موبائل کی تجارت اور مرمت سے متعلق مسائل
(١) تجارتی میدان اور کاروباری لائن میں تاجر اور دکاندار کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں ۔ جھوٹ سے سامان تو بک جاتا ہے، مگر برکت ختم ہو جاتی ہے۔ لہذا موبائل کی تجارت ہو یا کسی اور چیز کی، اس میں جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں۔ ہرگز ہرگز جھوٹ نہ بولیں۔ مقدر میں جو لکھا ہے ،وہ آپ کو ضرور ملے گا۔ بلاوجہ جھوٹ بول کر دنیا و آخرت برباد کرنے سے کیا فائدہ؟ قرآن مقدس میں جھوٹ بولنے والوں پر "اللہ کی لعنت” کی وعید آئی ہے۔
اللہ کے رسول جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تجار (تجارت کرنے والے) بدکار ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! کیا اللہ تعالی نے بیع(تجارت وخرید و فروخت) حلال نہیں کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! بیع حلال ہے، لیکن اہل تجارت بات کرنے میں جھوٹ بولتے ہیں، قسم کھاتے ہیں اور وہ (اس قسم میں) جھوٹے ہوتے ہیں۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے:
"اللہ تبارک و تعالی قیامت کے لیے تین شخص سے کلام نہ فرمائے گا،ان کی طرف نظر رحمت نہ فرمائے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ تین اشخاص کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: تکبر سے اپنا کپڑا ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والا،احسان کرکے احسان جتلانے والا،اور جھوٹی قسم کھا کے اپنا مال اور سودا بیچنے والا۔
(٢) تجارت میں جھوٹ کے ساتھ حلف یعنی جھوٹی قسم کھانا ، بہت بری بات ہے۔ سامان بیچنے کے وقت بات بات پر جھوٹی قسم کھانے کا وبال اپنے سر ہرگز نہ لیں ۔ قیامت کے دن ہمارے اس ناجائز عمل کا سختی کے ساتھ حساب لیا جائے گا۔اس لیے اپنا سامان بیچنے کے چکر میں ہرگز ہرگز کی جھوٹی قسم کا سہارا نہ لیں۔
بخاری و مسلم کی یہ متفق علیہ حدیث ہے:
” بیع میں حلف(قسم یا جھوٹی قسم) کی کثرت سے بچو، کیوں کہ حلف اور جھوٹی قسم سامان کو تو بکوا دیتی ہیے ، مگر اس کی برکت مٹا دیتی ہے ۔ ”
(٣) تجارت اور خرید و فروخت یاد الہی سے غفلت کرنے والی چیزیں۔
لہذا موبائل کی تجارت ہو، یا کسی اور چیز کی تجارت، اس میں اس قدر مشغول اور منہمک نہ رہیں کے فرائض( نماز، روزہ، حج) اور ذکر الہی آپ سے چھوٹ جائیں۔
(٤) حدیث پاک میں آیا ہے:
” لا بیع الرجل علی بیع اخیہ۔ "
ترجمہ: کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع(خرید وفروخت) پر بیع نہ کرے.
کبھی دکاندار اور خریدار کے درمیان ایک سامان سے متعلق سارا معاملہ ہو جاتا ہے کہ دریں اثناء دوسرا شخص آ جاتا ہے اور اسی سامان کو خریدنا چاہتا ہے۔ یہ صورت نہ جائز ہے۔ اگر ایک آدمی دکاندار سے ایک ہزار میں موبائل خرید چکا ہے اور صرف قیمت دینا باقی ہے تو دوسرا شخص اسی موبائل کو گیارہ سو روپے میں لینے کی کوشش نہ کرے۔ کیونکہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع جائز نہیں ہے ۔جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا۔
(٥) خریدوفروخت میں "نجش ” مکروہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیع میں ” نجش ” سے منع فرمایا۔مسلم شریف کی حدیث ہے: لا تناجشوا۔۔
نجش یہ ہے کہ مبیع (سامان )کی قیمت بڑھائی جائے اور خود لینے کا ارادہ نہ ہو۔ نجش کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے گراہک کو سامان کے بارے میں رغبت اور شوق پیدا ہو اور وہ موجودہ قیمت سے زیادہ رقم دے کر سامان خرید لے اور یہ حقیقتاً خریدار کو دھوکہ دینا ہے۔جیسا کہ بعض دکانداروں کے یہاں اس قسم کے آدمی لگتے رہتے ہیں،اور گناہ کو دیکھ کر سامان کے خریدار بن کر دام بڑھانے لگتے ہیں اور ان کی اس حرکت سے گاہک دھوکہ کہا جاتا ہے۔ اور زیادہ رقم دے کر سامان خرید لیتا ہے۔
(٦) اگر سامان میں کوئی عیب ہو تو دکاندار اسی وقت خریدار کو بتا دے تاکہ بعد میں جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
المسلم أخو المسلم ولا يحل لمسلم إن باع من أخيه بيع فيه عيب أن لا يبينه.
ترجمہ:- ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اگر کوئی مسلم سامان بیچے اور اس میں عیب ہو تو دوسرے مسلمان بھائی (خریدار) سے عیب بیان کر دے۔
لہذا موبائل میں اگر کوئی عیب ہو تو دکاندار گراہک اسی وقت بتا دے، آج کل بالعموم سامان کا عیب نہیں بتایا جاتاہے۔ اور دکاندار اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے عیب دار سامان جلد ازجلد بک جائے ۔مسلمانوں کو ایسا طرز عمل اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ دھوکے کی تجارت ناجائز ہے اور اس سے برکت اٹھ جایا کرتی ہے.
(٧) موبائل میں رد و بدل اور ہیر پھر بھی دکانداروں کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ایک قسم کی خیانت ہے۔ اسی طرح موبائل ریپئرنگ کے لیے مستری کو دیا جائے تو مستری اس موبائل کو ایک امانت سمجھ کر اس کی مرمت کرے ۔ کوئی سامان نہ بدلے اور ریپیرنگ کے بعد بعینہٖ وہی موبائل اور موبائل کے وہی اجزا موبائل کے مالک کے حوالے کیے جائیں۔
بعض نوجوان موبائل ریپیئرنگ کا کام کرتے ہیں وہ موبائل کا ہیولیٰ (ڈھانچہ) بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ پہلے تو وہ موبائل کا ناحق استعمال کرتے ہیں۔ موبائل کے اچھے برے اور درست اجزا (Parts) بدل کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور ردی اجزاء ان کی جگہ پر سیٹ کر دیتے ہیں تاکہ پھر کچھ دنوں کے بعد وہی گراہک موبائل کی مرمت کے لیے اس کے پاس آئے اور اس طرح مستری کا بھاؤ بٹا بنا رہے ، اور اس کی دکان چلتی رہے ۔ ایسا کرنا سراسر ناجائز اور خیانت و بدعہدی کی بدترین مثال ہے۔ مسلمانوں کو ایسے گھنونے عمل سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالی ہم تمام مسلمانوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