پاکستانی لبرل وسیکولر طبقہ کافیض آباددھرناپررونا

پاکستانی لبرل وسیکولر طبقہ کافیض آباددھرناپررونا

لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے شہرحرام میں قتال کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، آپ ﷺفرمادیں کہ اس میں خاص طورپریعنی عمداً قتال کرنابہت بڑاجرم ہے ، اگرمسلمانوں سے یہ فعل بالقصدصادرنہیں ہوابلکہ تاریخ کی تحقیق نہ ہونے کے سبب غلطی سے ایساہوگیا، یہ توتحقیقی جواب ہے اورالزامی جواب یہ ہے کہ کفارومشرکین کس منہ سے یہ اعتراض کررہے ہیں ، کیونکہ اگرشہرحرام میں لڑناجرم عظیم ہے توان کفارکی جوحرکتیں ہیں یعنی اللہ تعالی کی راہ سے لوگوں کوروکنا، یعنی مسلمان ہونے پر اہل اسلام کو تکالیف سے دوچارکرناکہ ڈرکے مارے لوگ مسلمان ہی نہ ہوں ۔ اوراللہ تعالی کے ساتھ کفرکرنااورمسجد حرام شریف کے ساتھ کفرکرناکہ وہاں بہت سے بت رکھنابجائے اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے یہ مشرکین ان بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔ اورجو لوگ مسجد حرام شریف کے اہل تھے یعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کو تنگ اورپریشان کرکے مسجد حرام سے نکل جانے پر مجبورکردینا، جس سے نوبت ہجرت یعنی ترک وطن کی پہنچی ۔ سویہ حرکتیں جو تم کررہے ہویہ شہرحرام میں قتال کرنے سے بھی زیادہ جرم ہیں ۔ کیونکہ یہ حرکتیں دین الہی میں فتنہ پردازی کرناہے اورایسے فتنہ پردازی کرنااس قتل خاص سے جو اہل اسلام سے صادرہوابدرجہاقباحت میں بڑھ کرہے کیونکہ اس قتل سے دین حق کو توکوئی مضرت نہیں پہنچی ، زیادہ سے زیادہ اگرکوئی شخص جان بوجھ کرایساکرے توخود ہی گناہگارہوگا، ان حرکتوں سے نہ تودین حق کو ضررپہنچتاہے کہ اس کی ترقی رکتی ہے۔اب اسی طرح دنیابھرکے کفارکو جو وہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیںان کو نظرانداز کرکے اسے ہاتھ میں لے لیں گے جو ان کو اہل اسلام کی طرف سے جوابی کاروائی کی صورت میں کوئی دکھ پہنچے ۔ یہاں ہم کچھ چیزوں کی نشاندہی کریں گے جیسے فیض آباددھرناہونے پر لبرل طبقہ نے بہت زیادہ چیخیں نکالی تھیں اورآج تک رورہے ہیں ۔ اورافسوس اس بات پر ہے کہ ایسے بے دین لوگ کفارمکہ کی طبیعت پر گئے ہیں وہ بڑے بڑے کفرکرکے بھی خود کو بڑامعتدل اورمتدین جانتے تھے اورجب اہل اسلام کی طرف سے کوئی جوابی کاروائی ہوتی تو پھران کی چیخیں نکل جاتیں ۔ جیسے مکہ کے کافرجوابی کاروائی کو ہی پکڑکرروتے تھے کہ یہ ہوگیاوہ ہوگیااسی طرح پاکستانی لبرل بھی رد عمل کو لیکر روناشروع کردیتاہے یہ نہیں دیکھتاکہ یہ ردعمل جس عمل کی وجہ سے صدورمیں آیاہے وہ کیاہے اوراس کے اسباب کیاہیں؟

