حضورﷺ نے معراج کی رات انبیاء کرام علیھم السلام کو جو نماز پڑھائی وہ کونسی نماز تھی؟ آذان کس نے دی؟ تکبیر کس نے کہی؟از محمد ارشاد رضا علیمی
جناب مفتی صاحب دریافت طلب امر یہ ہے کہ
جب سرکار صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معراج پر تشریف لے گئے تو آپ بیت المقدس تشریف لے گئے اور وہاں پر تمام انبیاء کرام علیھم السّلام نے آپ کا استقبال کیا اور آپ علیہ السلام کے افضل ہونے کا سب نے اعتراف کیا
پھر اذان دی گئی اور تکبیر کہی گئی انبیاء کرام علیھم السّلام نے صفوف بندی کی
حضرت جبرائیل امین نے امام الانبیاء حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو سب کا امام بنایا آپ نے تمام انبیاء کرام علیھم السّلام کو نماز پڑھائی
حضرت مفتی صاحب قبلہ اب آپ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ یہ کون سی نماز تھی؟
اذان کس نے دی ؟
اور تکبیر کس نے کہی ؟
امید کامل ہے کہ ان شاءاللہ عزوجل ضرور بضرور جواب ملے گا اور جلدی ملے گا-
المستفتی:- محمد اسلم رضا نعیمی امام غوثیہ جامع مسجد تھنہ منڈی
الجواب بعون الهادى إلى الحق والصواب:-
احادیث مبارکہ میں اس کی کوئی صراحت نہیں ملتی کہ وہ کونسی نماز تھی صرف اتنا ہے کہ ” فحانت الصلاة فأممتهم” نماز کا وقت ہوا تو میں نے انبیاء کی امامت کی-(صحیح مسلم/ كتاب الإيمان/ باب في ذكر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، رقم الحديث ۴۴۸) البتہ اس حدیث کی شرح میں علامہ علی قاری قدس سرہ السامی تحریر فرماتے ہیں” و لعل المراد بها صلوة التحية او يراد بها صلوة المعراج على الخصوصية ”
ترجمہ: اس نماز سے مراد نماز تحية المسجد ہے یا معراج کی خصوصی نماز ہے۔(مرقاة المفاتيح، ج ۹ رقم الحديث ۵۸۸۶ /كتاب الفضائل، باب في المعراج)
تفسیر روح البیان میں ہے کہ ” حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انبیائے کرام کو جماعت کے ساتھ دو رکعت نفل نماز پڑھائی تھی”(روح البيان مترجم/ ج ۸ ص ۲۹، ۳۰) بعض ضعیف روایات میں یہ ملتا ہے کہ شب معراج کے موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام نے آذان واقامت کہی لیکن یہ روایات قابل استدلال نہیں کیونکہ اس وقت آذان واقامت کی مشروعیت ہوئی ہی نہیں تھی، ان کی مشروعیت مدینہ منورہ میں ہوئی جب کہ یہ واقعہ مکہ مکرمہ کا ہے-
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالٰی تحریر فرماتے ہیں "وردت أحاديث تدل على أنّ الأذان شرع بمكة قبل الهجرة، منها للطبراني من طريق سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه قال: لما أسري بالنبي صلى الله عليه وسلم أوحى الله إليه الأذان فنزل به فعلمه بلالاً، وفي إسناده طلحة بن زيد وهو متروك، وللدارقطني في الأطراف من حديث أنس: أن جبريل أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالأذان حين فرضت الصلاة وإسناده ضعيف أيضًا، ولابن مردويه من حديث عائشة مرفوعًا: لما أسري بي أذن جبريل، فظنت الملائكة أنه يصلي بهم ، فقدمني ،فصليت وفيه من لا يعرف، وللبزار وغيره من حديث علي قال: لما أراد الله أن يعلم رسوله الأذان أتاه جبريل بدابة يقال لها: "البراق” فركبها، فذكر الحديث وفيه: إذ خرج ملك من وراء الحجاب فقال: الله أكبر الله أكبر، وفي آخره: ثم أخذ الملك بيده فأم بأهل السماء، وفي إسناده زياد بن المنذر أبو الجارود وهو متروك أيضًا، ويمكن على تقدير الصحة أن يحمل على تعدد الإسراء، فيكون ذلك وقع بالمدينة، وأما قول القرطبي: لايلزم من كونه سمعه ليلة الإسراء أن يكون مشروعًا في حقه، ففيه نظر؛ لقوله: في أوله لما أراد الله أن يعلّم رسوله الأذان، وكذا قول المحب الطبري: يحمل الأذان ليلة الإسراء على المعنى اللغوي وهو الإعلام ففيه نظر أيضًا؛ لتصريحه بكيفيته المشروعة فيه، والحق أنه لا يصح شيء من هذه الأحاديث، وقد جزم ابن المنذر بأنه صلى الله عليه وسلم كان يصلي بغير أذان منذ فرضت الصلاة بمكة إلى أن هاجر إلى المدينة وإلى أن وقع التشاور في ذلك على ما في حديث عبد الله بن عمر، ثم حديث عبد الله بن زيد، انتهى. وقد حاول السهيلي الجمع بينهما فتكلف وتعسف، والأخذ بما صح أولى”( فتح الباری شرح صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۸) واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبہ:- محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ مقیم حال بالیسر اڑیسہ ۲۷/ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۹/اپریل ۲۰۲۳ء
الجواب صحيح :محمد نظام الدین قادری خادم درس وافتا دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی یوپی