اگر کوئی جسمانی معراج کا انکار کرے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر اہلِ اسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ معراج شریف حالتِ بیداری میں روح اور جسم دونوں کے ساتھ واقع ہوئی ہے لہذا اگر کوئی روحانی معراج کو تو مانے مگر جسمانی معراج کا انکار کرے تو وہ خطاء و غلطی پر ہے ۔
چنانچہ صدرالافاضل حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"معراج شریف بحالتِ بیداری جسم وروح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی یہی جمہور اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کثیر جماعتیں اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اجلہ اصحاب اسی کے معتقد ہیں” ۔
(خزائن العرفان صفحہ 451)
نسیم الریاض میں ہے :
"(ذھب معظم السلف والمسلمین) عطف للعام علی الخاص وفیہ اشارۃ الی ان خلافہ لاینبغی لمسلم اعتقادہ (الی انہ اسراء بالجسد) مع الروح (وفی الیقظۃ)”
یعنی (اکابر علماء و مسلمین اس طرف گئے ہیں) یہ عام کا خاص پر عطف ہے اور اکابر علماء و مسلمین کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیر فرمائی جسم اور) روح کے ساتھ (اور بیداری کی حالت میں )
(نسیم الریاض جلد 3 صفحہ 99)
فتاوی رضویہ میں ہے :
"ان عظیم وقائع نے معراج مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا, اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تو اس پر تعجب کیا ؟ زید و عمرو خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں. رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاس نہ دیکھنا صریح خطا ہے. رؤیا بمعنی رویت (دیکھنے کے معنی میں) بھی آتا ہے اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں, ولہذا ارشاد ہوا : (سبحن الذی اسری بعبدہ) یعنی پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔ ”
(فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 635 رضا فاؤنڈیشن لاہور )
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم
کتبــــــــــــــــــہ : مفتی عبیدرضامدنی