یہودیوں کواپنی گستاخی نظرنہ آئی

ثنا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ أَخِیہِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ،عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ،عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عِنْدَہَا فَسَلَّمَ عَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ،وَنَحْنُ فِی الْبَیْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَزِعًا فَقُمْتُ فِی أَثَرِہِ، فَإِذَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ، فَقَالَ:ہَذَا جِبْرِیلُ یَأْمُرُنِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ ،فَقَالَ:قَدْ وَضَعْتُمُ السِّلَاحَ لَکِنَّا لَمْ نَضَعْ قَدْ طَلَبْنَا الْمُشْرِکِینَ حَتَّی بَلَغَنَا حَمْرَاء ُ الْأَسَدُ ،وَذَلِکَ حِینَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَزِعًا، فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ:عَزَمْتُ عَلَیْکُمْ أَنْ لَا تُصَلُّوا صَلَاۃَ الْعَصْرِ حَتَّی تَأْتُوا بَنِی قُرَیْظَۃَ فَغَرَبَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ یَأْتُوہُمْ، فَقَالَتْ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ:إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُرِدْ أَنْ یَدَعُوا الصَّلَاۃَ فَصَلُّوا،وَقَالَتْ طَائِفَۃٌ:إِنَّا لَفِی عَزِیمَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا عَلَیْنَا مِنْ إِثْمٍ، فَصَلَّتْ طَائِفَۃٌ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا،وَتَرَکَتْ طَائِفَۃٌ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا وَلَمْ یَعِبِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدًا مِنَ الْفَرِیقَیْنِ،وَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَرَّ بِمَجَالِسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ قُرَیْظَۃَ، فَقَالَ:ہَلْ مَرَّ بِکُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالُوا:مَرَّ عَلَیْنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ عَلَی بَغْلَۃٍ شَہْبَاء َ تَحْتَہُ قَطِیفَۃُ دِیبَاجٍ،قَالَ:لَیْسَ ذَلِکَ بِدِحْیَۃَ وَلَکِنَّہُ جِبْرِیلُ أُرْسِلَ إِلَی بَنِی قُرَیْظَۃَ لَیُزَلْزِلَہُمْ وَیَقْذِفَ فِی قُلُوبِہِمُ الرُّعْبَ ،فَحَاصَرَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَسْتَتِرُوا بِالْحَجَفِ حَتَّی یُسْمِعَہُمْ کَلَامَہُ، فَنَادَاہُمْ:یَا إِخْوَۃَ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیرِ قَالُوا:یَا أَبَا الْقَاسِمِ، لَمْ تَکُ فَحَّاشًا،فَحَاصَرَہُمْ حَتَّی نَزَلُوا عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ،وَکَانُوا حُلَفَاء َہُ فَحَکَمَ فِیہِمْ أَنْ یُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ،وَتُسْبَی ذَرَارِیَّہُمْ وَنِسَاؤُہُمْ ہَذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ فَإِنَّہُمَا قَدِ احْتَجَّا بِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِیِّ فِی الشَّوَاہِدِ، وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ۔
ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ جب ہم بنوقریظہ کے پاس پہنچے توان کواس بات کایقین ہوگیاکہ کیاکچھ ان کے ساتھ ہونے والاہے ،حضرت مولاعلی رضی اللہ عنہ نے جھنڈاقلعے کے نیچے جاکر گاڑدیاجب ہم ان کے صحنوں میں پہنچے تورسول اللہ ﷺ اورامہات المومنین رضی اللہ عنہن کوگالیاں دینے لگے توحضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چپ رہے اور ہم نے کہااب ہمارے اورتمھارے درمیان فیصلہ تلوار ہی کرے گی اتنے میں رسول اللہ ﷺ سامنے تشریف لاتے ہوئے دکھائی دیئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے جھنڈادیا،میں نے جھنڈاتھام لیااورحضرت علی رضی اللہ عنہ جلد ی سے گئے اوررسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺابھی نہ آئیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ اس لئے کررہے تھے کہ اگرانہوں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رسول اللہ ﷺ کوگالی دے دی، تورسول اللہ ﷺ کوتکلیف ہو گی ،رسول ا للہ ﷺ تشریف لے آئے، اتنے میں حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ آگے ہوئے اوریہودیوں کوکہا:اب تم لومڑی کی طرح اپنی بلوں میں پڑے رہو گے تب تک ہم تم کونہیں چھوڑیں گے جب تک تم بھوکے نہ مرجائو،توحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اب ہمارے اورتمھارے درمیان کوئی عھد نہیں ہے، اتنے میں رسول اللہ ﷺ قریب تشریف لائے اورفرمایا:اے بندروں اورخنزیروں کے بھائیو اوربتوں کے پجاریو !تم مجھے گالیاں دیتے ہو؟۔انہوںنے کہا: اے محمد!(ﷺ) آ پ تواتنا سخت کلام نہیں کرتے تھے ؟پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کامحاصرہ کرلیا، پھروہ اترے تب جب حضرت سیدناسعدرضی اللہ عنہ آئے۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم (۳:۵۳۵)
اس سے معلوم ہواکہ یہودی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکواورآپ ﷺکی ازواج مطہرات کوگالیاں دے رہے تھے توان کوکوئی بھی برانہیں لگامگرجیسے ہی حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کو بندروں اورخنزیروں کابھائی قراردیاتوچیخنے لگے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضوتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخی ہو اورکسی کوغصہ نہ آئے تو وہ طبیعت کایہودی ہے اورجب گستاخ کے خلاف سخت زبان استعمال کی جائے تواس پر کسی کو غصہ آجائے تووہ بھی طبعاً اسی طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتاہے ۔

اپنی غلطی کو اعتدال جاننااوراسلام کی پکڑپرچیخ اٹھنا

عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ:أَخَذَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَاسًا مِنْ قَوْمِی فِی تُہْمَۃٍ فَحَبَسَہُمْ فَجَاء َ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَخْطُبُ فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ عَلَی مَا تَحْبِسُ جِیرَتِی؟فَصَمَتَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْہُ فَقَالَ:إِنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ إِنَّکَ لَتَنْہَی عَنِ الشَّرِّ وَتَسْتَخْلِی بِہِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا یَقُولُ؟فَجَعَلْتُ أَعْرِضُ بَیْنَہُمَا بِکَلَامٍ مَخَافَۃَ أَنْ یَسْمَعَہَا فَیَدْعُو عَلَی قَوْمِی دَعْوَۃً لَا یُفْلِحُونَ بَعْدَہَا قَالَ:فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی فَہِمَہَا فَقَالَ:قَدْ قَالُوہَا؟ وَقَالَ قَائِلُہَا مِنْہُمْ وَاللَّہِ لَوْ فَعَلْتُ لَکَانَ عَلَیَّ وَمَا کَانَ عَلَیْہِمْ،خَلُّوا لَہُ عَنْ جِیرَانِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدنابہز بن حکیم رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد اوروہ اپنے دادجی سے نقل کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے میری قوم کے چندلوگوں کو کسی تہمت میں پکڑلیااورانہیں قیدکرلیا، پھرمیری قوم کاایک آدمی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس آیااورکہنے لگا: اے محمد!ﷺآپ نے ہمارے پڑوسیوں کو کس وجہ سے قید کیاہے ؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ا س کی بات کاکوئی جواب نہیں دیا۔ پھروہ کہنے لگاکہ لوگ تویہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺتوبرائی سے دوررہتے ہیں اوراس سے تنہائی اختیارکرتے ہیں ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے پوچھاکہ وہ کیاکہہ رہاہے ؟ میں نے دونوں کے درمیان بات کرنے سے اعراض کیاکہ کہیں وہ سن نہ لے ۔ پھروہ اپنی قوم کو بددعادینے لگا کہ وہ کبھی کامیاب نہ ہوں ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺمسلسل کوشش میں رہے اوراس کی بات سمجھ گئے ، پھرآپ ﷺنے فرمایاکیاانہوں نے یہ بات کی ہے ؟ یااس کاکہنے والاانہیں میں سے کوئی ہے ؟ اللہ تعالی کی قسم اگرمیں ایسے کروں تووہ مجھ پر ہو ،ان پر نہ ہو، اس کے پڑوسیوں کو اس کے لئے چھوڑ دو۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۱۰:۲۱۶)
اس حدیث شریف میں غورکریں توبات سمجھ آئے گی کہ کچھ لوگوں پرکسی غلط کام کی تہمت تھی اوران کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے گرفتارکرکے قیدکردیا، اب ان کے خاندان کاایک شخص آکریہ کہتاہے کہ آپ توبرائی سے دوررہنے والے ہیں مگریہ آپﷺ نے کیاکیا؟ اب دیکھیں کہ ان کاغلط کام کرنااس کے نزدیک کوئی براکام نہیں ہے مگرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکاان کو گرفتارکروانااس کے نزدیک براکام ہے ۔ اس سے معلوم ہواکہ بے دین لوگوں کایہی شیوہ ہے کہ وہ جو بھی کرتے رہیں مگرجیسے ہی ان کی پکڑہونے لگے توچیخناشروع کردیتے ہیں۔

بتوں کی پوجااچھی لگے اوران کے خلاف بات کرنابرالگے

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ:بَعَثَتْ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَکْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَۃَوَافِدًا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدِمَ عَلَیْہِ،وَأَنَاخَ بَعِیرَہُ عَلَی بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَہُ،ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ،وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،جَالِسٌ فِی أَصْحَابِہِ،وَکَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا أَشْعَرَ ذَا غَدِیرَتَیْنِ،فَأَقْبَلَ حَتَّی وَقَفَ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فِی أَصْحَابِہِ فَقَالَ:أَیُّکُمُ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ،قَالَ مُحَمَّدٌ؟قَالَ:نَعَمْ ،فَقَالَ:ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ،إِنِّی سَائِلُکَ وَمُغَلِّظٌ فِی الْمَسْأَلَۃِ،فَلا تَجِدَنَّ فِی نَفْسِکَ،قَالَ: لَا أَجِدُ فِی نَفْسِی،فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَکَ قَالَ:أَنْشُدُکَ اللہَ إِلَہَکَ، وَإِلَہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ،وَإِلَہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ،آللَّہُ بَعَثَکَ إِلَیْنَا رَسُولًا؟فَقَالَ:اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ:فَأَنْشُدُکَ اللہَ إِلَہَکَ،وَإِلَہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ،وَإِلَہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ،آللَّہُ أَمَرَکَ أَنْ تَأْمُرَنَا أَنْ نَعْبُدَہُ وَحْدَہُ،لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا،وَأَنْ نَخْلَعَ ہَذِہِ الْأَنْدَادَ الَّتِی کَانَتْ آبَاؤُنَا یَعْبُدُونَ مَعَہُ؟ قَالَ:اللہُمَّ نَعَمْ ،قَالَ:فَأَنْشُدُکَ اللہَ إِلَہَکَ،وَإِلَہَ مَنْ کَانَ قَبْلَکَ،وَإِلَہَ مَنْ ہُوَ کَائِنٌ بَعْدَکَ،آللَّہُ أَمَرَکَ أَنْ نُصَلِّیَ ہَذِہِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟ قَالَ:اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ:ثُمَّ جَعَلَ یَذْکُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلامِ فَرِیضَۃً فَرِیضَۃً:الزَّکَاۃَ، وَالصِّیَامَ،وَالْحَجَّ، وَشَرَائِعَ الْإِسْلامِ کُلَّہَا، یُنَاشِدُہُ عِنْدَ کُلِّ فَرِیضَۃٍ کَمَا یُنَاشِدُہُ فِی الَّتِی قَبْلَہَا،حَتَّی إِذَا فَرَغَ قَالَ:فَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلا اللہُ،وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ،وَسَأُؤَدِّی ہَذِہِ الْفَرَائِضَ،وَأَجْتَنِبُ مَا نَہَیْتَنِی عَنْہُ،ثُمَّ لَا أَزِیدُ وَلا أَنْقُصُ، قَالَ:ثُمَّ انْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَی بَعِیرِہِ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ وَلَّی:إِنْ یَصْدُقْ ذُو الْعَقِیصَتَیْنِ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ:فَأَتَی إِلَی بَعِیرِہِ،فَأَطْلَقَ عِقَالَہُ،ثُمَّ خَرَجَ حَتَّی قَدِمَ عَلَی قَوْمِہِ،فَاجْتَمَعُوا إِلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا تَکَلَّمَ بِہِ أَنْ قَالَ:بِئْسَتِ اللاتُ وَالْعُزَّی،قَالُوا:مَہْ یَا ضِمَامُ،اتَّقِ الْبَرَصَ وَالْجُذَامَ،اتَّقِ الْجُنُونَ، قَالَ:وَیْلَکُمْ،إِنَّہُمَا وَاللہِ لَا یَضُرَّانِ وَلا یَنْفَعَانِ،إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا،وَأَنْزَلَ عَلَیْہِ کِتَابًا اسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِمَّا کُنْتُمْ فِیہِ،وَإِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ،وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ،إِنِّی قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِہِ بِمَا أَمَرَکُمْ بِہِ،وَنَہَاکُمْ عَنْہُ،قَالَ:فَوَاللہِ مَا أَمْسَی مِنْ ذَلِکَ الْیَوْمِ وَفِی حَاضِرِہِ رَجُلٌ وَلا امْرَأَۃٌ إِلا مُسْلِمًا قَالَ:یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ:فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَۃَ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ بنوسعد بن بکرنے ضمام بن ثعلبہ کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت میں حاضرہونے کے لئے بھیجا، وہ آئے اوراپنااونٹ مسجد نبوی شریف کے دروازے پربٹھایا، اسے باندھااورمسجد شریف میں داخل ہوگئے۔ اس وقت حضورتاجدارختم نبوت ﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے۔ ضمام ایک مضبوط آدمی تھے ، ان کے سرپر بال بہت زیادہ تھے ۔ جس کی انہوںنے دومینڈھیاں بنارکھی تھیں ، وہ چلتے ہوئے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس آکررک گئے ، اورکہنے لگے کہ آپ میں سے ابن عبدالمطلب کون ہے؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ میں ہوں ۔ انہوںنے سوال کیاکہ کیاآپ ہی کانام محمدﷺہے ؟آپ ﷺنے اثبات میں جوا ب دیا، ضمام نے کہا: یارسول اللہ ﷺ! میں آپ ﷺسے کچھ سوالات کرناچاہتاہوں ۔ ہوسکتاہے کہ اس میں کوئی تلخی یاسختی ہوجائے اسیلئے آپ ﷺناراض نہ ہونا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ میں برانہیں مناتا، آپ جو سوال کرناچاہتے ہوکرو، ضمام نے کہاکہ میں آپﷺ کو اس اللہ تعالی کی قسم دیتاہوں جوآپ ﷺکااورآپ ﷺسے پہلے اورآپ ﷺکے بعد آنے والے انسانوں کامعبودہے ۔ کیااسی اللہ تعالی نے آپ ﷺکوہماری طرف نبی بناکربھیجاہے ؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہاں۔ پھرضمام نے کہاکہ میں آپ کواس اللہ تعالی کاواسطہ دیتاہوں جو آپ ﷺکااورآپ ﷺسے پہلوں کااورآپﷺ کے بعد آنے والے انسانوں کامعبود ہے ، کیااسی اللہ تعالی نے آپ ﷺکو یہ حکم دینے کے لئے فرمایاکہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں؟ ان تمام معبودوں اورشرکاء کو چھوڑدیں جن کی ہمارے ابائواجدادپوجاکرتے تھے ؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہاں۔ پھرضمام نے مذکورہ قسم دے کرسوال کیا: کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکو حکم دیاہے کہ ہم یہ پانچ نمازیں اداکریں؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہاں۔ پھرضمام نے ایک ایک کرکے فرائض اسلام مثلاً زکوۃ ، روزہ اورحج اوراسکے علاوہ دیگرتمام شرائع کے بارے میں سوال کیااورہرمرتبہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو مذکورہ الفاظ میں قسم دیتارہا۔ جب ضمام فارغ ہوگئے توکہنے لگے کہ میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبودنہیں اوریہ کہ محمدﷺاللہ تعالی کے رسول ہیں۔میں یہ فرائض اداکرتارہوں گاجن چیزوں سے آپ ﷺنے مجھے منع کیاہے ، ان سے بچتارہوںگااوراس میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہیں کرونگا۔ پھروہ اپنے اونٹ پر سوارہوکرچلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اگراس دوچوٹیوں والے نے اپنی بات سچ کردکھائی تو یہ جنت میں داخل ہوگا۔ حضرت سیدناضمام رضی اللہ عنہ نے یہاں سے روانہ ہوتے ہی اپنے اونٹ کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی، یہاں تک کہ وہ اپنی قوم میں پہنچ گئے ۔ لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے ، حضرت سیدناضمام رضی اللہ عنہ نے جو سب سے پہلی بات کی وہ یہ تھی کہ لات وعزی بہت بری چیزیں ہیں ، لوگ کہنے لگے کہ ضمام ! رکو۔ برص اورجذام سے بچو، پاگل پن سے ڈرو، ان بتوں کو برابھلاکہنے سے تمھیں یہ چیزیں لاحق نہ ہوجائیں ، انہوں نے فرمایا: افسوس ! خداتعالی کی قسم ! یہ دونوں چیزیں نقصان پہنچاسکتی ہیں اورنہ ہی نفع ۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو بطورنبی مبعوث فرمادیاہے ۔ اس پر اپنی کتاب نازل کرکے تمھیں ان چیزوں سے بچالیاہے جن میں تم پہلے مبتلاء تھے ۔ میں تواس بات کی گواہی دے آیاہوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلاہے ، اس کاکوئی شریک نہیں ہے۔اوریہ کہ محمدﷺاللہ تعالی کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ اورمیں تمھارے پاس ان کی طرف سے کچھ احکامات لے کرآیاہوں اورکچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے وہ تمھیں منع کرتے ہیں ۔ بخداشام ہونے سے پہلے ان کے قبیلے کاہرہرمرداورہرہرعورت اسلام قبول کرچکے تھے۔حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ہم نے ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی قوم کانمائندہ افضل نہیں دیکھا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۴:۲۱۱)
اس سے معلوم ہواکہ جب تک وہ کافرتھے توان کو بتوں کی برائی بیان کرنانہایت ہی برالگاکیوں کہ انہوں نے فوراً حضرت سیدناضمام رضی اللہ عنہ کو روکا، یہی وہ لوگ تھے کہ اللہ تعالی کی عبادت کو چھوڑ کربتوں کی عبادت کرتے اوراللہ تعالی کاانکارکرتے اوراللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے ان کو اپنے یہ جرم جرم نہیں لگتے تھے مگرجیسے اسلام نے ان کے بتوں کی برائی کی توان کو تکلیف ہوگئی کیونکہ ان کے اندرکفرتھا، اس لئے ان کو بتوں کی برائی اچھی نہیں لگی مگرجب انکے سینے توحیدالہی اورتصدیق رسالتﷺ کے نور سے منورہوئے توپھرخود ہی بتوں کو توڑرہے تھے ، اس سے معلوم ہواکہ جب تک انسان کفرمیں مبتلاء ہوتواسے کفرکی برائی بیان کرنااچھانہیں لگتا۔

