمایاں کے لیے پرورش کرتے رہے اوریقیناکسی بھی بچے کی ذہنی ساخت وپرداخت کے لیے پچپن سے ۱۲سال تک کازمانہ بڑی اہمیت کاحامل ہوتاہے ۔اس عمرتک تعلیم سے زیادہ تربیت مزاج کی لوح پرلافانی نقش کے طورپراپنے اثرات مرتب کرتی ہے ۔
حضرت مبلغِ اسلام کواپنے مقاصدِعالیہ کے لیے ان کے صالح والدینِ کریمین نے جس جتن اور آرزو سے تیارکیااس کی مثال اس زمینِ کاشت جیسی ہے جسے کسان اچھی فصل کے لیے تیار کرتا ہے ۔۱۲سال کی عمرمیں والدِماجدکی رحلت کے بعدآپ کاتعلیمی سلسلہ جامعہ قومیہ میرٹھ میں جاری رہا۔بالآخرسولہ سال کی عمرمیں آپ درسِ نظامی کے امتحان میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہوکردستارِفضیلت سے نوازے گئے ۔(۸)حضرت مولاناشاہ عبدالحکیم جوشؔ کاوصال ۱۳۲۲ھ میں ہوا۔ (۹)
درسِ نظامی سے فارغ ہونے کے بعدانگریزی زبان اور دوسرے معاصرعلوم سیکھنے کے لیے آپ نے اٹاوہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔وہاں میٹرک کرنے کے بعدڈویژنل کالج میرٹھ میں آئے ۔۱۹۱۷ء میں بی اے کاامتحان دیااورامتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی،وکالت پاس کی اورفنِ طب بھی پڑھا۔آپ کے برادرِبزرگ مولاناشاہ احمدمختارصدیقی اٹاوہ ہائی اسکول میں ہیڈمولوی تھے۔ انہیں امامِ اہلِ سنت فاضلِ بریلوی سے والہانہ تعلق تھا، انہی کے ذریعے آپ کوبارگاہِ رضوی تک رسائی نصیب ہوئی۔(۱۰)
شاہ احمدمختارصدیقی:
آپ۷محرم الحرام ۱۲۹۲ھ میرٹھ محلہ مشائخان میں پیداہوئے ۔۵سال کی عمرمیں قرآنِ مجیدناظرہ پڑھا،فارسی وعربی کی ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد مولاناشاہ عبدالحکیم جوشؔ صدیقی سے پائی ،تکمیل مدرسہ اسلامی اندرکوٹ میرٹھ میں کی ۔۱۳۱۰ھ میں سولہ سال کی عمرمیں درسِ نظامی سے فارغ ہوئے ،۱۳۲۱ھ میں سفرِحج کیااورمکہ معظمہ میں شیخ الدلائل شاہ عبدالحق الہ آبادی سے کتبِ حدیث کادرس لیا،۱۳۲۲ھ میں ایک برس مدینہ طیبہ میں رہ کروہاں کے شیوخ خصوصاًشیخ رضوان سے سندیں پائیں۔ آپ فاضلِ بریلوی کے مریدوخلیفہ اورحضرت کے قرب کی دولت سے مشرف رہے۔حضرت سیدحاجی وارث علی شاہ علیہ الرحمہ سے بھی بہت عقیدت رکھتے تھے ۔سلسلۂ عالیہ اشرفیہ اور اس کے اشغال واورادکی اجازت قطب المشائخ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے حاصل کی ۔اولاًمیرٹھ مدرسہ قومی میں فارسی کے مدرس رہے پھراٹاوہ اسلامیہ ہائی اسکول کی ملازمت کی۔
اس کے بعدبھوپال امرائوجہاں بیگم کے اسلامی مدرسے کے مدرسِ اول ہوئے ۔سامروداوردمن میں بھی مدرس کی حیثیت سے کام کیا۔برمااورافریقہ وغیرہ کا سفر کیا اوراسکول ومراکزبنائے ۔ تحریکِ خلافت میں اپنے ددنوں برادر ا ن مولاناعبدالعلیم صدیقی اورمولانانذیراحمدخجندی کے ساتھ مل کر تین لاکھ کاچندہ جمع کیا۔۱۹۲۲ء میں قیدوبندکی صعوبت اٹھائی ،کئی یتیم خانے قائم کیے ۔۶۳برس کی عمرمیں شب پیر ۱۲ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۷ھ /۱۰ جولائی ۱۹۳۸ء کودمن میں انتقال فرمایا۔(۱۱)
امام احمدرضابریلوی قدس سرہ سے انہیں غایت درجہ تعلق تھا۔شعروسخن کابھی ذوق رکھتے تھے ۔مبلغِ اسلام کی کتاب ’’ذکرِحبیب‘‘میں ان کی بھی چارنعتیں شامل ہیں۔نمونہ کلام یہ ہے:
مجھے اس کا جلوہ دکھا دے خدایا
جسے تو نے آئینہ اپنا بنایا
خدا نور ہے آسمان و زمیں کا
محمد ہے اس نور کا پہلا سایا
الٰہی! بحقِ شفیعِ قیامت
مرے سر پہ ہوا ابرِ رحمت کا سایا
(۱۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشارت ہونبی آئے ہمارے رہنمابن کر
حبیبِ کبریا ہوکر شفیعِ دوسرا بن کر
گنہ گارو! چلو خوش ہو بڑی تقدیر ہے اپنی
کہ وہ آئے شفیع المذنبیں صاحب لوا بن کر
زباں کھلتی نہیں مختارؔکی شرمِ معاصی سے
دلِ مہجور خود حاضرہے عرضِ مدعا بن کر
(۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ جمالِ شہِ بطحا دیکھو
نورِ حق جلوہ نماہے رخِ زیبا دیکھو
رخِ روشن سے اٹھا دیجیے برقع شاہا!
کتنے مشتاقِ زیارت ہیں خدایادیکھو
جن کوفردوسِ بریں کی ہو تمنا مختارؔ
ان سے کہہ دوکہ چلوپہلے مدینہ دیکھو
(۱۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے دل میں ہے آرزوے مدینہ
چلوں ہند سے کاش سوے مدینہ
الٰہی! بحقِ نبی اب دکھا دے
ہے کب سے مجھے جستجوے مدینہ
(۱۵)
سائوتھ افریقہ وغیرہ علاقوں میں مولانااحمدمختارصدیقی علیہ الرحمہ نے امام احمدرضاقدس سرہ کے مشن کے تحت زورو شور سے کام کیا۔وہاں سے طلبہ کوجامعہ نعیمیہ مرادآبادوغیرہ اہلِ سنت کے مراکزمیں بھیجا۔چنانچہ مفتی محمداطہرنعیمی لکھتے ہیں:
’’موصوف سفرِافریقہ سے جب واپس آئے تو آپ کے ساتھ تشنگانِ علومِ دینی میں سے چار افراد تھے ، انہیں لے کر مولاناموصوف مرادآبادتشریف لائے اور حضرت صدرالافاضل مولانامحمدعلیم الدین (نعیم الدین) علیہ الرحمہ سے فرمایا’’میں نے اپنی ذمے داری پوری کردی ہے اب تشنگانِ علم کی ذمے داری آپ کے ذمے ہے۔‘‘ ان چارطالب علموں میں سے دوکے نام ذہن میں ہیں،ان میں ایک ایک مولوی محمدبشیرمرحوم تھے اوردوسرے مولوی نظام الدین مرحوم ،ان کاتعلق ڈربن (افریقہ)سے تھا۔مولوی محمد بشیرصاحب مرحوم سے میری خط و کتابت بھی تھی ، موصوف نے اس علاقے میں کافی خدمت کی اور مولانا احمد مختار قدس سرہ کے مشن کوجاری رکھا۔‘‘ (۱۶)
حضرت شاہ احمدمختارصدیقی خلیفۂ امام احمدرضاقدست اسرارہما کے بارے میں مفتی صاحب مزیدلکھتے ہیں:
’’مولانااحمدمختارکومیںنے دیکھا تو موصوف کی بصارت ختم ہوچکی تھی ،مرادآبادکے دورانِ قیام میں نے مولاناکولکھتے دیکھ کرتعجب کیالیکن اس سے قبل مولاناکی تحریریں خط وکتابت میں بھی دیکھ چکاتھا ۔اس وقت احساس ہواکہ مولانانظرختم ہونے کے باوجودایساپاکیزہ لکھتے ہیں جیساکہ انکھیارے نہیں لکھ سکتے ۔ ہرہرحرف اپنی جگہ ، سطر ٹیڑھی، نہ عبارت میں کوئی سقم، گفتگوکا انداز اتنا پیا راکہ بولتے وقت معلوم ہوتاکہ زبان سے موتی جھڑرہے ہیں۔ مولانا احمدمختارقدس سرہ کے دوصاحب زادے عزیزی ظہور الحق رحمانی اورعزیزالحق عرفانی بھی جامعہ نعیمیہ میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔‘‘(۱۷)
مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت
حضرت مبلغِ اسلام علامہ عبدالعلیم میرٹھی علیہ الرحمہ کی تعلیم وتربیت اورانہیں جوہرِگراں مایہ بنانے میں ان کے برادرِمکرم کابھی خاص دخل ہے ۔ حضرت کے بعض سوانح نگاروں نے تویہ بھی لکھاہے کہ حضرت مبلغِ اسلام نے سلسلۂ چشتیہ وغیرہ میں انہی سے بیعت کی تھی ۔
حصولِ علم کے اسی دور میں جب کہ مبلغِ اسلام میرٹھ کالج میں تھے آپ کوآل برماایجوکیشنل کانفرنس کاصدرمنتخب کیاگیا۔یقینایہ اسی بنیادپرہواہوگاکہ انگریزی زبان و بیان پرقدرتِ کاملہ کے ساتھ ساتھ آپ کواسلامی اور عصری نظامِ تعلیم کی باریکیوں پروافردست گاہ حاصل ہوچکی تھی ۔ اس کانفرنس کے سلسلے میں آپ نے اپنی صدارتی ذمے داریوں کو جس حسن وخوبی سے نبھایااورکانفرنس کے مقاصدکوپوراکرنے کے لیے جوخطبۂ صدارت دیاوہ سیلون اور برمامیں نہایت اثر اندازہوااوراس وقت برمامیں جن لوگوں سے علمی بنیادوں پر روابط قائم ہوئے ،مبلغِ اسلام کے لیے وہی مستقبل میں خدماتِ اسلام کے لیے ذریعہ ثابت ہوئے ۔
زبانیں
عربی ،فارسی،اردو،انگلش ،جرمن، جاپانی، چائنا، فرنچ، ملایا، سواحلی زبانوں پرانہیں عبورتھااورہندی وسنسکرت بھی جانتے تھے ۔اگرچہ یہ بات حضرت مبلغِ اسلام پرقلم فرسائی کرنے والے کسی قلم کارنے کبھی نہیں لکھی مگرمیں دیکھتاہوں کہ ذکرِحبیب کے اندرانسانی جسم کی بے ثباتی پروہ سنسکرت اور ہندی کے مشہور شاعر کبیرداس کادوہابلاتکلف نقل کرکے اس کاترجمہ کرتے ہیں۔ (۱۸) اوریہ بات یوں بھی قرینِ قیاس ہے کیوں کہ محض تبلیغ اوراشاعتِ دین کی غرض سے متعددغیرملکی زبانیںسیکھنے والامبلغِ اسلام کیاہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی مذہبی زبان سے ناآشناتھا جہاں کاوہ خودباشندہ تھا۔؟
آپ کے محسن مشائخ:
مبلغِ اسلام حضرت مولاناعبدالعلیم صدیقی کے محسن مشائخ کرام کے اسماے گرامی یہ ہیں :
(۱)آپ کے والدِماجدحضرت مولاناشاہ عبدالحکیم صد یقی علیہ الرحمہ
(۲)برادرِمحترم مولاناشاہ احمدمختارصدیقی علیہ الرحمہ
(۳)شیخ المشائخ حضرت مولاناشاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی علیہ الرحمہ
(۴)امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت احمدرضا خاں فاضل بریلوی قدس سرہ
(۵)حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ
(۶)حضرت شیخ احمدالشمس علیہ الرحمہ
(۷) حضرت شیخ السنوسی علیہ الرحمہ (لیبیا)
مگرآپ کی زندگی میں انقلابی جدوجہدکی روح امام احمدرضافاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے پھونکی ۔ان کے ہاتھ پربیعت کرنے کے بعدآپ سراپامحبت بن گئے ۔حج وزیارتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واپس آکراپنے محسن مرشدکی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیںتومدحیہ قصیدہ بطورِنذرپیش کرتے ہیںجس کے کچھ اشعاریہ ہیں:
تمہاری شان میں جوکچھ کہوں اس سے سواتم ہو
قسیمِ جامِ عرفاں اے شہِ احمدرضا تم ہو
غریقِ بحرِالفت مستِ جامِ بادۂ وحدت
محبِ خاص منظورِ حبیبِ کبریا تم ہو
علیمِ خستہ جاںادنیٰ گداہے آستانے کا
کرم فرمانے والے حال پرا س کے شہاتم ہو
اپنے عقیدت کیش مسترشدکی بارگاہِ حبیب سے واپسی پر،فداے حبیب امامِ وقت نے ارشادفرمایا:
’’مولانا!آپ کی خدمت میں کیاپیش کروں؟ آپ تواس دیارِپاک سے تشریف لارہے ہیں۔یہ عمامہ تو آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں ہے ۔ البتہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت ایک جبہ ہے ،وہ حاضر کیے دیتاہوں ۔‘‘(۱۹)
یہ فرماکراپناجبہ اپنے منظورِنظرخلیفہ مبلغِ اسلام کو پہنادیا۔
مبلغ اسلام كا عشقِ رسول:
حضرت مبلغِ اسلام نے اپنے شیخ کے پہنائے ہوئے مبارک خرقے کی خوشبوسے صرف ہندوپاک کوہی نہیں بلکہ تا عمر اطراف واکنافِ عالم میں سفر کر کرکے ایک عالم کومشرف کیا اوررضوی بادۂ ناب سے ہزارہاقلوب کوسرمست وبے خود بنایا۔ امام احمدرضافاضل بریلوی عظمتِ مصطفی کے محافظ اور عشقِ سید الانبیا کے شیداتھے اورانہوںنے اپنے تمام خلفااوراہلِ ارادت میں حبِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کاخماراتاردیاتھا۔حضرت مبلغِ ِاسلام کی شخصیت کوہم جب غورسے دیکھتے ہیںتوان کے قالب میں ایک بے قرارعاشقِ رسول کی روح مچلتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے تمام کارنامے اسی محبتِ رسول کی جلوہ سامانیاںہیں۔
مفتی محمداطہرنعیمی حضرت کی والہیت کاایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
’’مرادآبادمیں جامعہ نعیمیہ کے سالانہ جلسے کے موقع پرمولاناعارف اللہ شاہ قادری مرحوم ومغفوربارگاہِ رسالت میں صلوٰۃ وسلام کے موتی نچھاور کر رہے تھے اورمجمع پرایک عجیب وغریب کیفیت طاری تھی ۔حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ مولاناآگے بڑھے اور مو لاناعارف اللہ شاہ صا حب کے ساتھ صلوٰۃ وسلام پڑھنے لگے ۔
۔۔۔۔ حضرت مولاناعارف اللہ شاہ صاحب مولاناعبدالعلیم صاحب کی ہو بہو نقل تھے، اطوار وانداز، تقریرو تحریر غرضیکہ ہرادامیں حضرت مولانا عبدالعلیم قدس سرہ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے ۔ان دونوں حضرات نے مل کر جب صلوٰۃ وسلام پڑھ کرختم کیا اور اس کے بعد حضرت مولاناعبدالعلیم صدیقی صاحب نے اپنے انداز میں دعافرمائی ۔آج پینتیس سال گزرنے کے بعد بھی اس انداز میں دعاکرتے ہوئے مشکل ہی سے کسی کو سنا ہوگا۔‘‘(۲۰)
مدینے کی لگن:
حضورآقاے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مبلغِ اسلام اس قدرغرق تھے کہ شہرِیارِمدینہ اورمدینۂ پاک ہی کو اپنا مقصدبنالیاتھا ،جودرحقیقت ہر فرزانگی سے بلندترفرزانگی ہے ۔ قائدِاہلِ سنت مولاناشاہ احمدنورانی بیان کرتے ہیں:
’’حضرت مبلغِ اسلام بیمارتھے ،سیڑھیاں اترنا چڑھنا تکلیف دہ تھا ،اسی بیماری میں رمضان کامہینہ بھی جلوہ افروز ہوگیا چوں کہ کراچی میں ہماری رہائش گاہ اوپری منزل پرواقع ہے اورمسجدتک جانے کاذریعہ سیڑھیاں ۔والدِ ماجد نے اپنی تکلیف کے پیش نظرمجھے حکم فرمایاکہ اس مرتبہ نمازِ تراویح میں قرآنِ مجید مجھے تم یہیں گھرمیں ہی سنائو گے ۔ چنانچہ نشست گاہ میں ہی نمازِ تراویح کاانتظام کیا گیا ۔ چند پیر بھائی بھی نمازمیں شریک ہوجاتے ، وا لدِ ماجد کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہوکرنمازپڑھتے ۔
نماز سے فراغت کے بعد مسائل بیان فرماتے ۔کوئی پیربھائی کسی آیت کی تفسیر دریا فت کرتا اور کوئی نعتِ پاک سناتا۔ایک روزدورانِ گفتگو ایک صاحب کہنے لگے کہ حضور!آج سے کافی سال پہلے دورانِ تقریرآپ سے ایک شعرسناتھا وہ مجھے بڑا پسند ہے ۔میں اکثر اسے پڑھتارہتاہوں ۔والدِماجدنے فرمایا: کون سا شعر؟ ان صاحب نے عرض کیا:
مدینے جائوں پھر آئوں مدینے پھر جائوں
تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے
والدِماجدنے فرمایاکہ اب میں اس شعرکوترمیم کے ساتھ اس طرح پڑھتاہوں:
مدینے جاکے نہ آئوں وہیں پہ رہ جائوں
درِحبیب پہ قصہ تمام ہوجائے (۲۱)
نسبتِ رسول کااحترام:
حضرت مبلغِ اسلام حضورسرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے باعث ساداتِ کرام کابھی بے حدادب واحترام کرتے تھے اوریہی تعلیمِ امام احمدرضافاضل بریلوی بھی ہے۔ حضرت مولاناسیدغلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ سے کسی علمی عنوان پربدمزگی ہوگئی تھی ،معاملہ جامعہ نعیمیہ میں حضرت صدرالافاضل علیہ الرحمہ تک آیا۔تقسیمِ اسنادکے جلسے میں ہردوحضرات مدعو تھے۔صدرالافاضل نے استفسارکیاتومبلغِ اسلام نے فرمایا: حضور والا!کیسی شکررنجی اورکیسانزاع؟یہ توایک علمی گفتگوتھی، میرا موقف یہ ہے ،مولانایہ فرماتے ہیں،اب آپ ہی فیصلہ کریں ۔ اس کے علاوہ مولانا محترم میرے لیے قابلِ احترام یوں بھی ہیں کہ مجھ سے افضل علم رکھتے ہیںاورانہیں ایک ایسی نسبت حاصل ہے جس پرسب کچھ قربان کیاجاسکتاہے ، وہ نسبت رسول کی ہے ۔
تم گلے مل گئے گلہ نہ رہا
دل کا اب کوئی مدعا نہ رہا
مبلغ اسلام اور احترامِ علما:
تاج العلمامولانامفتی محمدعمرنعیمی علیہ الرحمہ ۱۹۵۱ء میں کراچی کے راستے بغدادشریف کا عزم لے کرنکلے توواپسی میں ہندوپاک کے تعلقات نہایت خراب ہوگئے ۔اس وقت حضرت مبلغِ اسلام علیہ الرحمہ نے تاج العلما کے لیے کراچی میں قیام کا انتظام کیااورپاکستانی پاسپورٹ کی فراہمی کی اور کراچی کے اندران کی سرپرستی میں ایک دارالعلوم کاپروگرام بنایا۔
قیامِ کراچی کے دوران حضرت تاج العلما روزانہ حضرت مبلغِ اسلام کی قیام گاہ ماسٹرہائوس، صدرتشریف لے جاتے تھے ۔مبلغِ اسلام کایہ طریقہ تھا کہ تاج العلماکی آمدکی اطلاع پاتے ہی نیچے تشریف لاکراستقبال کرتے اورواپسی کے وقت نیچے تک آکرمشایعت فرماتے ۔تاج العلماکویہ بات ناگوارمحسوس ہوئی ۔ایک روزواپسی کے وقت فرمایا:
’’مولانا!میں کل سے آپ کے پاس نہیں آئوں گا۔‘‘مبلغِ اسلام نے تعجب سے پوچھا’’ حضرت! آخر مجھ سے ایسی کیاکوتاہی ہوئی اورآپ جیسی شخصیت جوکبھی کسی سے ناراض نہیں ہوتی، مجھ سے یہ فرماتے ہیں؟‘‘
تاج العلما نے فرمایا:ناراضگی کوئی نہیں لیکن میں یہ کسی قیمت پرگوارانہیں کرسکتاکہ آپ مجھے لینے اور چھوڑنے کے لیے نیچے آنے کی تکلیف کریں ۔‘‘
فرمایا’’مولانا!میں اپنے جذبۂ عقیدت سے مجبور ہوکر یہ کرتاہوں لیکن الامرفوق الادب کے بمصداق تعمیل کروں گا۔‘‘اس روزسے یہ معمول ہوگیاکہ صاحب زادگان میں سے وقت پرجو موجود ہوتا اسے یہ خدمت تفویض فرماتے ۔ (۲۲)
وقارِعلماکے لیے:
مبلغِ اسلام نے اپنے کرداروعمل سے مسلم امت کے بگڑتے ہوئے رجحان اورعلمابیزارماحول میں نائبینِ رسول کے وقارکوبلندکیااوریہ ثابت کیاکہ علمامحض مساجدومدارس کے اسیر نہیں ہیںبلکہ حقیقی علماوہ ہیںجنہوںنے علم اورفقرِمحمدی کے سہار ے عالم میں بڑے بڑے انقلابات رونماکیے ہیں۔آپ اپنے اکابرکابے حداحترام کرتے تھے اورمعاصرین میں مقبول ومنظورتھے ۔
علما بیزارپروپیگنڈے کے باعث مسلمانوں کی دین سے وابستگی پرجو منفی اثرات مرتب ہونے لگے تھے آپ نے اس زہر آلود وباکے خطرات کوبہت پہلے ہی سے محسوس کیاتھا جس کی زد میں آج پاکستان جیساملک بھی ہے ۔چنانچہ آپ نے اپنے ایک خطبے میں یہی فرمایا:
’’آج یہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ علما اقتدار کے طلب گارہیںاورعہدوں کے امیدوارہیں۔مجھے اجازت دیجیے کہ میں نہ صرف آپ حضرات بلکہ تمام روے زمین کے علماے عاملین کی طرف سے نیابۃً پوری قوت سے دنیاکویہ پیغام پہنچادوں کہ طبقۂ علمااپنی ذات کے لیے دنیامیں نہ کسی اقتدارکامتمنی تھا، نہ ہے اورنہ خدا کرے کہ ہو۔وہ صرف دین کے اقتدارکاطلب گارہے وہ صرف کتاب اللہ اورسنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتدار کا خواستگار ہے ۔
رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اگرکفارِمکہ کے سامنے ببانگِ دہل فرمایاکہ مجھے نہ تمہاری دی ہوئی دولت چاہیے نہ عورت، نہ امارت چاہیے نہ مملکت ،میں توصرف اس کا امیدوار ہوں کہ تم ہدایت پاجائواورجہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچائو۔ مصر،شام، عراق، پاکستان، انڈونیشیاسب جگہ کے مسلمان سن لیں، علمایہ نہیں چاہتے کہ زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیں ،ہاں یہ چاہتے ہیں کہ آئینِ حکومت اسلامی ہوِ احکام نافذکرنے والے خداترس عالم بالکتاب والسنتہ ہوں ۔اللہ کی زمین پراللہ کے قوانین کی حکومت ہواورا س کے چلانے والے دیانت داراورتقویٰ شعار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمایہ بتانے کے لیے تیارہیں کہ اسلامی قانون کیاہے ،اس پر چلنے اور چلانے کا ہرمسلمان ذمے دار ہے۔ لوگ کہتے ہیں علمامیں اختلافات ہیں،وہ باہم برسر پیکار ہیںکسی ایک نقطے پران کااتفاق دشوارہے لہٰذا ان کوامورِمملکت میں مشیرکیوں کربنایاجائے ؟ میں کہتاہوں اوراپنی علمی و دینی ذمے داریوں کا پورا احساس رکھتے ہوئے کہتا ہوں:
٭کیابیرسٹراوروکلامیں انسانوں کے بنائے ہو ئے قوانین کی تعبیرمیں اختلافات نہیں ہوئے ؟
٭کیاڈاکٹروں میں تشخیصِ مرض وتجویزِدوامیں اختلافا ت نہیں ہوئے ؟
٭کیاسیاسین میں احزابِ مختلفہ نہیں ہوئے ؟
٭کیاارکان پارلیامنٹ میں کبھی تعبیر ِ آراو قانون میں اختلاف نہیں ہوتا؟
٭اورکیاان اختلافاتِ تعبیرات کے سبب بیرسٹرو ں کومعطل اورقانون کوبیکاراورکیاپارلیامنٹ اور اسمبلیوں کو موقوف کیاگیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہتاہوں اورپوری قوت سے کہتاہوں کہ علمامیں کیسے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر لادینیت، لامذہبیت اورغیرماانزل اللہ قوانین اورمغرب پرستی کے مقابلے اورقوانینِ الٰہی کے اجراکے لیے سب بلااختلاف ایک محاذپرصف بستہ ہیںاوران میں سے ضعیف سے ضعیف فردبھی اس بات میں پوری قوت کے ساتھ سعی اورقربانی کے لیے آمادہ ہے۔‘‘ (۲۳)
شانِ خطابت:
حضرت مبلغِ اسلام اپنے عصرکے خطیبِ بے بدل تھے ۔ بات یہ ہے کہ کوئی جذبہ اورمقصداگردل کولگ جائے اورکہنے والا اس کواپنی زندگی اورسرمایۂ زندگی سے کہیں زیادہ اہم قراردے دے توپھروہ ضرورانقلاب آفریں اورسحرانگیزی کے اثرات پیدا کرلیتاہے ۔حضر ت مبلغِ اسلام کاہرخطبہ اورہرتقریران کے قلبی واردات ہوتے تھے اوراسلام وایمان ،عشقِ رسول اورپیغامِ زندگی یہ سب کے سب ان کی روح میں سرایت کیے ہوئے مقاصدتھے ، عشق وعرفان کی گرمی کے ساتھ ان کے دل سے تقریر اورخطبے کے اندازمیں نکلی ہوئی ہربات دلوں ہی پراثراندازہوتی تھی۔
چوں ازدل خیزدبردل ریزد
مولیٰ تعالیٰ نے انہیں حسنِ صورت ،حسنِ سیرت ، وجاہت، وقاراورزبان وبیان پرکامل قدرت عطافرمائی تھی ۔ آپ اپنی تبلیغ کی ہرزبان میں یکساں مہارت اوریقین واعتمادکے ساتھ کلام فرماتے تھے کیوں کہ کسی غیرزبان میں پوراعبورنہ رکھنے والاانسان اہلِ زبان سے عام طورپرگفتگوکرتے ہوئے اولاًتواپنی زبان دانی پرنگاہ رکھتاہے کہ کہیں اس میں کوئی سقم نہ ہو۔
مگر اردو زبان کے علاوہ انگلش ،عربی اوردیگرزبانوں میں حضرت مبلغِ اسلام کے خطبات ،تقاریراوربیانات کے جونتائج ہمارے سامنے آتے ہیںان سے صاف ظاہرہے کہ وہ ان تمام زبانوں کونہایت بلندی سے استعمال کرتے تھے جہاں اہلِ زبان بھی بلاتکلف زبان کی خامیوں خرابیوں میں الجھے بغیرادبی اسلوب میں نفسِ مطلب سے متاثرہوتے تھے اورمعترف ہوتے تھے ورنہ اخوان المسلمون کے شیخ حسن البناء کے آپ کے البیان سے متاثر ہونے اوراین ایچ برلاس کے آپ کی انگلش تقریرسے عش عش کرنے کے کیامعنی؟
صاف معلوم ہوتاہے کہ مبلغِ اسلام مذکورہ تمام زبانوں میں کامل دسترس رکھتے تھے ،تقریراورخطابت آپ کاوہبی ملکہ اورفن تھا ۔
کم سنی کازمانہ ،صرف نوسال کی عمرتھی ،جامع مسجدمیرٹھ میں جلسہ ہورہاتھا ،ابتداے جلسہ میں عام طورسے بچوں سے تلاوت ،نعت خوانی اور تقریرکرائی جاتی ہے جس میں مبتدی طلبہ حصہ لیاکرتے ہیں۔آپ کوبھی تقریرکاموقع ملا۔آپ نے کہنہ مشق مقررکی طرح تقریرکرڈالی ، سامعین وحاضرین ششدررہ گئے کہ اس کم عمری میں یہ جوہرہیںتوعنفوانِ شباب کوپہنچ کرخطیبِ اعظم بنیں گے ۔(۲۴)
علامہ شرف قادری لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانامحمدعبدالعلیم صدیقی شعلہ بیان خطیب، بلندپایہ ادیب اورعظیم مفکرِاسلام تھے ۔جب آپ اپنی نغمہ ریز آوازمیں دلائل وبراہین سے اسلام کی حقانیت بیان کرتے تو حاضرین پرسکوت چھاجاتا اور بڑے بڑے سائنس داں ، فلاسفر اوردہریہ قسم کے لوگ آپ کے دستِ اقدس پرحلقہ بگوشِ اسلام ہوجاتے ۔‘‘ (۲۵)
حضرت کی خطابت کے باب میں پروفیسرشاہ فریدالحق فرماتے ہیں:
’’تقریرکی شہرت اوران کی شخصیت کے اثرکایہ عالم تھا کہ جہاں جاتے ہزاروں کواپناگرویدہ بنالیتے ، ایک ایک جلسے میں ہزاروں افراد کوبلالائوڈ اسپیکر خطاب کرنے کاملکہ انہی کوحاصل تھا ،غضب کی آوازاور بلا کا اندازاللہ تعالی نے ان کوودیعت کیاتھا ۔‘‘ (۲۶)
مبلغِ اسلام کے ملکۂ خطابت کی تعریف کرتے ہوئے ٹوکیوجاپان کے پروفیسراین ایچ برلاس کہتے ہیں:
’’پوری طرح اندازہ لگانے کے لیے مولانا صدیقی کوکئی پلیٹ فارم سے سننالازمی ہے ۔یقیناایک شخص ان کی سحرانگیز شخصیت ،قوت گویائی ،گرج دا ر اور متاثرکن بلکہ سریلی آواز نیز شاندار ادائیگی سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔‘‘(۲۷)
مفتی محمداطہرنعیمی مبلغِ اسلام کی شانِ خطابت بیان کرتے ہیں:
’’مولاناکی زیارت ہوئی تواندازہ ہواکہ اس گلشن کاہرپھول ہی منفرداوریگانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رات کوحضرت مولانا تقریباًگیارہ بجے اسٹیج پرتشریف لائے ، جامعہ نعیمیہ کا وسیع و عریض میدان نعرۂ تکبیرورسالت سے گونج اٹھا۔تقر یباً نصب شب کے بعدمولانانے تقریر شروع کی ، یہاں یہ بات بے محل نہ ہوگی کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے مولاناکوحسین صورت و سیرت سے سرفراز فرمایا تھا ، وہاںحسنِ صوت میںبھی مولانا کی ممتازحیثیت تھی ، عجیب والہانہ اور پیارے اندازسے مولاناصاحب نے خطبۂ مسنونہ پڑھااورمجمع کومبہوت فرمایا ۔
خطبے کے بعدحضرت مولانانے جس عقیدت ومحبت کے ساتھ بارگاہِ سیدالانام میں منظوم نذرانۂ عقیدت پیش فرمایا ایسے مناظرکودیکھنے کے لیے اب آنکھیں ترستی ہیں۔ یہاں مولاناکی عقیدت ومحبت کے علاوہ بارگاہِ رسالت میں ان کی مقبولیت کااندازہ ہوگا۔مولانانے جونعت شریف پڑھی تھی اس کاایک مصرع اب بھی حافظے پرباقی ہے :
مدینے کی زمیں پردفن ہوں یہ ہڈیاں میری
دیکھنے والوں کاکہناہے کہ انتقال سے قبل حضرت مولاناقدس سرہ اتنے نحیف ہوگئے کہ جسم صرف پوست و استخواں کامجموعہ تھا ۔‘‘(۲۸)
اسلام کے عالمی مبلغ:
مبلغِ اسلام علیہ الرحمہ نے تبلیغ اوراشاعتِ اسلام کے لیے برصغیرہندوپاک کے مختلف خطوں کے علاوہ باہری دنیامیں جن ملکوں کے دورے کیے ،ان کے نام یہ ہیں:برما، سیلون، ملیشیا، انڈونیشیا،تھائی لینڈ، نائیجریا، انڈوچائنا، چین، جاپان، ماریشش، جنوبی ومشرقی افریقہ کی نوآبادیات،سعودی عرب، عراق، اردن، فلسطین،شام،مصر، برطانیہ، فرانس، اٹلی، برٹش گیانا، سرینام ، مڈغاسکر، ٹریٹی ڈاڈ،امریکہ،کینیڈا،فلپائن،سنگاپور۔ان میں سے کچھ ممالک ایسے ہیںجہاں آپ کے قدمِ مبارک باربارپڑے، خاص طورسے۱۹۵۱ء میں آپ نے ایک عالمی تفصیلی دورہ فرمایاتھا جس میں مؤخرالذکربارہ ممالک کے ساتھ ساتھ ملیشیا،تھائی لینڈ، انڈونیشیا،سیلون اورسعودی عرب بھی تشریف لے گئے تھے ۔
قائدِاہلِ سنت مینارۂ نورکے نام سے اپنے پیغام میں فرماتے ہیں:
’’چودھویں صدی ہجری کے عظیم المرتبت مبلغ ، والدِماجد،حضرتِ اقدس،شیخِ طریقت، مولانا شاہ محمد عبدا لعلیم صدیقی مدنی نوراللہ مرقدہ نے برصغیرسے اٹھ کر اطراف واکنافِ عالم میں حضورپرنورسیدالعالمین محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے پرچم لہرائے ۔آج بھی اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔‘‘(۲۹)
اپنے اسی پیغام میں مبلغِ اسلام کے حلقۂ تبلیغ وارشاد پر اظہارِخیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’حضرت رحمۃ اللہ علیہ برصغیرکے وہ یکتاے زمانہ روحانی پیشوا اورعالمِ دین تھے جنہوںنے امریکہ ،جنوبی امریکہ ، کینیڈا،انگلستان،یورپ،براعظم افریقہ، چین و جاپان ، انڈونیشیا و ملیشیا،سیلون وبرمامیں عیسائیت و مرزائیت ، الحاد و لادینیت کے خلاف سینہ سپرہوکرمقام ِمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاتحفظ کیا اورنظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاپرچار کیا ۔‘‘ (۳۰)
تبلیغی جدوجہداورکارنامے
آپ کی تبلیغی اوراشاعتی مساعی سے جتنے لوگوں کودولتِ ایمان نصیب ہوئی ان کی ابتداباختلاف ِروایات پچاس ہزار،سترہزاراورایک لاکھ بتائی جاتی ہے ۔آپ کی تبلیغی سرگرمیاں ۱۹۱۹ء سے لے کر۱۹۵۴ء تک ۳۵سال جاری رہیں اورجہاں بھی گئے وہاں کی ضرورت کے مناسب مساجد، مدارس، مشن،کتب خانے،اشاعتی ادارے بنائے اوررسائل ،میگزین جاری کیے ۔ چنانچہ معلوم بنیادوں پرآپ کی یادگارحسب ذیل ادارے اورمشن ہیں:
٭سلطان مسجد،سنگاپور
٭جورکادارالعلوم
٭مسجدٹوکیو،جاپان
٭مسجدحنفیہ،کولمبو
٭مسجدوکتب خانہ اسلامی نائیجریا
٭ملایامیں ابراہیم الساگون کے تعاون سے ایک عربی یونیورسٹی کی بنیادرکھی۔
٭انڈونیشیامیںالجمعیۃالمحمدیہ کے پلیٹ فارم سے عیسائیوں اورقادیانیوں کے خلاف اسلام کی حفاظت کی۔
٭سربیامیں انڈین مسلمانوں کی جماعت ’’برٹش انڈین مسلم ایسوسی ایشن ‘‘کی بنیادڈالی۔
٭ماریشش میں قادیانیوں کی سرکوبی کے لیے ۲۹۔ ۱۹۲۸ء میں تنظیم حزب اللہ بنائی۔
٭سیلون میں ۳۹۔۱۹۳۸ء میں تنظیم حزب اللہ قائم کی ۔(۳۱)
٭انڈونیشیامیں ایک مباحثے کے دوران مظاہرپرستوں کے مجمعِ عام میں آپ نے اسلام کی حقانیت اوراس کاناقابلِ تنسیخ دین ہوناثابت کیاجس سے متاثر ہوکرپانچ ہزاربے دینوں نے اسلام قبول کیا۔(۳۲)
٭۷؍اپریل۱۹۳۵ء کوجنوبی افریقہ میں مشہور انگریز مفکر اورڈرامہ نویس ’’برنارڈشا‘‘کے ساتھ اسلام اورعیسائیت کے عنوان پرمباحثہ کیاجس کااس پریہ اثرہواکہ اس نے کہا’’آئندہ سوسال بعددنیاکامذہب اسلام ہوگا‘‘ ( یہ مباحثہ A SHVIAN AND A THEDLOGIANکے نام سے اسلامک سینٹرناظم آبادکراچی سے شائع ہوچکاہے ۔)
٭سائو تھ افریقہ ڈربن سے ’’مسلم ڈائجسٹ‘‘جاری کرایاجواب تک شائع ہوتاہے ۔
٭کولمبوسے ’’اسٹارآف اسلام ‘‘نکلوایا۔
٭ٹریٹی ڈاڈسے ’’مسلم اینول‘‘جاری کرایا۔
٭۱۹۲۷ء میں ڈاکٹررابندرناتھ ٹیگورکے ملحدانہ لکچروں کے جواب میں تقریریں فرمائیں ۔
٭۳۲۔۱۹۳۱ء میں گرین پمفلیٹ تحریک شروع کی ۔
٭سنگاپورسے انگریزی زبان میں REAL ISLAM نامی مجلہ جاری کروایا۔
٭سنگاپورہی سے ۱۹۳۶ء میں ماہ نامہ THE GENUINE ISLAM کی اشاعت کی جس کے ذریعے اپناپیغام ہندوچین کے لوگوں تک پہنچایا۔
٭ہانگ کانگ ،ٹوکیو،اوساکاکوپ میں اسلام کے موـضوع پرتقاریرکیں جن سے متاثرہوکروہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادنے اسلام قبول کیا۔
٭اسلامی مبلغین کی تیاری کے لیے طلبہ کاایک وفد ازہر یونیورسٹی قاہرہ روانہ فرمایا۔(۳۳)
٭۱۹۳۷ء میں یورپین حجاج کودرپیش مشکلات کے سلسلے میں مکۂ معظمہ میں شاہ ابن سعودسے ملاقات کی ۔
اعتراف:
فلپین کے ڈاکٹراحمدنے اپنے علاقے کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے جشنِ نزولِ قرآن اکتوبر۱۹۶۹ء کے موقع پرکہا:
’’آج ہمیں برصغیرپاک وہندکے مشہورمبلغ مولانا عبد العلیم صدیقی کی طرح دین کی تبلیغ واشاعت کرنی چاہیے ۔ مولانانے فلپائن کے جزیروں میں اسلام کی تبلیغ کے لیے مدرسے، لائبریریاں اور مساجدبنوائیں،ماہنامے اورہفت روزہ جریدے جاری کیے ۔ ہمیں اسلام کی جوروشنی ملی ہے ، ان کی مساعیِ جمیلہ سے ہم مسلمان ہوئے۔‘‘ (۳۴)
پیرعلی محمدراشدی سفیرپاکستان برائے فلپائن لکھتے ہیں:
ان کی تبلیغی کاوشوں اوراسلامی خدمات کاصحیح اندازہ مجھے تب ہواجب میں پاکستان کاسفیربن کرفلپائن پہنچا۔‘‘
فلپین میں عظیم خدمات
کسی دورمیں فلپین بھی مسلمانوں کی اکثریت والاملک تھا ۔جغرافیائی لحاظ سے بحرالکاہل میں ایک ہزارمیل تک پھیلے ہوئے تقریباًسات ہزارایک سو جزائزمیں سے اصلاًدوجزائرکے مجموعے کوفلپین PHILIPINESکہتے ہیں۔یہ جنوب مشرقی ایشیامیں واقع ہے۔جنوب میں چین۳۳۰میل اور ملیشیا ۳۱ میل کے فاصلے پرہے ۔فلپین کارقبہ ۱۱۵۰۸۰۰مربع میل ،آبادی (۱۹۷۵ء)۴۲۱۰۸۰۰۰۔باشندوں کی غالب اکثریت ملالی النسل ہے لیکن ان میں انڈونیشیین اورمنگول نسل کی آمیزش ہے ۔ چینی امریکی اورہسپانوی بھی کافی تعدادمیں ہیں۔
۱۵۲۱ء سے قبل یہ ملائی نسل کے لوگوں کاہی مسکن تھا جو اکثرمسلمان تھے ۔ پرتگالی جہازراںمجیلان پہلایورپین یہاں پہنچا۔۱۵۷۱ء میں اس پر اسپین نے قبضہ کیااورتین سوسال تک حکومت کی۔ اسی دوران لوگوںکوجبراًان کے دین سے منحرف کیاگیا۔۱۸۹۵ء میں اسپین امریکہ کی جنگ کے بعدفلپین ریاستہاے متحدہ امریکہ کے زیرِ تسلط آگیا۔۱۹۳۴ء میں فلپین آزادہوگیا۔عام مغربی رپورٹوں کے مطابق ۱۹۷۶ء تک تقریباً بیس ہزارمسلمان فلپین مسیحی فوجوں کے ہاتھوں شہیدہوئے مگردرحقیقت شہیدہونے والوں کی تعداداس سے کہیںزیادہ ہے۔
فلپین کے جن جزائرمیںاب بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ یہ ہیں:منڈالو،باسلان،ٹاوس ٹاوی،پلاوان،لووہ اور ہوتو۔(۳۵)
۱۵۷۱ء میں ہسپانوی حملے کے وقت وہاںپرمسلمان راجہ سلیمان کی حکومت تھی جنہیں شکست دے کرہسپانوی فوجیوں نے پورے علاقے اورجزائرکے مسلمانوں کوجبراً مرتدبناناشروع کیا۔ چنانچہ اپنے تین سوسالہ دورِاقتدارمیں ہسپانوی مسیحیوں نے فلپینی مسلمانوں کے دین وایمان کوبربادکرکے انہیں گمراہ کردیا۔وہاں اب ۹۰فی صدمسیحی پائے جاتے ہیں۔
آج فلپین مشرقِ بعیدمیں رومن کیتھولک کابڑامرکزشمارہوتاہے مگران مسیحی جلادوں کا عرب نژاد مسلم قبائل جومذکورہ بالاجزائرمیں آبادہیں،ان پراثرنہیں پڑااورانہوںنے شروع سے مسیحی دسیسہ کاریوں کے خلاف سخت جہادکیا۔وہ صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں سے نبرد آزما ہیں اور جمہوری نظام کی بحالی کے بعدبھی خودپرہونے والے جورو ستم سے ٹکرارہے ہیں۔حضرت مبلغِ اسلام نے ان مجاہدمسلمانوں کی رگوں میں حیاتِ نوکی بجلیاں بھردیں اورانہیں ازسرنوقوتِ باطل سے ٹکرانے کاحوصلہ عطاکیا۔پیرعلی محمدراشدی کہتے ہیں:
’’میں جب ۱۹۵۷ء میں سفیربن کرفلپائن پہنچاتو مجھے جاتے ہی محسوس ہونے لگاکہ ا س شخص نے وہاں کے مسلمانوں کو بیدارمنظم کرنے میں بڑاکام کیا ہواتھا جوان سے پہلے نہ کسی مسلمان ریاست سے، نہ کسی باہرکے شیخ اور پیر سے ہوسکاتھا۔ان کاخودتواس سے پہلے انتقال ہوچکاتھا مگر ان کانام فلپین میں اسلامی حلقوں میں ہنوزگونج رہاتھا گویاوہ اب بھی ان میں موجود ہیں اورروحانی طریقے سے ان کی رہنمائی کررہے ہیں۔پاکستان کے سفیرکومسلم عوام اس نسبت سے پہچانتے تھے کہ اس کاتعلق اس ملک سے ہے جہاں سے مولاناصاحب تشریف لائے تھے ۔ ہر شخص ان کے روحانی فیوض اور کرامات کاذکرکرتے نہیں تھکتاتھا اور وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیامیں نے بھی ان کی کچھ کرامات دیکھیں ۔
معلوم ہوتاتھا کہ اسلام کی تبلیغ کاکام انہوںنے اس قدرعقل مندی اوردوراندیشی سے سرانجام دیاتھا کہ ایک طرف تو وہاں کے مسلمانوں کووہاں کی سوسائٹی کی دشمنی قبل ازوقت مول نہ لینی پڑے اوردوسری طرف ان میں یہ احساس بھی پیدا ہوتا جائے کہ بطورِمسلمان ان کی اپنی علاحدہ شخصیت ہے ،ان کی کوششوں کانتیجہ جومیں نے دیکھا مختصراًیہ تھا :
مسلمانوں کواپنے مذہب پرفخرمحسوس ہونے لگا اور وہ منظم ہوگئے ۔ہمسایہ لوگوں کی غیرمذہبی رسومات ان میں پھیلنے سے رک گئیں۔قرآن وحدیث سے ان کی وابستگی بڑھ گئی ،شرک کے دروازے بندہوگئے اورمساجدتعمیرہونے لگیں ۔دارالحکومت منیلاکی مرکزی مسجدکاسنگ بنیادخودمیں نے اپنے ہاتھوں سے رکھا۔
اس پروگرام پرانتہائی انہماک اورخاموشی سے چالیس سال کام ہوتارہااورمسلمانوں کی ایک نئی نسل سامنے آگئی ۔اس کے بعد وہی ہونے لگا جو مسلمانوں کی تنظیم کی خاطرمولاناکی تحریک کی حقیقی روح تھی یعنی مسلم اقلیت نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک ناقابلِ تسخیرقوت بن کر اسلحہ بندجہادشروع کردیا۔اب ان میں اتنی اندرونی سکت پیداہوگئی تھی کہ وہ اسی وقت مخالف حکومت کی افواج تک سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے اوراب تک مقابلہ کررہے ہیں۔یہ پوداتھا جوہمارے مولاناعبدالعلیم صدیقی نے آج سے ایک مدت پہلے وہاں لگایاتھا اورجواب پھل پھول دے رہاہے۔‘‘(۳۶)
صحافت مبلغِ اسلام کی نظرمیں
آپ ایک بالغ نظر،وسیع الخیال مفکرتھے ا س لیے آپ کو معلوم تھا کہ دورِحاضرمیں سنی صحافت کی کتنی سخت ضرور ت ہے ۔ آپ نے اپنے عالمی دوروں میں جہاں بھی مناسب حالات دیکھے اسلامی رسالے ،میگزین اورلٹریچرکی طباعت کے پروگرام کواولیت دی ۔اس کے علاوہ ہندوستان کے سنی مجلات اورکتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں بھی حتی المقدوراپناتعاون پیش کرتے رہے۔چنانچہ ہفت روزہ’’ الفقیہ‘‘ امرتسرمیں شہزادۂ اعلی حضرت محمد مصطفی رضاخان مفتی اعظم ہندبریلی شریف نے آپ کے نام ’’الفقیہ‘‘ میں پیغام دیتے ہوئے گزارش کی ہے ،ا س میں ہے:
’’۔۔۔۔۔۔خدانہ کرے یہ پرچہ بندہو،سنیوں کے پاس جیسا کچھ بھی ہے ،یہی ایک اخبارہے۔افریقہ کی ایک بڑی امداد تقریباً ایک سال سے بندہوگئی ہے۔اس کابندہوناالفقیہ پرسخت مصیبت ہے ۔آپ توجہ فرمائیں اوراب اس سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جتنی پہلے تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔(۳۷)
مبلغ اسلام كی تصانیف
مرزائیت کی تردیدمیں برصغیر کے باہرلٹریچرکاآغازسب سے پہلے آپ نے کیاچنانچہ عربی زبان میں کتاب حقیقۃ المرزائینمرزائیوں کی حقیقت اورالمرء ۃ شائع کرکے انڈونیشیامیں اس فرقے کاداخلہ بندکروادیا۔
اردوزبان میں
٭ذکرحبیب اول ودوم(فضائل وسیرت سیدکونین صلی اللہ علیہ وسلم پر)
٭بہارشباب(نوجوانوںکے مسائل خصوصاًنکاح وغیر ہ امورپر)
٭احکام رمضان
٭مرزائی حقیقت کااظہار
انگریزی زبان میں
٭اسلام کے اصول THE PRINCIPLES OF ISLAM
٭مسلمانوں کی سائنسی ایجادات
CULTIVATION OF SCIENCE BY THE MUSLIM
٭اسلام کی ابتدائی تعلیمات
ELEMENTRY TEACHING OF ISLAM
٭اسلام میں عورتوں کے حقوق
THE STATUS OF WOMAEN IN ISLAM
٭حقیقی مسرت کی تلاش
QUEST FOR TRUE HAPPINESS
٭اشتراکیت کامقابلہ کیسے کیاجائے ؟
HOW TO FACE COMMUNISM
٭اسلام اشتراکیت کے چیلنج کاجواب دیتاہے
ISLAM ANSWER TO THE CHALLANGE OF COMMUNISM
٭مناظرہ مولاناصدیقی اورجارج برنارڈشا(۳۸)
A SHAVIAN AND THEOLOGIAN
٭بانگ درا
THE CLASUON CALL
٭تصوف اسلام (۳۹)
SPRITUAL CULTURE OF ISLAM(۲۷)
ایک وفدکی قیادت:
۱۳۹۵ھ /۱۹۴۶ء میں سعودی عرب حکومت کی جانب سے حجاجِ کرام پرعائدٹیکس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دنیا بھرکے اجلۂ علماکے وفودنے عبد ا لعزیزبن سعودسے ملاقات تھی ۔اس موقع پرملایا،مشرقی وجنوبی افریقہ اورجزائرشرقیہ کے نمائندے کی حیثیت سے مبلغِ اسلام بھی سعودیہ تشریف لے گئے تھے ۔اس وقت آپ نے عبدالعزیزبن سعودسے جومذاکرات فرمائے وہ عربی زبان میںالبیان کے نام سے شائع ہوئے ۔اس کے شروع میں اخوان المسلمین کے بانی حسن البناء نے ابتدائیہ لکھا اوران کی کوششوں کوخراجِ تحسین پیش کیا۔(۴۰)
اس دورکی اہم تحریکیں اورمبلغِ اسلام:
حضرت مبلغِ اسلام کورب تعالیٰ کی طرف سے عظیم ملی کاموں کے لیے پیداکیاگیاتھا اس لیے فطری طورپرشعورکی آنکھیں کھول کرتعلیمی مراحل سے گزرتے وقت ہی آپ نے اپنی عملی جدوجہدکاآغازکردیاتھا اورآگے چل کرہندوستان کی سرزمین پرابھرنے والی ہراہم اسلامی تحریک میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ تحریکِ خلافت میں اپنے برادرا ن کے ساتھ مل کر آپ نے کئی لاکھ چندہ جمع کیا۔ہندئوں نے مسلمانوں کومرتدکرنے کے لیے ملک بھرمیں جب شدھی تحریک چلائی توآپ نے حضرت اشرفی میاں کچھوچھو ی ،امام احمدرضاقدس سرہ کے صاحب زادگان اور حضرت مولانانعیم الدین مرادآبادی وغیرہ اکابرِاہلِ سنت کے ساتھ ملک کے متاثرہ حصوںکادورہ کیااوراس فتنۂ ارتدادکے لیے متحدہ کوششیں کیں ۔اسی طرح جب پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تواس سلسلے میں بھی آپ کی مساعیِ جمیلہ اظہرمن الشمس ہیں۔
حضرت علیم صدیقی اوران کی شاعری
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِحیات
یہ کبھی گوہر کبھی شبنم کبھی آنسو ہوا
حضرت مبلغِ اسلام کی ذات گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اندرشاعرانہ مہارت بھی رکھتی تھی مگرآپ نے شاعری کوزیادہ اہمیت نہیں دی ۔ہرباشعورانسان جس طرح اچھے شعروادب سے وابستہ رہتاہے آپ نے بھی اپنے معیارکی شاعری کوقبول کیا۔اس نظریے سے کہ حضرت علیم صدیقی میرٹھی کی زندگی کاشاعرانہ رخ سے مطالعہ کیاجائے ،جب ہم نے ذکرِحبیب کاجائزہ لیاتوہمیں اس میں اردو،عربی اورفارسی کے ۴۶ کلام دستیاب ہوئے جن میں حمد، نعت، قصائد،سلام اورنظمیں سبھی کچھ ہیں،جواس طرح ہیں:
کلام عبدالرحمٰن جامیؔ علیہ الرحمہ (دو)
کلام شیخ فریدالدین عطارؔعلیہ الرحمہ (ایک )
کلام امام احمدرضاؔفاضل بریلوی علیہ الرحمہ (آٹھ)
کلام حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ(ایک )
کلام حضرت کافیؔ علیہ الرحمہ(ایک)
کلام حضرت محسنؔ کاکوروی علیہ الرحمہ (ایک)
کلام حضرت حسنؔ بریلوی (تین)
کلام حضرت بیدلؔ علیہ الرحمہ (پانچ)
کلام حضرت مولانامحمدعبدالحکیم حکیمؔ جوشؔ صدیقی (سا ت )
کلام حضرت مولانااحمدمختارصاحب مختارؔصدیقی(تین)
کلام حالیؔ(ایک)
ان کلاموں کے علاوہ چھ عددکلام ایساہے جن پرحضرت کاتخلص ’’علیم ‘‘موجودہے بقیہ پرکوئی تخلص نہیں ہے مگراس اندازکی مولودشریف کی کتابوں کے مصنفین کاعام طریقہ یہی ہے کہ مضمون کی مناسبت سے نثرکے مطابق اشعاراورنظمیں قلم بند فرماتے ہیںبلکہ اگرمیں یہ کہوں کہ مولودشریف کی اکثرکتب کی تصنیف کاارادہ ہی ان حضرات نے فرمایاجونثرکے ساتھ ساتھ موقع کی موزونیت سے نظم کہنے پرقدرت رکھتے تھے توغلط نہ ہوگا۔ میں نہیں کہتاکہ ’’ذکرِحبیب‘‘ میںمذکورہ بالاشعراے اسلام کے علاوہ کسی اورکاکلام نہیں ہے لیکن جہاں تک میرے مطالعے کی رسائی ہے سوائے مندرجہ ذیل تین کلاموں کے بقیہ اورتمام کلام حضرت ہی کاہے ۔
٭وہ اٹھی دیکھ لوگردِسواری
٭مومنو!عرض والتجاکے ساتھ
٭ولدالحبیب ومثلہ لایولد
بہرحال اس بحث سے قطع نظرکہ ذکرِحبیب میں خود حضرت مبلغِ اسلام کااپناکلام کون کون ساہے ۔کلام جوبھی ہے اپنے اندرمعنویت ، سوز و گداز اورحقیقت نمائی کاوصف رکھتاہے ۔ صاف محسوس ہوتاہے کہ حضرت علیم صدیقی نے شاعری کوفن پروری کے لیے نہیں بلکہ اپنے قلبی جذبات کے اظہار کے طور پر اپنایاہے اورجوبھی کہاہے خوب کہاہے ۔مناجات کے یہ اشعار پڑھیے توایمان وعشق کی دنیامیں اجالاپھیل جاتاہے:
الٰہی! وہ زباں دے جو ثنا خوانِ محمد ہو
ثنا ایسی جو ہر آئینہ شایانِ محمد ہو
حضرت مبلغِ اسلام ہمہ وقت خودکوقدمِ نازِحبیب پرقربان کرنے کے لیے آمادہ رکھتے تھے اسی خواہش کی پرورش میں زندہ رہے اوراسی پرنثارہوگئے ۔ جو مانگاوہ پاگئے ۔اللہ اللہ قلب کی گہرائی سے نکلے ہوئے اس شعرپرپوراپورادیوان نثار کیا جا سکتا ہے :
وہ جانِ پاک دے یارب! جوقربانِ محمدہو
وہ دل دے جو شکارِ تیرِمژگانِ محمد ہو
الفتِ حبیب کے تیرونشترسے ان کاسینہ چھلنی تھا ۔دشت و بیابانِ طیبہ میں پیروںکولہولہان کرنااسی محبوبِ پاک کی محبت میں جیتے جی مرنا،انہی کی آتشِ عشق میں جلنااورتڑپناان کی معراجِ حیات تھی ،فرماتے ہیں:
جنونِ عشق و گرما گرمیِ سوزِ محبت سے
یہ آوارہ ہو اور دشت و بیابانِ محمد ہو
جیساکہ آپ کے مربی اورہنماامام احمدرضاقدس سرہ جذبۂ عشقِ نبی میں سرشارہوکرفرماتے ہیں:
یادِ حضورکی قسم غفلت ِعیش ہے ستم
خوب ہیں قیدِغم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفی روزفزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِدوا اٹھائے کیوں
خوش رہے گل سے عندلیب خارِحرم مجھے نصیب
میری بلابھی ذکرپرپھول کے خارکھائے کیوں
حضرت علیمؔ صدیقی فرماتے ہیں:
شرابِ شوق سے لبریز ہو پیمانۂ الفت
نگارِ حسن ہو، میں ہوں، خیابانِ محمد ہو
اورا س حمدکاآخری شعر(مقطع)توحضرت مبلغِ اسلام کی سوانحِ حیات کامرقع ہے:
علیمِ خستہ جاں تنگ آگیاہے دردِہجراں سے
الٰہی !کب وہ دن آئے کہ مہمانِ محمدہو
ذکرِحبیب حصہ دوم کے شروع میں’’نغمۂ توحید‘‘سے حضرت مبلغِ اسلام سے مست الست ہونے کاوافرثبوت ملتاہے ۔ آخری بندہے:
حکمت تیری ہے حکیم تو ہے
سب حادث اور قدیم تو ہے
ہاں جانِ عبدِ علیم ہے تو
یا ھو یاھو یاھو یاھو
اللہ اللہ اللہ اللہ
نعت گوئی اورنعت خوانی حضرت مبلغِ اسلام کا اوڑھنا بچھوناتھا اورعظمتِ سرورِانبیاکاپیغام پہنچانے کے لیے ہی آپ ملکوں ملکوں سفرکرتے تھے ۔ آپ کے خطبات وتقاریرمیں امام احمد رضافاضل بریلوی قدس سرہ جیسے افاضل کے اشعارہوتے اور عشق وعرفان میں ڈوبے ہوئے مضامین۔
مینارۂ نورمیں ایک بڑی پیاری نعت شریف خاص حضرت کی بیاض سے نقل کی گئی ہے جو۱۹۳۸ء میں کہی گئی ۔اس نعتِ پاک کاہرشعرحضرت کے سوزِ دروں کواجاگرکرتاہے۔ عظمتِ شانِ رسول کااعلان کرتاہے اورعرفانِ حبیب میں حضرت مبلغِ اسلام کس بلندی پرفائزتھے ا س کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ شعریت کم ،مذہبیت وحقیقت طرازی زیادہ ہے،جوخاص اسلوب ہے امام احمدرضافاضل بریلوی قدس سرہ کا۔عنوان ہے :
نعتِ نبی کی دھوم ہے محفلِ کائنات میں
مظہرِ واحد و احد فردہیں سب صفات میں
لیس کمثلہ کی شان جلوہ نماہے ذات میں
سِرِّ حقیقتِ وجود،کنہِ معانیِ شہود
نقطۂ اتصال ہے واجب وممکنات میں
بزمِ جہاںمیں بے حجاب جب سے ہواہے سازِحق
نعتِ نبی کی دھوم ہے ساری ہی کائنات میں
آپ بدایت ظہور آپ نہایت ظہور
مظہرِ مرکزِ وجود ، اور تعینات میں
دعویِ عشق کی دلیل، وصلِ حبیب کی سبیل
ملتی ہے بے خودی میں اورترکِ تلذذات میں
آپ کی اک نگاہ سے آئینہ ساچمک اٹھے
دل جوہوئے تھے مبتلاحبسِ تکدرات میں
آب وہواوآتش وخاک نہ کیوں ہوں تحتِ امر
ساری ہی کائنات ہے ان کے تصرفات میں
غیر نہ تھا نہ غیرہے غیر نہ ہوسکے کبھی
کس لیے پھرپھنسے علیمؔ وہمِ تعینات میں(۴۱)
مینارۂ نورکی یہ نعت شریف’’ذکرِحبیب‘‘کے ص ۸۳ پر بھی موجودہے۔فرق صرف اتناہے کہ ذکرِحبیب میں اس نعت کا چوتھاشعرموجودنہیں ہے اورمقطع سے قبل والے شعر میں پہلا مصرع اس طرح لکھاگیاہے ’’آب وہواوآگ وخاک نہ کیوں ہوں ان کے تحت حکم‘‘جوکسی اورکاتصرف لگتاہے کیوں کہ آگ اورخاک کی ترکیب کسی باشعورادبی مزاج رکھنے والے کے لیے ذوقِ سماع پرہتھوڑے سے کم نہیں ۔ اور ہماراذہن اس بات کوقبول نہیں کرتاکہ نثرونظم میں زبان کی لطافت کی روح پھونکنے والے حضرت علیم صدیقی ایسی تبدیلی ازخودکریں گے جب کہ بیاضِ علیمی میں’’آب وہواوآتش وخاک نہ کیوں ہوں تحتِ امر‘‘ خود مرقوم ہے ۔
بہرحال یہ بات عارضی طورپردرمیان میں آگئی تھی ۔ عرض یہ کرناہے کہ حضرت علیمؔ صدیقی کی یہ نعت شریف ان کے فنافی اللہ ،فنافی الرسول اوران کے مقامِ عرفان کاپتہ دیتی ہے۔ اس نعت کاہرہرشعراس بلندی سے کہاگیاہے جہاں محض کسی شاعر کی رسائی توکجااہلِ علم شعرامیں سے ایسے کم ہوں گے جوایسے کلامی مضامین کوبآسانی شعری قالب میں ڈھال سکیں۔اس کے لیے رسوخِ علمی کے ساتھ ساتھ بحرِعرفان کی غواصی بھی لازم ہے جو حضرت علیم صدیقی کوامام احمدرضاکے ذریعے حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ کے جوبرگزیدہ بندے اس کی ذات میں فنا ہو جاتے ہیںانہیں نام ونمودسے کیاغرض مگرخدابے نیاز اور جواد و کریم ہے،اپنی محبت میں فناہونے والوں کوبقاے دوا م کی دولت سے نوازتاہے ۔حضرت مبلغِ اسلام علیمؔ صدیقی قدس سرہ کی ذات بھی ایسے ہی خوش نصیبوں میں سے تھی ۔وہ فنافی اللہ اورفنافی الرسول تھے اورمرمٹنے کی چاشنی کوانہوںنے ا س طرح چکھ لیاتھا کہ دنیاے فانی کی چندروزہ عشرت وشہرت ان کی نگاہوں میں ہیچ ہو گئی تھی ۔ان کی فنائیت کارازان کی مناجات سے فاش ہے ، فرماتے ہیں:
اے جانِ جہاں!اے روحِ رواں!
بس توہی رہے اور میں نہ رہوں
میں تجھ میں ہوںگم تومجھ میں عیاں
بس توہی رہے اورمیں نہ رہوں
فی انفسکم کابھیدملے ،وھومعکم کارمزکھلے
ہو سمع بھی تو اور تو ہی زبان
بس توہی رہے اورمیں نہ رہوں
میں تھا بھی کہاں اور ہوں بھی کہاں،
ہستی ہے مری اک وہم وگماں
جب آئے یقین مٹ جائے گماں
بس توہی رہے اورمیں نہ رہوں
کہتاہے علیمِ خستہ جگر،دن رات یہی بادیدۂ تر
اے جلوہ نماے کون و مکاں
بس توہی رہے اور میں نہ رہوں(۴۲)
حضرت علیمؔ صدیقی دنیاکے بت کدے میں تکبیرکی صدابلندکرنے والے بلالی شان کے مبلغ تھے ۔انہیں اس بات کایقینِ کامل تھا کہ دورِحاضرکی تمام ظلمتوں کاعلاج خورشید ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیابارکرنوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ آج کے دورِگمراہی میں بھی اگرروے تابانِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جلوہ باریاں عام فرمادے تواس عالمِ فسادوفتن میں امن وآتشی کی بادِبہاری آجائے اورتڑپتی ترستی بلکتی انسانیت ساحلِ نجات سے شادکام ہوجائے ۔اس تناظرمیں ان کے اس قصیدے کا مطالعہ کریں:
ظلمت عالم پرچھائی ہے اے نورِہدایت جلوہ دکھا
آفت دنیاپرآئی ہے اے نورِہدایت جلوہ دکھا
اے سیدِ اولادِ آدم! سرکارِ عرب سلطانِ عجم
اے بدرِنجابت جلوہ دکھا،اے کانِ حلاوت جلوہ دکھا(۴۳)
انہوںنے رخ زیباے نبی کے جلووں سے اپنی نگاہ وقلب کوآسودہ کرکے یہ یقینِ کامل پالیاتھا کہ نگاہوں کی معراج یہی ہے ۔دلوں کامقصودیہی ہے کہ یہ جلوۂ محمدی سے فیضیاب ہوں۔
مشتاقِ جمال علیمِؔ حزیں،بکمالِ خشوع جھکا کے جبیں
کرتاہے عرض کہ اے شہِ دیں!اے صاحب ِقدرت جلوہ دکھا
اوراسی طرح ہم جب حضورغوث الثقلین ،قطب الدارین کی بارگاہ میں حضرت علیمؔ صدیقی کودیکھتے ہیںتووہ سچے دیوانۂ غوث ،عاشقِ محبوبِ سبحانی نظر آتے ہیں۔سرکارِبغدادمیں فریادکرتے ہوئے کہتے ہیں:
یاسیدناغوث الاعظم شیئاً للہ شیئاً للہ
سرکارِعرب سالارِعجم شیئاً للہ شیئاً للہ
عز ت والے حرمت والے طاقت والے قوت والے
اے صاحبِ دولت وجاہ وحشم شیئاً للہ شیئاً للہ
میں آپ ہی کاکہلاتاہوں اس نسبت پراتراتاہوں
رکھ لیجیے آپ ہی میرابھرم شیئاً للہ شیئاً للہ
حضرت علیم صدیقی اپنی نسبتِ قادری پرفخرومباہات کرتے ہوئے اس عظیم اورنورانی نسبت کے واسطے ووسیلے سے حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استمدادفرماتے ہیں اور ان کے جودوعطاکی بے پایاں بارش میں شرابورہوناچاہتے ہیں ۔ فرمایا:
میلہ ہے قادری مستوں کااپنی ہے چڑھی اوررنگ رچا
