کسی کے دادا کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم سے پہلے اگر اس کے باپ کا انتقال ہو تو اس کو اپنے باپ کے حصہ کی میراث ملے گی
کیا فرماتے ہیں علماے کرام مسئلہ ذیل میں کہ بکر نے اپنے پیچھے تین لڑکے اور دو لڑکیاں چھوڑیں، لڑکوں میں ایک کا انتقال ہوگیا جس کی بیوی سمیت دو لڑکیاں ہیں ۔ یہ
دونوں بھائی اپنے فوت شدہ بھائی کی بیوی اور بچیوں کو میراث کا آدھا حصہ ہی دینا چاہتے جبکہ وہ پورا حصہ مانگ رہے ہیں۔ کیا عند الشرع یہ تقسیم درست ہے ؟ عاجزانہ گزارش ہے اس کو جلدی حل کردیں اور جواب ہندی زبان میں
لکھوائیں ،عین نوازش ہوگی۔
سائل : داود علیمی مند سور ایم پی
الجواب:
صورتِ سوال سے واضح ہے کہ بکر کی وفات کے وقت تینوں لڑکے باحیات تھے،لہذا اگر بکر کے اتنے ہی وارثین تھے جتنے سوال میں مذکور ہیں اور ان میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کے اندر میراث سے کلی طور پر ممنوع کیے جانے کا کوئی سبب پایا گیا ہو( مثلا: قتلِ مورث یا اختلاف دین وغیرہ) تو بکر کی تجہیز وتکفین اور دیون (قرض وغیرہ ذمہ میں واجب مالی مطالبات) کی ادائیگی اور وصیت بقدر نافذ پوری کرنے کے بعد اس کا جو بھی مال یعنی جائیداد منقولہ غیر منقولہ اور دوسروں کے ذمہ واجب اس کے مالی دیون ہیں ان سب کا آٹھ حصہ کیا جائیگا جس میں ہر لڑکے کو دو دو حصہ اور ہر لڑکی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ اب پھر فوت شدہ لڑکے کو جو کچھ ملا ہے نیز اس کا اپنا بھی کوئی مال اگر الگ سے ہو دونوں کو اس کے وارثین کے درمیان شرعی طریقہ پر تقسیم کیا جائے گا۔یعنی اگر متوفی لڑکے کے اتنے ہی وارثین ہیں جتنے سوال میں مذکور ہیں تو اس کی تمام جائیداد کے اڑتالیس حصہ کرکے بیوی کو چھ حصہ، اور دونوں لڑکیوں کو سولہ سولہ حصہ ملے گا اور باقی دس حصوں میں پانچ پانچ حصہ ہر بھائی کو ملے گا۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ دونوں بھائیوں میں سے ہر بھائی بھی اپنے متوفی بھائی کی جائیداد کے ۵/۴٨(یعنی اڑتالیس حصوں میں سے پانچ حصہ) کا حق دار ہے، لہذا اپنے متوفی بھائی کے وارثین کو صرف آدھی جائیداد دینے کی صورت میں ان میں سے ہر ایک بھائی، اپنے متوفی بھائی کے دیگر وارثین کے ٧/۴٨(یعنی اڑتالیس حصوں میں سے سات حصہ) غصب کرنے کا مجرم ہوگا اور ان پر شرع کے اعتبار سے فرض ہوگا کہ اپنے مرحوم بھائی کا غصب کیا ہوا حصہ اس کے دیگر وارثین کے حوالے کریں ورنہ حقوق العباد میں گرفتار اور مستحق عذاب نار ہوں گے۔ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: "یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۔۔۔”[ ترجمہ: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے _ سورہ نساء: آیت ١١]
نیز ارشادِ باری تعالی ہے:
” وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ”[ یعنی: آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طور پر نہ کھاو _ سورہ بقرہ: ١٨٨]واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
کتبہ: محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی یوپی۔٢/ محرم الحرام ١۴۴٣ھ//١٢/اگست ٢٠٢١ء