مشرکین کی مورتی پر پھول برساکر خوشی کا اظہار کرنا کیسا ہے ؟
حضور مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے یہاں ایک جگہ کچھ مسلم لوگوں نے مل کرمشرکین کی مورتی پر مسجد سے متصل ایک بلڈنگ سے پھول برسائے اور اپنی خوشی ظاہر کی پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تو ہندو مسلم میں فساد ہوتا ، اب دریافت طلب مندرجہ ذیل امور ہیں:
(۱) مسلمانوں کا اس طرح کرنا کیسا ہے ؟
(۲) جو لوگ اس میں شریک تھے ، ان پر حکم شرع کیا ہوگا ؟
(۳) یہاں کے مسلمانوں کو ان کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ؟
(۴) اگر واقعی ہندو مسلم کے درمیان فساد کا اندیشہ ہو تو مذکورہ فعل کے ارتکاب کرنے والوں پر شریعت کا کوئی حکم لگے گا یا نہیں؟ بينوا توجروا!
المستفتى : سید جمیل جانی میاں جالنہ مہاراشٹر
الجواب بعون الملک الوھاب
١۔٢-مشرکین کی مورتی پر پھول برساکر خوشی کا اظہار کرنا کفر ہے، جنھوں نے ایسا کیا ان پر توبہ، تجدید ایمان اور شادی شدہ ہوں تو تجدید نکاح لازم ہے.
فتاوی رضویہ میں ہے :
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چندوسی میں مسلمانوں نے ہنود، مشرکین سے اتفاق کرنے میں یہ آثار ظاہر کئے کہ سوائے نوبت نقارے نوازی اور ناچ رنگ نا مشروع کے ایسا مبالغہ اور عروج ان کی رسوم جلا دینے میں کہ بعض فریق تلک، قشقہ، سندے برہمنوں کے ہاتھ سے اپنی پیشانی پر کھنچوا کر خوش اور مسرور ہوا،اور بعض فریق برہمنوں کے ساتھ جے رام چند رجی اور جے سیتاجی کی بول اٹھا اور بعض فریق نے ہمراہ ہنود تخت رواں نستہ عورتوں کے گشت کی،اور وہ تخت رواں خلاف سالہائے گزشتہ پیوستہ کے بے خوف و خطر گلی کوچہ پھر اکر مسلمانوں کے جائے جلوس پر ہنود لائے، مسلمانوں نے سوائے تواضع پان، پھول اور ہار، الائچی وغیرہ ان کے آنے کا شکریہ بفخریہ ادا کرکے شیرینی کی تھالی پیش کی۔اس عمل سے کس فریق کی عورت نکاح سے باہر ہوئی اور کون مبتلائے کفر ہوا،اور کون مرتکب گناہ کبیرہ ہوا، اور ہر فریق کی توبہ کی صورت کیا ہے؟
الجواب : وہ جنہوں نے برہمن سے قشقہ کھنچوایا،وہ جنہوں نے ہنود کے ساتھ وہ جے بولی،کافر ہوگئے۔ان کی عورتیں ان کے نکاح سے نکل گئیں،اور وہ کہ گشت میں شریک ہوئے اگر کافر نہ ہوئے تو قریب بکفر ہیں۔
حدیث میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من سود مع قوم فھو منھم-وفی لفظ:من کثر سوادقوم۔جو کسی قوم کا مجمع بڑھائے وہ انہیں میں سے ہے۔
اور وہ جنہوں نے بت کے لانے پر شکریہ ادا کیا اور خوش ہوئے۔ان پر بھی بحکم فقہا کفر لازم ہے۔غمز العیون میں ہے:اتفق مشائخنا ان من رأی امرالکفار حسنا فقد کفر۔جس نے کافر کے عمل کو اچھا جانا وہ باتفاق مشائخ کافر ہوجاتا ہے۔ان پر لازم ہے کہ توبہ کریں اور از سر نو کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں: (فتاویٰ رضویہ:جلدچہاردہم:ص٣١٨- ٣١٩-جامعہ نظامیہ لاہور)واللہ تعالیٰ اعلم۔
٣-مسلمان ان سے توبہ اور تجدید ایمان کا مطالبہ کریں،کرلیں تو بہتر ہے ورنہ ان سے قطع تعلق کریں.
قرآن مجید میں ہے :
وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(الانعام :٦٨)
ترجمہ:اور اے سننے والے! جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں بیہودہ گفتگو کرتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
٤-صورت مسئولہ میں نہ تو اکراہ شرعی ہے نہ ہی حالت اضطرار اس لیے غرض مذکور کے لیے عمل مذکور کی اجازت نہیں.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبہ :کمال احمد علیمی نظامی
١١ ربیع الآخر ١٤٤٥ء/ ٢٧ اکتوبر ٢٠٢٣ء.
التصحیح :حضرت علامہ مفتی محمد نظام الدین قادری صاحب استاذ دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی.