مائک سے نماز پڑھنے کے مسائل از علامہ کمال احمد علیمی
سوال : کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین کہ مائک سے نماز پڑھنے میں مقتدیوں کا شدید اختلاف ہے، مائک سے نماز پڑھنے سے نماز ہوتی کہ نہیں، اور جو لوگ مائک سے پڑھا رہے ہیں ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟
جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں.
از. محمد اسلم خان
ممبرا ممبئی مہاراشٹر
الجواب بعون الملک الوھاب
مائک سے نماز پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے،شرعی کونسل بریلی شریف کے زیر اہتمام منعقد ٢٠٠٤ ء کے سیمینار میں مندرجہ ذیل فیصلہ کیا گیا :
لاؤڈاسپیکر کی آواز متکلم کی عین آواز نہیں ہے ، اس لئے محض لاؤڈا سپیکر سے مسموع آواز پر اقتداء ہم احناف کے نزدیک صحیح نہیں، بالفرض یہ آواز ماہیت کے اعتبار سے متکلم کی آواز بھی ہو تو بھی حکماًیہ اصل آواز نہیں لہٰذا اب بھی محض اس آواز پر اقتداء درست نہیں ہو گی ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
۲۔ جہاں کہیں نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر لوگ جبر کریں وہاں مکبّرین کا بھی انتظام کیا جائے اور مقتدیوں کو مسئلہ کی صورت سے آگاہ کرتے ہو ئے ہدایت کی جائے کہ وہ لاؤڈاسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کرکے مکبّرین کی آواز پر اقتداء کریں ۔ ۳۔ اسی طرح مکبّرین کو بھی ہدایت کی جائے کہ وہ بھی لاؤد اسپیکر کی آواز پر اقتداء نہ کریں۔ ۴۔ کہیں مکبّر مقرر کر نے کی بھی صورت نہ بنے تو امام مسئلہ بتادے وہ اس بنا پر امامت سے مستعفی نہ ہو۔
مورخہ ١٧/رجب المرجب ١٤٢٥ھ مطابق ٣/ستمبر ٢٠٠٤.
فتاوی بحر العلوم میں ہے :ہندوستان میں علماے اہل سنت کی بڑی جماعت لاؤڈ اسپیکر پر اقتدا کو ناجائز کہتی ہے، اور تھوڑی تعداد میں علماء کرام اس کو جائز کہنے والے ہیں، ہم یہی جواب دیتے ہیں کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اسپیکر پر اقتداء نہ کی جائے۔(ج اول ص٤٣٤)
اسی میں ہے :
میرے استاد حضور حافظ ملت لکھا کرتے تھے، اس مسئلہ میں احتیاط یہی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر نماز میں نہ استعمال کیا جائے، وجہ یہ تھی کہ اگر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نماز پڑھی جاتی ہے، تو دونوں فریق اس کو جائز ہی کہیں گے، کوئی ناجائز نہیں کہے گا،جب کہ ایک بڑا گروہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کی صورت میں عدم جواز کا فتویٰ دے گا،تو کام وہ کیا جائے کہ جس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہ ہو مگر ہمارے عوام اس مسئلہ میں علما سے زیادہ بےباک واقع ہوئے ہیں، لاؤڈ اسپیکر نماز کے لیے کوئی ضروری نہیں مگر اس کے لیے ضد پر آگئے، اور بس چلا تو لاؤڈ اسپیکر پر نماز نہ پڑھانے والے امام کو ہٹا کر دوسرے کو لاتے، خواہ وہ دیوبندی ہو یا دوسرے مذہب کا ہی کیوں نہ ہو، اور بس نہ چلا تو وہاں نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیا اور دوسری مسجد میں چلے گئے خواہ وہاں دیوبندی یا کوئی دوسرابد مذہب ہی امام کیوں نہ ہو اور اس سلسلے میں دنگا، فساد اور لڑائی جھگڑےسے بھی باز نہیں رہتے، میرا مشورہ فریقین کو یہ ہے کہ فتنہ فساد سے بچا جائے.(ج اول ص٤٣٤)
جو لوگ مائک سے نماز پڑھاتے ہیں جہاں تک صرف ان کی نماز صحیح ہونے نہ ہونے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی نماز فریقین کے نزدیک بلاشبہہ صحیح ہے، اختلاف صرف اقتدا کرنے والوں کے بارے میں ہے۔
ہاں! فسادِ اقتدا کا قول کرنے والوں کے نزدیک امام کا ایسا بلاوجہ کرنا جائز نہ ہوگا۔اور اگر ایسا اندیشہ ہو کہ مائک سے نماز نہ پڑھانے کی صورت میں امامت سے علاحدہ کردیا جائے گا تو بالاتفاق فریقین کے نزدیک مائک سے نماز پڑھانے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ سیمینار کے فیصلہ کی عبارت گزر چکی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ : علامہ مفتی کمال احمد علیمی نظامی دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
٨ربیع الثانی ١٤٤٣ھ/ ١٣ نومبر ٢٠٢١ء
الجواب صحیح
علامہ مفتی محمد نظام الدین قادری مصباحی خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی