مزار کی تعمیر کا اہم مسئلہ از مفتی محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

مزار کی تعمیر کا اہم مسئلہ از مفتی محمد نظام الدین قادری دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

حضرت مفتی صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

عرض ییہ ہے کہ ایک شہید بزرگ کے مزار کی تعمیر کا آغاز ہوا اور بنیاد کی کھدائی کے دوران بہت ہڈیاں کھوپڑی دیگر اجزاء نکل رہےہیں کام کرنے اور کام کروانے والے دہشت زدہ ہیں

مگر کسی کو معلوم نہیں کہ کب لوگ دفن ہوئے نہ ہی وہاں عام قبرستان ہی کسی کے علم ہے

صرف شہید کے۔ بارے میں متواتر کے طور پر شنیدہ معلومات ہے

صورت مسئولہ میں

مزار کی تعمیر کیسے ہو رھنمائی فرماکر مشکور ماجور ہوں

فقط

والسلام

محمد سعید نورانی

الجواب، اللہم ہدایة الحق والصواب: صورتِ مسئولہ میں اگر وہ زمین کسی شخص خاص کی مملوکہ نہیں ہے تو ظاہر یہ ہے کہ قبرستان کی زمین رہی ہوگی اور اس صورت میں قبروں کے اوپر مزار تعمیر نہ کیا جائے۔ہاں! اگر زمین کشادہ ہو اور ہڈی برآمد ہونے والی زمین کے حصہ سے دور قائم پایوں پر مزار تعمیر ہو اور جہاں جہاں ہڈیاں نکل رہی ہیں اس کو مسقف کردیا جائے تو ایسا کیا جاسکتا ہے۔

اور اگر وہ زمین کسی شخص خاص کی مملوکہ ہو تب بھی اجزائے بدن برآمد ہونے والے حصہ پر دیوار یا پایہ کھڑا کرنا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ محبوبانِ خدا کے قرب میں دفن ہونا عام طور پر مسلمان ہی پسند کرتا ہے اور مسلمان کے فعل کو فقہی ضابطہ کے مطابق صحت وسداد پر محمول کیا جاتا ہے اس لیے ظاہر یہی ہے کہ وقتِ دفن جو اس زمین کا مالک رہا ہوگا اس کی اجازت سے دفن کیا گیا ہوگا۔اور ایسی صورت میں مالکِ زمین کو بھی اس حصہء قبر کی زمین میں کاشتکاری یا تعمیر کی اجازت نہیں۔

اور اگر یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ مملوکہ زمین میں برآمد ہڈیاں بلا اجازتِ اصل مالک دفن کیے جانے والے مردوں کی ہیں۔ تب بھی مسلم میت کے احترام کی نیت سے اگر اس جگہ دیوار یا پائے نہ بنائے جائیں ان سے ہٹ کر بنائے جائیں۔ تو عظیم اجر وثواب کی امید ہے۔لیکن اس صورت میں اصل مالک زمین کو تعمیر کی گنجائش ہے۔

اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:

"جو قبر ظلماً بلا اجازت مالک بنالی جائے اس کے لیے کچھ حق نہیں۔لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لیس لعرق ظالم حق ۔

علماء اجازت دیتے ہیں کہ چاہے میّت کو نکلوادے’ چاہے یوں ہی زمین اپنے تصرف میں لائے ۔درمختار میں ہے:یخیر المالک بین اخراجہ ومساواتہ بالارض۔

صفوفِ نماز کی شرعاً کس قدر حرمت وتعظیم ہے، مگر جو صفیں قبل تمامی صف اول کرلی جائیں، حدیث وفقہ حکم فرماتے ہیں کہ ان صفوں کو چیرتے ہوئے جاکر صفِ اوّل پوری کریں کہ خلاف شرع قائم ہونے کے سبب ان کی حرمت نہیں، یہ حق ﷲ میں ہے ۔ حق العبد تو اشدّ ہے۔ پھر بھی اگر صاحبِ حق اس کا لحاظ کرکے اپنے حق سے درگزر کرے کہ مردہ بدست زندہ ، اس نے خود قصور نہ کیا۔ تو امید ہے کہ حق سبحٰنہ وتعالٰی اُسے اجر عظیم فرمائے گا” (فتاوی رضویہ ج۴ص١٠٩)

نیز تحریر فرماتے ہیں:

” کسی قبر پر کوئی پایہ چننا جائز نہیں”

اسی فتوی میں آپ نے بزرگوں کے لیے مزار بنانے کے جواز کا بھی حکم تحریر فرمایا ہے۔

(دیکھیے فتاوی رضویہ ج۴ ص١١٣) ھذا ما ظھر لی واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کتبہ : محمد نظام الدین قادری: خادم درس وافتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی۔یوپی۔

٢٨/ذی الحجہ١۴۴٢ھ//٨/اگست ٢٠٢١ء

Leave a Reply