مائک سے نماز پڑھانے کا حکم از مفتی کمال احمد علیمی

مائک سے نماز پڑھانے کا حکم

السلام علیکم
سوال : علماے کرام وہ مفتییانی عظام مسلہ ذیل کے بارے مین اگر مسجد بکل چھوٹی جہان پر امام صحاب کی آواز ۔ مقتدی تک پہنچ جاے کیا وہاں

پر امام صاحب نماز مایک پر پڑہا سکتے ہیں یانہین ۔ اور وہاں پر امام صاحب ۔ اندر ولا مایک استمال نہین کررہے ہیں بلکہ بہار ولا مایک استمال کررہے

ہیں جس مایک کی آواز محلے مین جارہی ہےکیا اس مایک پر نماز پڑہاں جایز ہے یہ نہین ۔ کیون کہ یہ سوال مین اسلے کیا ہے بعض علما فر ماتے ہے

قرآن پڑنا سنت ہے اور سننا واجب ہے کیون کے ہمارے گون اور محلے مین کچھ لوگ اپنی اپنی کام مین مصروف رہتے ہے ۔ قرآن حدیث کی روشنی

مین جواب عنایت فرمایں ۔
مسمی حافظ علی محمد ۔ کشمیری

الجواب بعون الملک الوھاب

مائک سے نماز پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے،شرعی کونسل بریلی شریف کے زیر اہتمام منعقد ٢٠٠٤ ء کے سیمینار میں مندرجہ ذیل فیصلہ کیا گیا :
١- لاؤڈاسپیکر کی آواز متکلم کی عین آواز نہیں ہے ، اس لئے محض لاؤڈا سپیکر سے مسموع آواز پر اقتداء ہم احناف کے نزدیک صحیح نہیں، بالفرض

یہ آواز ماہیت کے اعتبار سے متکلم کی آواز بھی ہو تو بھی حکماًیہ اصل آواز نہیں لہٰذا اب بھی محض اس آواز پر اقتداء درست نہیں ہو گی ۔

۲۔ جہاں کہیں نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر لوگ جبر کریں وہاں مکبّرین کا بھی انتظام کیا جائے اور مقتدیوں کو مسئلہ کی صورت سے آگاہ کرتے ہو ئے ہدایت کی جائے کہ وہ لاؤڈاسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کرکے مکبّرین کی آواز پر اقتداء کریں ۔

۳۔ اسی طرح مکبّرین کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ بھی لاؤد اسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کریں۔

۴۔ کہیں مکبّر مقرر کر نے کی بھی صورت نہ بنے تو امام مسئلہ بتادے وہ اس بنا پر امامت سے مستعفی نہ ہو۔

مورخہ ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤۔

فتاوی بحر العلوم میں ہے : ہندوستان میں علماے اہل سنت کی بڑی جماعت لاؤڈ اسپیکر پر اقتدا کو ناجائز کہتی ہے، اور تھوڑی تعداد میں علماء کرام

اس کو جائز کہنے والے ہیں، ہم یہی جواب دیتے ہیں کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اسپیکر پر اقتداء نہ کی جائے ۔

(ج اول ص٤٣٤)

اسی میں ہے :
میرے استاد حضور حافظ ملت لکھا کرتے تھے، اس مسئلہ میں احتیاط یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر نماز میں نہ استعمال کیا جائے، وجہ یہ تھی کہ اگر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز پڑھی جاتی ہے، تو دونوں فریق اس کو جائز ہی کہیں گے، کوئی ناجائز نہیں کہے گا،جب کہ ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کا فتویٰ دے گا،تو کام وہ کیا جائے کہ جس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہ ہو مگر ہمارے عوام اس مسئلہ میں علما سے زیادہ بےباک واقع ہوئے ہیں، لاؤڈ اسپیکر نماز کے لیے کوئی ضروری نہیں مگر اس کے لیے ضد پر آگئے، اور بس چلا تو لاؤڈ اسپیکر پر نماز نہ پڑھانے والے امام کو ہٹا کر دوسرے کو لاتے، خواہ وہ دیوبندی ہو یا دوسرے مذہب کا ہی کیوں نہ ہو، اور بس نہ چلا تو وہاں نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیا اور دوسری مسجد میں چلے گئے خواہ وہاں دیوبندی یا کوئی دوسرابد مذہب ہی امام کیوں نہ ہو اور اس سلسلے میں دنگا، فساد اور لڑائی جھگڑےسے بھی باز نہیں رہتے، میرا مشورہ فریقین کو یہ ہے کہ فتنہ فساد سے بچا جائے ۔

(ج اول ص٤٣٤)

مذکورہ صورت میں جب کہ مسجد چھوٹی ہے اور امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچ جاتی ہے تو بلا ضرورت مائک سے نماز پڑھانے سے احتراز ہمارے اکابر علماء کی تصریحات کی روشنی میں بے حد ضروری ہے۔پھر اگر آواز اتنی بلند ہو جو باعثِ تکلیف ہو تو احتیاط فی العبادة کے علاوہ ایک اور وجہ سے احتراز کرنے کا حکم ہوگا کہ نماز کے اندر اتنی بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنا منع ہے جو دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہو۔
صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "حاجت سے زیادہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ اپنے یا دوسرے کے لیے باعثِ تکلیف ہو، مکروہ ہے”

(بہار شریعت حصہ سوم ص ۵۴٨ دعوت اسلامی ایپ)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبـــــہ : مفتی کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٢٢ربیع الثانی ١٤٤٣ھ/ ٢٨نومبر ٢٠٢١ء
الجواب صحیح
مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

Leave a Reply

%d bloggers like this: