حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخوں اوردشمنوں کے قتل پر خوش ہونا

حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخوں اوردشمنوں کے قتل پر خوش ہونا

فرعون کے غرق ہونے پر روزہ رکھنا
حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنِ أَبِی سَہْلٍ قَالَ:حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ، فَوَجَدَ الْیَہُودَ صُیَّامًا، فَقَالَ:مَا ہَذَا؟ قَالُوا:ہَذَا یَوْمٌ أَنْجَی اللَّہُ فِیہِ مُوسَی، وَأَغْرَقَ فِیہِ فِرْعَوْنَ، فَصَامَہُ مُوسَی شُکْرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ، فَصَامَہُ، وَأَمَرَ بِصِیَامِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺجب مدینہ منور میں تشریف لائے توآپﷺ نے ملاحظہ فرمایاکہ یہودی عاشوراء کے دن کاروزہ رکھتے ہیں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ کس لئے روزہ رکھتے ہو؟انہوںنے کہا: اس دن اللہ تعالی نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو نجات عطافرمائی اورفرعون کو غرق فرمایاتوحضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کے لئے بطور شکر روزہ رکھا،تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: حضرت موسی علیہ السلام پر تم سے زیادہ ہماراحق ہے ،پھررسول اللہ ﷺنے خود بھی روزہ رکھااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کاحکم دیا۔
(سنن ابن ماجہ: ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۵۵۲)

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اپنے دشمن فرعون کے غرق ہونے پر اوراپنے نجات پانے پر اللہ تعالی کاشکر اداکرتے ہوئے روزہ رکھااوروہ روزہ آپ علیہ السلام کے وصال شریف کے بعد بھی ان کے ماننے والے رکھتے رہے ،یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺنے ان کو ملاحظہ فرمایااورپھرخود بھی حضور تاجدار ختم نبوتﷺ نے روزہ رکھااوراپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا۔اس حدیث شریف سے ثابت ہواکہ فرعو ن کے غرق ہونے پر اللہ تعالی کاشکراداکرنااوراس پر خوش ہونایہ حضرت سیدناموسی علیہ اسلام کی سنت ہے اوراللہ تعالی کے پاک نبی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے گستاخ اوردشمن یعنی فرعون کے غرق ہونے پر شکر کرنارسول اللہ ﷺکی بھی سنت ہے ، اب آپ خود غورکریں جب حضور تاجدار ختم نبوتﷺحضرت سیدناموسی علیہ السلام کے گستاخ کے تباہ وبرباد ہونے کی خوشی میں روزہ رکھ رہے ہیں توآپ ﷺ اپنے دشمن اوراپنے گستاخ کے قتل پر خوش نہیں ہوں گے ؟

حضرت نوح علیہ السلام کاشکرانے کے طورپر روزہ رکھنا

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: مَرَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأُنَاسٍ مِنَ الْیَہُودِ وَقَدْ صَامُوا یَوْمَ عَاشُورَاء َ فَقَالَ:مَا ہَذَا مِنَ الصَّوْمِ؟ فَقَالُوا:ہَذَا الْیَوْمُ الَّذِی نَجَّی اللَّہُ مُوسَی وَبَنِی إِسْرَائِیلَ مِنَ الْغَرَقِ، وَغَرِقَ فِیہِ فِرْعَوْنُ، وَہَذَا یَوْمٌ اسْتَوَتْ فِیہِ السَّفِینَۃُ عَلَی الْجُودِیِّ، فَصَامَ نُوحٌ وَمُوسَی شُکْرًا لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ. فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَحَقُّ بِمُوسَی وَأَحَقُّ بِصَوْمِ ہَذَا الْیَوْمِ ۔ فَأَمَرَ أَصْحَابَہُ بِالصَّوْمِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺیہودیوں کے پاس سے گزرے تو وہ عاشوراء کے دن کاروزہ رکھتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺنے ان کو فرمایا: تم کس چیز کاروزہ رکھتے ہو؟ انہوںنے کہا: اس دن اللہ تعالی نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام اوربنی اسرائیل کو غرق ہونے سے نجات عطافرمائی تھی اوراسی دن اللہ تعالی نے فرعون کو غرق فرمایاتھااوراسی دن حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی ،اسی دن حضرت سیدنانوح علیہ السلام اورحضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کاشکر اداکرتے ہوئے روزہ رکھاتھا، رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا: حضرت سیدناموسی علیہ السلام پر ہمارازیادہ حق ہے ،پھررسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روزہ رکھنے کاحکم دیا۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: أبو الحسن نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (۳:۱۸۴)

سجدہ شکر کب کیاکرتے تھے ؟

حَدَّثَنَا عَبْدَۃُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ الْخُزَاعِیُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ یُوسُفَ السُّلَمِیُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ بَکَّارِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أَتَاہُ أَمْرٌ یَسُرُّہُ أَوْ بُشِّرَ بِہِ، خَرَّ سَاجِدًا، شُکْرًا لِلَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ ﷺکے پاس کوئی خوشی والی بات پہنچتی یاکوئی خوشخبری دی جاتی توفوراً اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے اوراللہ تعالی کاشکربجالاتے تھے ۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۴۴۶)

دشمن کی شکست پر سجدہ شکر کرتے تھے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِکِ الْحَرَّانِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَکَرَۃَ بَکَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ أَبِی بَکَرَۃَ، قَالَ:سَمِعْتُ أَبِی، یُحَدِّثُ عَنْ أَبِی بَکَرَۃَ، أَنَّہُ شَہِدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتَاہُ بَشِیرٌ یُبَشِّرُہُ بِظَفَرِ جُنْدٍ لَہُ عَلَی عَدُوِّہِمْ، وَرَأْسُہُ فِی حِجْرِ عَائِشَۃَ فَقَامَ فَخَرَّ سَاجِدًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ سے سناکہ وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرتھا،رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں ایک شخص یہ خوشخبری لایاکہ اہل اسلام کو اللہ تعالی نے دشمنوں پر فتح عطافرمائی ہے ،جب یہ خبرآئی تو اس وقت رسول اللہ ﷺحضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی گود میں سررکھ کرآرام فرمارہے تھے فوراً اٹھے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ شکر اداکیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۴:۱۰۶)
جب رسول اللہ ﷺکادشمن ہزیمت اٹھائے تو رسول اللہ ﷺخوش ہوتے ہیں جب آپ ﷺکادشمن قتل ہوگاتو خود غورکروآپ ﷺکو کتنی خوشی ہوگی ؟

کافرکے قتل پر رسول اللہ ﷺکاخوشی سے مسکرانا

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ یَعْنِی ابْنَ إِسْمَاعِیلَ، عَنْ بُکَیْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ لَہُ أَبَوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ:کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ارْمِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی قَالَ فَنَزَعْتُ لَہُ بِسَہْمٍ لَیْسَ فِیہِ نَصْلٌ، فَأَصَبْتُ جَنْبَہُ فَسَقَطَ، فَانْکَشَفَتْ عَوْرَتُہُ فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَی نَوَاجِذِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ ﷺنے ان کے لئے اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا، مشرکین میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلادیاتھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے سعد ! میرے ماں باپ تجھ پر فداہوں تیرمارو۔ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے بغیرپرتیرلیکرماراجس سے وہ گرپڑا،تواس کی شرمگاہ کھل گئی ،رسول اللہﷺاتناہنسے کہ آپ ﷺ کی مبارک داڑھیں نظرآگئیں ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۸۷۶)

امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں
وَقَوْلُہُ فَضَحِکَ أَیْ فَرَحًا بِقَتْلِہِ عَدُوَّہُ لَا لِانْکِشَافِہِ۔
ترجمہ :امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کی حدیث شریف میں جو یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ مسکرائے ،اس میں رسول اللہ ﷺاس کے قتل پر مسکرائے ہیں نہ کہ اس کے تہبندکھلنے اوراس کی شرمگاہ کے ننگے ہونے پر ۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۱۵:۱۸۵)
رسول اللہ ﷺکامشرکین کی ذلت پر خوش ہونا
قال السدی فرح النبی صلی اللہ علیہ وسلم بظہورہم علی المشرکین یوم بدر وظہور اہل الکتاب علی اہل الشرک۔
ترجمہ :السدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ جب اہل اسلام بدرمیں مشرکین پر غالب آئے اوراہل کتاب مشرکین پر غالب آئے تورسول اللہ ﷺبہت خوش ہوئے ۔
(لباب التأویل علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۳:۳۴۷)