اسلام کی پکڑپرامیہ کاچیخنا

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،قَالَ:انْطَلَقَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ مُعْتَمِرًا،قَالَ:فَنَزَلَ عَلَی أُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ أَبِی صَفْوَانَ،وَکَانَ أُمَیَّۃُ إِذَا انْطَلَقَ إِلَی الشَّأْمِ، فَمَرَّ بِالْمَدِینَۃِ نَزَلَ عَلَی سَعْدٍ،فَقَالَ أُمَیَّۃُ،لِسَعْدٍ:انْتَظِرْحَتَّی إِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ،وَغَفَلَ النَّاسُ انْطَلَقْتُ فَطُفْتُ،فَبَیْنَا سَعْدٌ یَطُوفُ إِذَا أَبُو جَہْلٍ، فَقَالَ:مَنْ ہَذَا الَّذِی یَطُوفُ بِالکَعْبَۃِ؟ فَقَالَ سَعْدٌ:أَنَا سَعْدٌ،فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ:تَطُوفُ بِالکَعْبَۃِ آمِنًا،وَقَدْ آوَیْتُمْ مُحَمَّدًاوَأَصْحَابَہُ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، فَتَلاَحَیَا بَیْنَہُمَا،فَقَالَ أُمَیَّۃُ لسَعْدٍ:لاَ تَرْفَعْ صَوْتَکَ عَلَی أَبِی الحَکَمِ، فَإِنَّہُ سَیِّدُ أَہْلِ الوَادِی،ثُمَّ قَالَ سَعْدٌ: وَاللَّہِ لَئِنْ مَنَعْتَنِی أَنْ أَطُوفَ بِالْبَیْتِ لَأَقْطَعَنَّ مَتْجَرَکَ بِالشَّامِ، قَالَ:فَجَعَلَ أُمَیَّۃُ یَقُولُ لِسَعْدٍ:لاَ تَرْفَعْ صَوْتَکَ،وَجَعَلَ یُمْسِکُہُ،فَغَضِبَ سَعْدٌ فَقَالَ:دَعْنَا عَنْکَ فَإِنِّی سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَزْعُمُ أَنَّہُ قَاتِلُکَ،قَالَ:إِیَّایَ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ:وَاللَّہِ مَا یَکْذِبُ مُحَمَّدٌ إِذَا حَدَّثَ فَرَجَعَ إِلَی امْرَأَتِہِ،فَقَالَ:أَمَا تَعْلَمِینَ مَا قَالَ لِی أَخِی الیَثْرِبِیُّ،قَالَتْ:وَمَا قَالَ؟ قَالَ:زَعَمَ أَنَّہُ سَمِعَ مُحَمَّدًا یَزْعُمُ أَنَّہُ قَاتِلِی،قَالَتْ:فَوَاللَّہِ مَا یَکْذِبُ مُحَمَّدٌ، قَالَ:فَلَمَّا خَرَجُوا إِلَی بَدْرٍ،وَجَاء َ الصَّرِیخُ، قَالَتْ لَہُ امْرَأَتُہُ:أَمَا ذَکَرْتَ مَا قَالَ لَکَ أَخُوکَ الیَثْرِبِیُّ،قَالَ:فَأَرَادَ أَنْ لاَ یَخْرُجَ، فَقَالَ لَہُ أَبُو جَہْلٍ:إِنَّکَ مِنْ أَشْرَافِ الوَادِی فَسِرْ یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ، فَسَارَ مَعَہُمْ، فَقَتَلَہُ اللَّہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدناسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچے اورامیہ بن خلف کے مہمان بنے ، امیہ کی بھی یہی عادت تھی کہ جب وہ شام جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے گزرتاتھاتو حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان بنتاتھا، بہرحال امیہ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگاآپ تھوڑاساانتظارکرلیں ، جب دن خوب نکل آئے گااورلوگ غافل ہوجائیں گے تب آپ جاکرطواف کرلیجئے گا، جب حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ طواف کررہے تھے تواچانک ابوجہل ملعون آگیااورکہنے لگاکہ یہ کون شخص کعبہ کاطواف کررہاہے ؟ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سعد ہوں ۔ ابوجہل کہنے لگاکہ تم کتنے اطمینان سے طواف کررہے ہوحالانکہ تم نے محمدﷺاوران کے ساتھیوں کو پناہ دے رکھی ہے ۔حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہاں ہم نے انہیں پناہ دے رکھی ہے ۔ اس پر دونوں میں تکرارہونے لگی ، امیہ بن خلف حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگاکہ آپ ابوالحکم یعنی ابوجہل کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کریں۔ کیونکہ وہ اس علاقہ کاسردارہے ۔ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اللہ تعالی کی قسم ! اگرتونے مجھے طواف کرنے سے روکاتو میں تیری شام کی تجارت کاراستہ بندکردوں گا۔ امیہ بارباریہی کہہ رہاتھاکہ آپ اپنی آواز ابوجہل کی آواز سے اونچی نہ کریںاورانہیں منع کررہاتھا۔ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کوغصہ آیااورفرمایاکہ ہمارے درمیان سے ہٹ جائوکیونکہ تمھارے بارے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو فرماتے ہوئے سناہے وہ تمھیں قتل کردیں گے ۔ امیہ نے پوچھاکہ مجھے؟ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ۔ امیہ نے کہاکہ خداتعالی کی قسم ! محمدﷺکبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ بہرحال جب وہ لوگ چلے گئے تو امیہ اپنی بیوی کے پاس آیااورکہنے لگاکہ تمھیں پتہ چلاکہ سعد نے مجھے کیاکہاہے ؟ تواس نے اپنی بیوی کو ساراواقعہ بتایا۔ ادھرجب منادی آیااورلوگ بدرکی طرف روانہ ہونے لگے توامیہ کی بیوی نے اسے کہاکہ تمھیں یادنہیں ہے کہ تمھارے دوست سعد نے تمھیں کیاکہاتھا؟ اس پر امیہ نے بدرنہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن ابوجہل اس سے کہنے لگاکہ تم ہمارے اس علاقے کے معززآدمی ہو، ایک دودن کے لئے ہمارے ساتھ چلے چلو، چنانچہ وہ ان کے ساتھ چلاگیاتواللہ تعالی نے اسے قتل کروادیا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۲۰۵)

اس سے معلوم ہواکہ کافرحضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کو کعبہ مشرفہ کاطواف کرنے سے روکے اوراللہ تعالی کی عبادت نہ کرنے دے اوراسے اپنی اس حرکت پر کوئی دکھ نہ ہومگرجیسے ہی حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ ابوجہل کو ڈانٹتے ہیں تو اسلام کی اس پکڑپرامیہ جیسے کافرکوغصہ آجاتاہے اورابوجہل کی آواز سے آوازبھی اونچی نہیں ہونے دیتا۔ نعوذ باللہ من ذلک ، یہ وہ کافرہیں جنہوںنے بیت اللہ شریف سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوہجرت پر مجبورکیاتواس وقت ان کی غیرت بیدارنہ ہوئی جیسے ہی ایک مسلمان نے ایک کافرکوڈانٹاتو ان کو آداب یادآگئے۔ اوریہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرتم مجھے طواف نہیں کرنے دوگے تو میں تمھاراتجارتی قافلہ روک دوں گا۔ اس سے معلوم ہواکہ بوقت ضرورت کافروں اوربے دینوں اورلبرل وسیکولر طبقہ کی بدمعاشی نکالنے کے لئے اس طرح کی سختی کرنابالکل جائز ہے ۔ اورجب اس طرح کی سختی کفارپراورلبرل وسیکولرطبقہ پر کی جائے تو انکو آداب یادآجاتے ہیں کہ اسلام میں توکوئی سختی نہیں ہے ۔ وہ لوگ اس حدیث شریف پر غورکریں کہ حضرت سیدناسعدرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں تمھاراقافلہ روک دوں گا۔

اسلام کی پکڑپر ابوجہل کاچیخنا

عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ:قَالَ عَبْدُ اللَّہِ:انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ وَہُوَ صَرِیعٌ وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفِہِ فَقُلْتُ:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ یَا عَدُوَّ اللَّہِ قَالَ:ہَلْ ہُوَ إِلَّا رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ قَالَ:فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ فَأَصَبْتُ یَدَہُ،فَنَدَرَ سَیْفَہُ فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتَّی بَرَدَ ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّی أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَأَنَّمَا أُقَلُّ مِنَ الْأَرْضِ، یَعْنِی مِنَ السُّرْعَۃِ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ:آللَّہِ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ؟ فَرَدَّدَہَا عَلَیَّ ثَلَاثًا فَخَرَجَ یَمْشِی مَعِی حَتَّی قَامَ عَلَیْہِ فَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ یَا عَدُوَّ اللَّہِ، ہَذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ قَالَ وَکِیعٌ:زَادَ فِیہِ أَبِی عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ،عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ:قَالَ عَبْدُ اللَّہِ:فَنَفَّلَنِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیْفَہُ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ بدرمیں ابوجہل کے پاس پہنچا، تووہ زخمی پڑاہواتھا، اس کی ٹانگ کٹ چکی تھی ، وہ لوگوں کو اپنی تلوار سے دورکررہاتھا، میں نے اسے کہاکہ اللہ تعالی کاشکرہے ، اے دشمن خدا! اس نے تجھے رسواوذلیل کردیا، وہ کہنے لگاکہ کیاکسی شخص کوکبھی اس کی اپنی قوم نے بھی قتل کیاہے ؟ میں اسے اپنی تلوار سے مارنے لگاکہ وہ کندتھی ، وہ اس کے ہاتھ پرلگی اوراس کے ہاتھ سے تلوارگرگئی ، میں نے اس کی تلوارپکڑلی اوراس سے اس پر وارکیا، یہاں تک کہ میں نے اسے قتل کردیا۔ پھرمیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس آیااورعرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! ابوجہل ماراگیاہے ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی کے نام کی قسم کھاکرکہو۔ جس کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے ، میں نے قسم کھالی ، تین مرتبہ اسی طرح ہواکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺمیرے ساتھ چلتے ہوئے اس کے پاس جاکرکھڑے ہوگئے اورفرمایاکہ اللہ تعالی کاشکر ہے کہ اے دشمن خدا، اس نے تجھے ذلیل کردیا۔ یہ اس امت کافرعون تھااوردوسری سندسے یہ اضافہ بھی منقول ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس کی تلوارمجھے انعام میں دے دی ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (۷:۶۰۸)

اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ وہ ابوجہل جس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو شہیدکرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی اورانعام مقررکیاتھا، مکہ مکرمہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکو سب سے زیادہ تکالیف دینے والایہی ذلیل تھا۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو ہجرت کرنے پرمجبورکرنے والایہی تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ظلم کرنے والایہی تھا۔ جب اسلام نے اس کو پکڑاتوفوراً چیخ اٹھاکہ کیاکوئی قوم اپنی قوم کے کسی شخص کو قتل کرتی ہے؟ اس سے معلوم ہواکہ دین دشمن ہوتے ہی ایسے ذلیل ہیں کہ وہ خود دین کے ساتھ اوراہل دین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اوراس دشمنی کو اپناپیدائشی حق جانتے ہیں لیکن جب اسلام ان کو پکڑے توپھرکہتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم کے لوگ ہیں ،اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اسلام کی پکڑپر چیخناابوجہل کاطریقہ ہے اوراپنی گستاخیوں اوربدمعاشیوں کو نظرانداز کردینابھی ابوجہل کاطریقہ ہے ۔ اوریہی حال آج ہمارے ملک پاکستان میں ہے کہ یہ لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں کرتے ہیں اورعشاقان رسول ﷺکو پھانسیاں دیتے ہیں اورگستاخوں کی حمایتیں کرتے ہیں اورگستاخوں کو محفوظ راستے دیتے ہیں مگرجب اسلام کی پکڑآئے توپھرچیخ اٹھتے ہیں۔

کفارمکہ کااسلام کی پکڑپرچیخنا

عَنْ یَحْیَی بْنِ عُرْوَۃَ،عَنْ أَبِیہِ،قَالَ:قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو:مَا أَکْثَرَ مَا رَأَیْتَ قُرَیْشًا أَصَابَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا کَانَتْ تُظْہِرُ مِنْ عَدَاوَتِہِ؟ قَالَ:قَدْ حَضَرْتُہُمْ وَقَدِ اجْتَمَعَ أَشْرَافُہُمْ یَوْمًا فِی الْحِجْرِ فَذَکَرُوا فَقَالُوا:مَا رَأَیْنَا مِثْلَ صَبْرِنَا مِنْ أَمْرِ ہَذَا الرَّجُلِ قَطُّ،سَفَّہَ أَحْلَامَنَا، وَشَتَمَ آبَاء َنَا،وَعَابَ دِینَنَا، وَفَرَّقَ جَمَاعَتَنَا، لَقَدْ صَبَرْنَا مِنْہُ عَلَی أَمْرٍ عَظِیمٍ، فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ یَمْشِی حَتَّی اسْتَلَمَ الرُّکْنَ فَلَمَّا أَنْ مَرَّ بِہِمْ غَمَزُوہُ فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَرَّ بِہِمُ الثَّانِیَۃَ غَمَزُوہُ بِمِثْلِہَا فَعَرَفْتُ ذَلِکَ فِی وَجْہِہِ،فَمَرَّ بِہِمُ الثَّالِثَۃَ فَغَمَزُوہُ بِمِثْلِہَا، ثُمَّ قَالَ: تَسْمَعُونَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ،وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِالذَّبْحِ قَالَ:فَأَخَذَتِ الْقَوْمَ کَآبَۃٌ حَتَّی مَا مِنْہُمْ رَجُلٌ إِلَّا عَلَی رَأْسِہِ طَائِرٌ وَاقِعٌ حَتَّی إِنَّ أَشَدَّہُمْ فِیہِ قَبْلَ ذَلِکَ لَیَلْقَاہُ بِأَحْسَنَ مَا یَجِدُ مِنَ الْقَوْلِ إِنَّہُ لَیَقُولُ:انْصَرِفْ یَا أَبَا الْقَاسِمِ انْصَرِفْ رَاشِدًا فَوَاللَّہِ مَا کُنْتَ جَہُولًا،فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،حَتَّی إِذَا کَانَ مِنَ الْغَدِ اجْتَمَعُوا وَأَنَا مَعَہُمْ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ:ذَکَرْتُمْ مَا بَلَغَ مِنْکُمْ وَمَا بَلَغَکُمْ عَنْہُ حَتَّی إِذَا أَتَاکُمْ بِمَا تَکْرَہُونَ تَرَکْتُمُوہُ،فَبَیْنَا ہُمْ کَذَلِکَ إِذْ طَلَعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: قُومُوا إِلَیْہِ وَثْبَۃَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَمَا زَالُوا یَقُولُونَ:أَنْتَ الَّذِی تَقُولُ کَذَا وَکَذَا لِمَا بَلَغَہُمْ مِنْ عَیْبِ آلِہَتِہِمْ، قَالَ: فَیَقُولُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:نَعَمْ أَنَا الَّذِی أَقُولُ ذَلِکَ قَالَ:فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا مِنْہُمْ أَخَذَ بِجَامِعِ رِدَائِہِ،قَالَ:وَقَامَ أَبُو بَکْرٍ دُونَہُ وَہُوَ یَبْکِی یَقُولُ:أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّہُ، ثُمَّ انْصَرَفُوا عَنْہُ فَکَانَ ذَلِکَ أَشَدَّ مَا رَأَیْتُ قُرَیْشًا بَلَغَتْ مِنْہُ قَطُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعروہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سیدناعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے کہاکہ مجھے کسی ایسے سخت واقعے کے متعلق بتائیے جو مشرکین نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ روارکھاہو۔ انہوں نے کہاکہ ایک دن قریش کے وڈیرے حطیم میں جمع تھے ، میں بھی وہاں موجود تھا، وہ لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاتذکرہ کرنے لگے اورکہنے لگے کہ جیساصبرہم نے اس آدمی پر کیاہے کسی اورپرکبھی نہیں کیا۔ اس نے ہمارے دانالوگوںکو پاگل کہا،ہمارے آبائواجدادکو برابھلاکہا، ہمارے معبودوں میں عیوب نکالے ، ہماری جماعت کو منتشرکیااورہمارے معبودوں کو برابھلاکہا۔ ہم نے ان کے معاملے میں بہت صبرکرلیا، اسی اثناء میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺبھی تشریف لے آئے نبی کریم ﷺچلتے ہوئے آگے بڑھے اورحجراسود کااستلام کیااوربیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے اس کے پاس سے گزرے ۔ اس دوران وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بعض باتوں میں وہ عیب نکالتے ہوئے ایک دوسرے کو اشارہ کرنے لگے کہ مجھے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے چہرہ مبارکہ پرا س کے اثرات محسوس ہوتے ۔ تین چکروں میں اسی طرح ہوا، آخرکار حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے گروہ قریش ! تم سنتے ہواس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں مجھ محمدﷺکی جان ہے میںتمھارے پاس قربانی لے کرآیاہوں ، لوگوں کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اس جملے پر بڑی شرم آئی ، ان میں سے ایک آدمی بھی ایسانہ تھاجس کے سرپرپرندے بیٹھے ہوئے محسوس نہ ہوئے ہوں ۔ حتی کہ اس سے پہلے جو آدمی انتہائی سخت تھاوہ اب بھی اچھی بات کہنے لگاکہ ابوالقاسم ﷺآپ خیروعافیت کے ساتھ تشریف لے جائیں ۔ بخداآپ ﷺناواقف نہیں ہیں۔ چنانچہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ واپس تشریف لے گئے ۔ اگلے دن وہ لوگ پھرحطیم میں جمع ہوئے ، میں بھی ان کے ساتھ تھا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ پہلے توتم نے ان سے پہنچنے والی صبرآزماباتوں کاتذکرہ کیااورجب وہ تمھارے سامنے ظاہرہوئے جو تمھیں پسندنہ تھاتوتم نے ان کو چھوڑ دیا، ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺتشریف لے آئے۔ وہ سب اکٹھے کودے اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو گھیرے میں لیکر کہنے لگے : کیاتم ہی اسی طرح کہتے ہو؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: ہاں۔ میں ہی اس طرح کہتاہوں ، راوی کہتے ہیںکہ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھاکہ اس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی چادرکو گردن سے پکڑلیااورگھوٹناشروع کردیا، یہ دیکھ کرحضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو بچانے کے لئے کھڑے ہوئے ، وہ روتے ہوئے کہتے جارہے تھے ، کیاتم ایک آدمی کوصرف اس وجہ سے قتل کردوگے کہ وہ کہتاہے کہ میرارب اللہ تعالی ہے ، اس پروہ لوگ واپس چلے گئے ، یہ سخت سے سخت دن تھا، جس میں قریش کی جانب سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو اتنی سخت اذیت پہنچی تھی ۔
( صحیح ابن حبان:محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التمیمی(۱۴:۵۲۵)

اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ وہ لوگ جو بتوں کی پوجاکرتے اوربتوں کو کعبہ مشرفہ میں رکھ کرکعبہ مشرفہ کی توہین کے مرتکب ہوتے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکو اذیتیں دیتے ، اورکعبہ مشرفہ کابے لباس طواف کرتے اورکعبہ مشرفہ کے طواف کے دوران سیٹیاں بجاتے ، پیداہوتے ہی بچی کو زندہ درگورکرتے ۔ جب ان کو ان کی ان خباثتوں پر اسلام نے پکڑاتو چیخنے لگے ۔

کسی کاراستہ بندکرناکیسا؟

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ ثُمَّ قَالَ سُفْیَانُ:الَّذِی سَمِعْنَاہُ مِنْہُ عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ،لَا أَدْرِی عَمَّنْ سُئِلَ سُفْیَانُ: عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ أُثَالٍ؟ فَقَالَ :کَانَ الْمُسْلِمُونَ أَسَرُوہُ،أَخَذُوہُ، فَکَانَ إِذَا مَرَّ بِہِ قَالَ:مَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَۃُ؟ قَالَ: إِنْ تَقْتُلْ، تَقْتُلْ ذَا دَمٍ،وَإِنْ تُنْعِمْ، تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ،وَإِنْ تُرِدْ مَالًا، تُعْطَ مَالًاقَالَ:فَکَانَ إِذَا مَرَّ بِہِ قَالَ:مَا عِنْدَکَ یَا ثُمَامَۃُ؟ قَالَ:إِنْ تُنْعِمْ، تُنْعِمْ عَلَی شَاکِرٍ،وَإِنْ تَقْتُلْ،تَقْتُلْ ذَا دَمٍ،وَإِنْ تُرِدِ الْمَالَ،تُعْطَ الْمَالَ قَالَ:فَبَدَا لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَطْلَقَہُ،وَقَذَفَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی قَلْبِہِ، قَالَ:فَذَہَبُوا بِہِ إِلَی بِئْرِ الْأَنْصَارِ،فَغَسَلُوہُ، فَأَسْلَمَ، فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ، أَمْسَیْتَ وَإِنَّ وَجْہَکَ کَانَ أَبْغَضَ الْوُجُوہِ إِلَیَّ،وَدِینَکَ أَبْغَضَ الدِّینِ إِلَیَّ، وَبَلَدَکَ أَبْغَضَ الْبُلْدَانِ إِلَیَّ،فَأَصْبَحْتَ،وَإِنَّ دِینَکَ أَحَبُّ الْأَدْیَانِ إِلَیَّ،وَوَجْہَکَ أَحَبُّ الْوُجُوہِ إِلَیَّ لَا یَأْتِی قُرَشِیًّا حَبَّۃٌ مِنَ الْیَمَامَۃِ،حَتَّی قَالَ عُمَرُ:لَقَدْ کَانَ وَاللَّہِ،فِی عَیْنِی أَصْغَرَ مِنَ الْخِنْزِیرِ،وَإِنَّہُ فِی عَیْنِی أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ خَلَّی عَنْہُ،فَأَتَی الْیَمَامَۃَ،حَبَسَ عَنْہُمْ،فَضَجُّوا وَضَجِرُوا،فَکَتَبُوا:تَأْمُربِالصِّلَۃِ؟ قَالَ:وَکَتَبَ إِلَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ اہل اسلام نے ثمامہ بن آثال نامی ایک شخص کو جو اپنے قبیلے میں بڑامعززاورمالدارآدمی تھا، گرفتارکرکے قیدکرلیا، جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺاس کے پاس سے گزرے توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس سے پوچھاکہ ثمامہ کیاارادہ ہے؟ تواس نے کہاکہ اگرآپ ﷺمجھے قتل کردیں گے توایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کاخون قیمتی ہے ۔ اگرآپ ﷺمجھ پر احسان کریں گے تو ایک شکرگزارپراحسان فرمائیں گے ۔اگرآپ ﷺکو مال ودولت درکارہوتو وہ آپ ﷺکو مل جائے گا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاجب بھی اس کے پاس سے گزرہوتا، تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺاس سے مذکورہ بالاسوال کرتے اوروہ حسب سابق وہی جواب دے دیتا۔ ایک دن اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دل میں یہ بات ڈالی اورآپ ﷺکی رائے یہ ہوئی کہ اسے چھوڑدیاجائے ، چنانچہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اسے آزادکردیا۔ لوگ اس کی درخواست پر انصارکے کنویں کے پاس لے گئے اوراسے غسل دلوایا، پھراس نے اسلام قبول کرلیا۔ اورکہنے لگا: یارسول اللہ ﷺ! کل شام تک میری نگاہوںمیں آپ سے بڑھ کرکوئی بھی ناپسندیدہ نہیں تھااورآپ ﷺکے دین سے زیادہ کوئی دین اورآپ ﷺکے شہرسے زیادہ کوئی شہرناپسندنہیں تھااوراب آپ ﷺکادین میری نگاہوں میں تمام ادیان سے زیادہ اورآپ ﷺکاچہرہ تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہوگیاہے ۔ آج کے بعد یمامہ سے غلے کاایک دانہ بھی قریش کے پاس نہیں پہنچے گا۔ یہاں تک کہ حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: بخدا! یہ میری نگاہوں میں خنزیرسے زیادہ حقیرتھااوراب پہاڑ سے بھی زیادہ عظیم ہے اوراس کاراستہ چھوڑدیا، چنانچہ ثمامہ رضی اللہ عنہ نے یمامہ پہنچ کرقریش کاغلہ روک لیا، جس سے قریش کی چیخیں نکل گئیں اورسخت پریشان ہوگئے ، مجبورہوکرانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت میں یہ خط لکھا، ثمامہ کو مہربانی اورنرمی کرنے کاحکم دیں ۔ چنانچہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس نوعیت کاایک خط لکھ دیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۲:۳۱۷)
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ اگرکسی شخص کو دین کی بات سمجھ نہ آئے تواس کے راستے کوبند کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت کریمہ ہے ۔ اورراستہ بندہونے پر چیخناصرف کفارکا طریقہ ہے۔

Leave a Reply