برکھاہوکرم کی اب چھم چھم شیئاًللہ شیئاًللہ
ہے عبدِ علیم صدیقی ،وابستہ دامانِ قدسی
ہاں صدقۂ اجدادِاکرم شیئاً للہ شیئاً للہ(۴۴)
چودھویں صدی کے مجددِاسلام امام احمدرضافاضلِ بریلوی قدست اسرارہم کی بارگاہ سے حضرت علیم صدیقی کووہی تعلق اوررابطہ تھا جوستاروں کو ماہتاب سے ہے ۔آپ حضرت فاضل بریلوی کے اجلۂ خلفامیں ہیں۔اس مس خام کوکندن بنانے میں جہاں ان کے والدِماجداوربرادرِگرامی کابہت بڑادخل ہے وہیں حضرت فاضلِ بریلوی کی شخصیت کاپرتوآپ پرنہایت گہراہے جس کے سبب منکرینِ شانِ رسالت علیم صدیقی سے بھی اس طرح کتراتے تھے جس طرح کچھارمیں آئے ہوئے شیرسے بھیڑئیے جان بچاتے ہیں۔اپنے اس فرزندِروحانی کی نسبت خودفاضلِ بریلوی نے فرمایا:
عبدِ علیم کے علم کو سن کر
جہل کی بہل بھگاتے یہ ہیں(۴۵)
حضرت علامہ صدیقی کواپنے شیخ سے کمالِ عقیدت والفت تھی ۔بریلی شریف کامحلہ سوداگران ان کی آرزئوں امنگوں کی دنیاتھی ،ان کی نیازکیشیوں کاعلاقہ تھا اوراس عظیم قطب الاولیاء مداراہلِ طریقت کے حضورحضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی بصدنیازوادب حاضری دیتے تھے ۔ان کے مدحیہ قصیدے کے یہ اشعاران کی بے پایاںعقیدت مندیوں کامنہ بولتاثبوت ہیں:
تمہاری شان میں جوکچھ کہوں اس سے سواتم ہو
قسیم جامِ عرفاں اے شہ احمد رضا تم ہو
غریقِ بحرِالفت مست جامِ بادۂ وحدت
محبِ خاص محبوبِ حبیبِ کبریا تم ہو
جو مرکز ہے شریعت کامدار اہلِ طریقت کا
جو محورہے حقیقت کاوہ قطب الاولیا تم ہو
عرب میں جاکے ان آنکھوں نے دیکھاجس کی صورت کو
عجم کے واسطے لاریب وہ قبلہ نماتم ہو
تمہی پھیلارہے ہوعلمِ حق اکنافِ عالم میں
امامِ اہلِ سنت نائبِ غوث الوری تم ہو
علیمِؔ خستہ اک ادنی گداہے آستانے کا
کرم فرمانے والے حال پراس کے شہاتم ہو(۴۶)
مبلغ اسلام كا رنگِ تغزل:
ان دونوں ہی قصیدوں میں شعری محاسن بدرجہ اتم موجودہیں،سلاستِ زبان ،خیال کی شائستگی ،حسین ودل کش اسلوب وادااورمناسب تراکیب ۔ کاش ہمارے سامنے حضرت کادیوان ہوتواردوادب کے ان قیمتی نوادرات پربھرپورتبصر ے میں لطف آئے ۔رند مشرب تھے ،تدوینِ د یوا ن کی جانب توجہ نہیں فرمائی ورنہ شعروادب میں جواضافہ آپ کی ذات سے ہواتھا وہ آج ہمارے ادب کے لیے بہترین سرمایہ قراردیاجاتا۔
غزل میں اساتذۂ فن جیساتیکھاپن ہے اورجوکچھ کلام باقی ہے وہ اس بات کاغماض ہے کہ شعروفن کی بلندیاں، اصطلاحِ ادب کی رعایتیں اورسخت سے سخت زمین میں نایاب قوافی او ر سفرکے دوران جہازپرلبھایاد ل،چھپایادل،دکھایادل کے قوافی وردیف پر۱۶؍اشعارکی جوغزل ملتی ہے اس میں فن کے اساتذہ جیسی برجستگی ،،گدازاورمہارت سبھی کچھ ہے ۔ چند اشعار بڑے ہی پیارے ہیں:
ملی جو ان سے نظر پھر نظر نہ آیا دل
غضب ہے آنکھوں ہی آنکھوں میں یوں چرایادل
تڑپ رہاہے جو پہلو میں آج رہ رہ کر
الٰہی خیر! یہ کس کی نظر کو بھایا دل
بلاکی چال ہے اے چشمِ نیم باز! یہ چال
کہ ایک غمزہ میں مدہوش کر دکھایا دل
سمجھ رہے تھے جسے دل لگی ہے یہ دل کی
بنی وہ دل پہ، دل اپنا ہوا پرایا دل
یہ آہ سردہے کیسی یہ رنگ زردہے کیوں
بتائو توسہی سچ مچ کہ کس پہ آیا دل
کبھی تودیکھ لو ترچھی نگاہ سے ہی سہی
بہت ستایا،بہت آپ نے دُکھایا دل
عجب ہے جس کوبنایا تھا تونے گھراپنا
بتوں نے چھین لیاہے وہی خدایادل
علیمؔ کوچۂ الفت سے آشناہی نہ تھے
تو پھریہ بیٹھے بٹھائے کہاں گنوایادل(۴۷)
مبلغِ اسلام اورنثرنگاری
اردونثرنگاری میں حضرت مبلغِ اسلام کااسلوب نہایت سادہ ،آسان ،بے تکلف اورعام فہم تھا ۔دقیق سے دقیق بات کوسہل پیرائے میں سمجھاناانہیں خوب آتاتھا ۔ایک مقام پرتخلیقِ انسانی کامقصدبیان کرتے ہوئے عبادات روحانی علاج کے عنوان سے لکھتے ہیں:
سب تیرے لیے توخداکے لیے
کائنات کاذرہ ذرہ پتہ پتہ جہاں زبانِ حال سے یہ گواہی دے رہاہے کہ اس تمام نظام کاوجودمیں لانے والا،اس مشین کاچلانے والاایک حکیم، علیم، مدبر،قادرِمطلق ہے اورضرورہے جوعدم سے وجودمیں لانے والاخالق ہی نہیں بلکہ تربیت دینے والااورابتدائی نقطۂ وجودسے اٹھاکر ہرآن ہرلحظہ ہرقسم کی ضروریا ت بہم پہنچاکرانتہائی معراجِ کمال تک پہنچانے والارب العالمین ہے (جل جلالہ وعم نوالہ)اوروہ بھی یکتا،نہ کوئی ا س کاساجھی ،نہ کسی اعتبارسے اس کاشریک،وحدہ لاشریک لہ ،وہاں پرمخلوق کی صورتِ حال اس امرکی بھی شاہدکہ وہ کسی طرح انسان کے کام آرہی ہے ،بس جب تمام کائنات انسان کے لیے ہے توانسان کوجوساری مخلوق سے خدمت لیتاہے ،خوداس کے لیے ہونا چاہیے جوسب مخلوق کاخالق ہے اورسارے جہان اورانسان کامالک ہے ۔
اللہ کی یاد
جب مادی قوتیں مضمحل ہوچکی ہوںاورمادیت کی طرف توجہ سے قاصر،اس وقت ذراظاہری آنکھیں بالکل بندکرلیجیے ، کانوں کوجائزباتوں کے سننے سے بھی ذراروکیے۔ قلب ودماغ کوچندمنٹ کے لیے نہ سہی خیالاتِ این و آں سے قطعاًپاک کیجیے ۔ کسی کی یادمیں ڈوبیے اورایسے ڈوبیے کہ دوسری کوئی چیزیادہی نہ رہے یہاں تک کہ یادکی بھی یادنہ رہے۔اس وقت جوکیفیت واردہوگی اسے وہی جانے جس پرواردہوئی ہو۔
چشم بندولب بہ بندوگوش بند
گرنہ بینی نورحق برمابہ خند
(آنکھیں بندہوں،زبان بندہو،کان بندہوںپھربھی خداکا بھید،حقیقت کارازمنکشف نہ ہوتوہم پرہنسنا۔)(۴۸)
دل مرکزِتجلیات
’’دل اللہ کے نورکے طلوع ہونے کی جگہ ہے ،دل اللہ کے بھیدوں کامخزن ہے ،دل اللہ کاجمال دیکھنے کاآئینہ ہے ، صاف دل ہی میں خداکاجلوہ نظرآتاہے ۔آپ نے بھی اپنے دل سے گناہوں کے زنگ کودورکیجیے ،پھراس نورکا مطالعہ کیجیے ۔‘‘ (۴۹)
مبلغ اسلام كے آخری لمحات
حضرت مبلغِ اسلام کومدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجہ عشق تھا ۔بین الاقوامی دورے پرجب بھی نکلتے سفرتمام ہونے پرمدینۂ طیبہ حاضری دینے کے بعدہی وطنِ مالوف واپس تشریف لے جاتے۔مدینۂ طیبہ سے بھلاکس مسلمان کوپیارنہ ہوگامگراس نوع الفت ومحبت کے سواا س کی ایک وجہ اوربھی تھی ،وہ یہ کہ ان کے خمیرجسمانی کاتعلق بھی چوں کہ اسی ارضِ پاک سے تھا اس لیے فرع بارباراپنے اصل کی طرف میلان کرتی تھی ۔ زندگی کے آخری لمحا ت کی با ت ہے۔گھڑی دوگھڑی کے مہمان ہیں،فرمائش کرتے ہیں،مجھے باب السلام پرلے چلو،احباب ومخلصین اوراہلِ ارادت نے چارپائی اٹھائی اور مسجدِ نبوی شریف کے بلنددروازہ باب السلام پرلارکھی ۔
عمربھربارگاہِ رسالت مآب میں بادب کھڑے ہوکر سلام پیش کرنے والے عاشقِ رسول کی روح مچل کررہ گئی ۔کاش یہ آخری سلام بھی ادب واحترام کی اسی روایت کے ساتھ عرض کرلوں مگرجسم میں طاقت وتوانائی نہیں ۔روضۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کوٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے ،پیکرِخاکی کی ساری توانائی عقیدت ومحبت کے موتی بن کرآنکھوں سے چھلکتی رہی ۔جب تک قوتِ گویائی نے ساتھ دیااپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورصلاۃ وسلام کی نذرگزارتے رہے تاآنکہ اسی نورانی منظر اور روحانی کیفیت میں طائرِلاہوتی نے آشیانہ جدی کو خیرآباد کہااورہجروفراقِ رسول میں رونے تڑپنے والے قلب کوقرار آیااوروہ واقعی ہمیشہ کے لیے مہمانِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہوگئے ۔اس طرح رب تعالیٰ نے ان کی اس دعاکوشرف قبول بخشا:
علیمِ خستہ جاں تنگ آگیا ہے دردِہجراں سے
الٰہی! کب وہ دن آئے کہ مہمانِ محمدہو
وصال:
۲۳ذی الحجہ ۱۳۷۴ھ/۲۲؍اگست ۱۹۵۴ء بعمر۶۳سال ہوا۔ضیاء الامت حضرت مولاناشاہ ضیاء الدین مدنی خلیفۂ امام احمدرضاعلیہ الرحمہ نے نمازِجنازہ پڑھائی اورجنۃ البقیع ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے قدموں میں مدفون ہوئے ۔ اناللہ واناالیہ راجعون
جس خاک کی خوشبولیے تاعمرسرگرداں رہا
پائی وہیں آسودگی عبدالعلیم قادری
صدیقۂ صدیق کے قدموں میں جنت ہے تری
سچی ہے یہ نسبت تری عبدالعلیم قادری
تاثرات:
حضرت علامہ تقدس علی خاں قادری بریلوی (خیرپور) فرماتے ہیں:
’’مبلغِ اسلام مولاناعبدالعلیم صدیقی قدس سرہ العزیز خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی مولاناشاہ احمدرضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے پوری دنیاکاتبلیغی دورہ فرمایا۔تمام مذاہب کے لوگوں کو دعوتِ اسلام دی ۔ ہر زبان میں اسلامی لٹریچرشائع کیا۔‘‘(۵۰)
پروفیسرشاہ فریدالحق لکھتے ہیں:
’’صرف ماریشس میں ان کے دس ہزار شاگردو ں پر اس جزیرے کوفخر ہے۔‘‘(۵۱)
پیرمحمدکرم شاہ ازہری سجادہ نشین بھیرہ شریف ضلع سرگودھا فرماتے ہیں:
’’مولاناشاہ عبدالعلیم صدیقی عالمِ اسلام کی ان معدودے چندشخصیات میں سے تھے جن کے سنہرے کارنامے ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے اورکاروانِ انسا نیت ان سے رہنمائی حاصل کرتارہے گا۔شاہ عبدا لعلیم ذہانت وفطانت کا مہرِمنیر تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی خوبیاں عطاکی تھیں اورپھران خوبیوں سے کام لینے کی صلاحیتیں بھی بخشی تھیں ۔‘‘(۵۲)
’’اسلام کاآفاقی اورہمہ گیرپیغام پہنچانے کے لیے انہوںنے جغرافیائی حدودوقیودکی پابندی نہیں کی بلکہ دنیاکے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کی توحید اوراس کے محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاپرچم بلندکیا۔ ان کااندازِ خطابت دل موہ لینے والا،ان کی تحریریں ایمان افروز،ان کا کردار پاکیزہ،ان کی گفتارمیں بلاکی شیرینی اورروانی ،ان کا استدلال اٹل اوران کا دل عشقِ رسول سے سرشارتھا ۔دہ دنیا کے ہرخطے میں پہنچے اور جہاں بھی گئے اسلام کے لازوال پیغام کے پھول کھلاتے گئے ۔ ان کے کرداراورتقاریرسے متاثرہوکرنصف لاکھ سے زائد افراد نے ان کے دستِ حق پرست پراسلام قبول کیااوریہ سعادت وہ ہے جواس وقت سے آج تک شاید کسی کے حصے میں نہیں آئی ۔‘‘(۵۳)
مفتی محمدحسین نعیمی لکھتے ہیں:
’’اپنی زندگی تبلیغِ اسلام اوراعلاے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اقوامِ عالم اورکرۂ ارض کے اطراف و اکناف میں کانفرنسوں کے ذریعے شریک ہوکر اسلام کی سچی تعلیمات اوراہلِ سنت وجماعت کابرحق پیغام پہنچاتے رہے ۔ ‘‘ (۵۴ )
پروفیسرشاہ فریدالحق فرماتے ہیں:
’’بلادِاسلامیہ نیزممالکِ غیراسلامیہ بالخصوص یور پ اورامریکہ میں حضرت۔۔۔۔۔۔۔کی شخصیت معروف ہی نہیںبلکہ حد درجہ مانوس ہے ۔تبلیغِ اسلام کے بیڑے کو چودھویں صدی کے نصف تک جس حسن وخوبی سے اٹھا کر پار لگایا،یہ انہیں کاحق ہے۔‘‘(۵۵)
پیرسیدبرکات احمدشاہ سجادہ نشین جلال پورشریف فرماتے ہیں:
’’مبلغِ اسلام۔۔۔۔بھی انہی نابغۂ روزگارشخصیات میں سے ہیںجنہوںنے اعلیٰ حضرت (امام احمدرضا قادری) سے فیضیاب ہونے کے بعداسلام کی تبلیغ واشاعت میں وہ کارنامہ سرانجام دیاجوتاریخ کے اوراق میں زریں حروف سے لکھاجائے گا۔‘‘ (۵۶)
محمدصلاح الدین ایڈیٹرروزنامہ جسارت کراچی لکھتے ہیں:
’’مرحوم میرے ہم وطن بھی ہیںاورہم محلہ بھی ۔ اپنے بزرگوں سے ان کی تبلیغی سرگرمی کاذکر سنتا رہا ہوں اور بیرونِ سفرکے دوران جابجاان کے کام کے اثرات کامشاہدہ بھی کیاہے ۔انہوںنے سنگاپورمیں جس اسلامی مرکزاور مدرسے کی بنیادرکھی تھی ،اس کوحال ہی دیکھنے کااتفاق ہوا اور میں ا س امرکی گواہی دے سکتاہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘(۵۷)
مولانامحمدمنشاتابش قصوری فرماتے ہیں:
’’انہوںنے اپنے آقاومولیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کی خدمت کے لیے زندگی وقف کررکھی تھی ۔ان کی شبانہ روزمخلصانہ کوششوں سے ستر ہزارسے زائدغیرمسلم دائرۂ اسلام میں آئے ۔ایشیا،یورپ ، افریقہ اورمشرقِ وسطی کے بیشترممالک میں ان کے نقوش جگمگارہے ہیں۔‘‘(۵۸)
قائدِاہلِ سنت فرماتے ہیں:
’’مولاتعالیٰ نے اس تبلیغی میدان میں ان کو اولیت کاشرف بخشا،وہ چالیس برس مسلسل اس میدان میں تنِ تنہاباطل کے مدِمقابل رہے اورآخرمیں ان کی مساعی کاصلہ ملاکہ ۶۳سال کی عمرمیں مدینۃ الرسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں جنۃ البقیع کے قبرستا ن میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے قدموں میں آرام فرماہیں۔رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ(۵۹)
مراجع وحواشی:
(۱)حضرت مولانامحموداحمدقادری’’علماے اہلِ سنت‘‘ میں آپ کااسمِ گرامی عبدالحکیم لکھتے ہیںلیکن میںنے ’’شجرہ شریف نورانی ‘‘ او ر ’’مینارۂ نور‘‘نیز’’تذکرۂ اکابرِاہلِ سنت‘‘میں اس کے خلاف پایا۔ ۱۲ منہ
(۲)شجرہ شریف نورانی:ص۵۔۱۲
(۳)عبدالعلیم صدیقی،علامہ،ذکرِحبیب:ص۱۲
(۴)ایضاً:ص۲۰۔(۵)ایضاً:ص۵۹،۶۰۔(۶)ایضاً:ص۶۲
(۷)ایضاً:ص۷۷،مطبوعہ :نوری بک ڈپو،لاہور،۱۹۸۶ء
(۸)عبدالحکیم شرف، مولانا،تذکرۂ اکابرِاہلِ سنت: ص ۲۳۶، مکتبہ قادریہ لاہور،۱۹۷۶ء
(۹)محمود احمد قادری، مولانا،تذکرۂ علماے اہلِ سنت: ص ۱۶۶، مطبوعہ: مظفر پوربہار،۱۳۹۱ھ
(۱۰)عبدالحکیم شرف،مولانا،تذکرہ اکابرِاہلِ سنت: ص ۲۳۶/ محمو د احمد قادری، مولانا، تذکر ہ علماے اہلِ سنت:ص۱۶۶
(۱۱)محموداحمدقادری،مولانا،تذکرہ علماے اہلِ سنت: ص ۳۳۔ ۳۴ راقم الحروف نے ڈربن سائوتھ افریقہ میں مولانا محترم کے صاحب زادے جناب صفیؔ صدیقی سے ملاقات کی اوران کے نعتیہ مجموعۂ کلام پرنظرثانی اورمقدمہ لکھا۔جناب صفیؔ صدیقی صاحب آج بھی ڈربن میں اردوادب کے نمائندے کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں،اچھے شاعر اور ادیب ہیں۔(۱۲)عبدالعلیم صدیقی، علامہ،ذکرِ حبیب: ص ۷،۸۔(۱۳)ایضاً:ص۲۹۔(۱۴)ایضاً:ص۸۷،۸۸۔(۱۵)ایضاً:۱۱۹
(۱۶)محمداطہرنعیمی،مفتی،مینارۂ نور:ص: ۳۷۔۳۸، مطبوعہ: ۱۹۸۰ء
(۱۷)محمداطہرنعیمی،مفتی،مینارۂ نور:ص:۳۸، مطبوعہ: ۱۹۸۰ء
(۱۸)محمدعبدالعلیم صدیقی، علامہ، ذکرِ حبیب: ص ۱۰۸، مطبوعہ: نوری بک ڈپو،لاہور۱۹۸۶ء
(۱۹)ظفرالدین بہاری،مولانا،حیاتِ اعلیٰ حضرت: ص ۵۱۔۵۲
(۲۰)محمداطہرنعیمی،مفتی،مینارۂ نور:ص۴۲
(۲۱)شاہ احمدنورانی،قائدِاہلِ سنت،مینارۂ نور:ص ۵۱
(۲۲) محمداطہرنعیمی،مینارۂ نور:ص۴۱
(۲۳)محمدعبدالعلیم صدیقی،مبلغِ اسلام،اقتباسِ خطبہ، مینارۂ نور:ص ۸۵،۵۹۔(۲۴)شا ہ فریدالحق ،پروفیسر،مینارہ نور:ص۱۵
(۲۵)محمدعبدالحکیم شرف قادری،مولانا،تذکرۂ اکابرِ اہلِ سنت : ص ۲۳۸۔(۲۶)شاہ فریدالحق،پروفیسر،مینارۂ نور:ص۱۷
(۲۷)شاہ فریدالحق،پروفیسر،مینارۂ نور:ص۱۷
(۲۸)محمداطہرنعیمی،مفتی،مینارۂ نور:ص۳۸،۳۹
(۲۹)شاہ احمدنورانی،قائدِاہلِ سنت،مینارۂ نور: ص ۴
(۳۰)شاہ احمدنورانی،قائدِاہلِ سنت،مینارۂ نور: ص ۵
(۳۱)مینارۂ نور:ص۳۲۔(۳۲)مینارۂ نور:ص۳۳۔(۳۳)مینارۂ نور: ص ۳۱۔ (۳۴)مینارۂ نور:ص۳۳
(۳۵)اردوانسائیکلوپیڈیا: ص۷۳۵، مطبوعہ :فیروز سنز پاکستان
(۳۶)پیرعلی محمدراشدی ،پندرہ روزہ دستور:روٹرڈرم مجریہ ،۸ جنوری ۱۹۹۳ء۔(۳۷)ہفت روزہ الفقیہ:امرتسر،۲۸جولائی ۱۹۲۳ء بحوالہ مینارۂ نور: ص۲۰
(۳۸)ترجمانِ اہلِ سنت:کراچی،محرم وصفر۱۳۹۲ھ کے شمارے میں اس کااردوترجمہ بھی شائع ہوچکاہے ۔(۳۹)مینارۂ نور:ص۳۵
(۴۰)محمدعبدالعلیم صدیقی ،مبلغِ اسلام،البیان: مطبوعہ میرٹھ ، بحوالہ : تذکرہ اکابراہل سنت :ص۲۴۰
(۴۱)عبدالعلیم صدیقی،ذکرِ حبیب: ص ۸۳/ مجلہ مینارۂ نور: ص۱۴۔
(۴۲)عبدالعلیم ، علامہ ، ذکر ِحبیب : ص ۱۲۶ ، ۱۲۵ ۔ مطبوعہ : نوری بک ڈپو ، لاہور۱۹۸۶ء
(۴۳)عبدالعلیم ،علامہ،ذکرِحبیب:ص۱۳۷،مطبوعہ:نوری بک ڈپو ، لاہور۱۹۸۶ء۔
(۴۴)عبدالعلیم صدیقی،علامہ،ذکرِحبیب:ص۷۱۔۷۲
(۴۵)احمدرضا،امام،الاستمداد:ص۷۹،مطبوعہ: نوری کتب خانہ لاہو ر
(۴۶)ظفرالدین بہاری،ملک العلماء ،مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت: جلداول،ص۵۱۔۵۲
(۴۷)مجلہ مینارۂ نور:ص۶۰،مطبوعہ:حلقۂ قادریہ علیمیہ، نومبر ۱۹۸۰ء
(۴۸)مینارۂ نور:ص۱۱۔۴۹)مینارۂ نور:ص۱۲۔(۵۰)ایضاً: ص ۶
(۵۱)مینارہ ٔ نور:ص۷۔(۵۲)مینارہ ٔ نور:ص۶۔(۵۳)مینارہ ٔ نور: ص ۶۔(۵۴)مینارۂ نور:ص۷۔(۵۵)مینارہ ٔ نور:ص۷۔( ۵۶) مینارہ ٔ نور:ص۸۔(۵۷)مینارہ ٔ نور:ص۸۔(۵۸)مینارہ ٔ نور:ص۴۷
(۹۵)مینارہ ٔ نور:ص۵
رکن المجمع الاسلامی ،ملت نگر،مبارک پوراعظم گڑھ یوپی