گستاخ کے قتل پر رسول اللہ ﷺنے نعرے لگائے

قَالَ الْوَاقِدِیُّ:حَدَّثَنِی ابْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ:اللہُمَّ اکْفِنِی نَوْفَلَ بْنَ خُوَیْلِدٍ ، ثُمَّ ذَکَرَ الْحَدِیثَ فِی قَتْلِہِ قَالَ:فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَہُ عِلْمٌ بِنَوْفَلِ بْنِ خُوَیْلِدٍ؟ فَقَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ: أَنَا قَتَلْتُہُ، قَالَ:فَکَبَّرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَجَابَ دَعْوَتِی فِیہِ۔
ترجمہ :امام واقد ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں کہ مجھے ابن راشد نے زہری رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے بدرکے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : اے اللہ! نوفل کے قتل پر میری مددفرما۔ پھررسول اللہ ﷺنے فرمایا: کسی کو نوفل کے متعلق علم ہے ؟ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ عرض گزارہوئے: یارسول اللہ ﷺ!میں نے اس کو قتل کردیاہے ، رسول اللہ ﷺنے فوراً نعرہ تکبیرہ بلندکیااوریہ فرمایا: تمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے میری دعاکو قبول فرمایا۔
(دلائل النبوۃ:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۹۴)
اب غورکریں گستاخ کے قتل پر رسول اللہ ﷺنعرہائے تکبیرلگارہے ہیں اورخوشی کس چیز کانام ہے ؟

ابوجہل کے قتل پر رسول اللہ ﷺکاسجدہ شکرکرنا

قال ابن مسعود:ثم حززت رأسہ، ثم جئت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت:یا رسول اللہ ہذا رأس عدوّ اللہ أبی جہل، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اللہ الذی لا إلہ إلا ہو؟ وفی لفظ:الذی لا إلہ غیرہ، فاستحلفنی ثلاث مرات فألقیت رأسہ بین یدیہ، فقال:الحمد للہ الذی أعزّ الإسلام وأہلہ ، ثلاث مرات، وخرّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساجدا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ابوجہل کے قتل کے بعد میں نے اس کاسرکاٹا،پھررسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! یہ ہے اللہ تعالی کے دشمن کاسر ۔رسول اللہ ﷺنے فرمایاـ: اللہ تعالی وہ ہے جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے ۔دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھ سے تین بار ابوجہل کے قتل کے بارے میں حلف لیاکہ واقعی وہ قتل ہوگیاہے؟پھرمیںنے اس کاسررسول اللہ ﷺکی خدمت میں پیش کردیاتورسول اللہ ﷺنے اللہ تعالی کاشکر اداکیااورفرمایا: تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے اسلام اوراہل اسلام کو عزت دی ، رسول اللہ ﷺنے تین بار شکر کیا،اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ شکرکیا۔
(سبل الہدی والرشاد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۴:۵۱)

ابوجہل کے قتل پر دونفل شکرانے کے اداکئے

حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَۃُ بْنُ رَجَاء ٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِی شَعْثَاء ُ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی أَوْفَی، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی یَوْمَ بُشِّرَ بِرَأْسِ أَبِی جَہْلٍ رَکْعَتَیْنِ۔
ترجمہ :ہمیں ابوبشربکربن خلف نے بیان کیا، انہوںنے کہا: ہمیں سلمہ بن رجاء نے یہ حدیث شریف بیان کی ، انہوںنے کہا: مجھے شعثاء بن عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کی ، وہ فرماتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ ﷺکو ابوجہل کے قتل کی خوشخبری ملی اس دن رسول اللہ ﷺنے دونفل اداکئے تھے ۔
(سنن ابن ماجہ: ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۴۴۵)

کفارکے قتل پر صحابہ کرام کامبارک باد دینا

قَالَ الْوَاقِدِیُّ:َ وَلَقِیَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الروحاء رؤوس النَّاسِ یُہَنِّئُونَہُ بِمَا فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِ.
فَقَالَ لَہُ أُسَیْدُ بْنُ الْحُضَیْرِ: یَا رَسُولَ اللَّہِ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَظْفَرَکَ وَأَقَرَّ عَیْنَکَ۔
ترجمہ :امام واقد ی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب واپس تشریف لارہے تھے تو مقام روحاء پر پہنچے تولوگ مبارک باد دینے کے لئے حاضرہوئے ، حضرت سیدنااسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!تمام تعریفیںاللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے آپ ﷺکو فتح عطافرمائی اورآپ ﷺکی آنکھوں کو ٹھنڈاکیا۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۳:۳۷۱)

کفارکے قتل پر مدینہ منورہ میں جشن
َ

وَقَدِمَ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ عَلَی نَاقَۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْقَصْوَاء ِ یُبَشِّرُ أَہْلَ الْمَدِینَۃِ، فَلَمَّا جَاء َ الْمُصَلَّی صَاحَ عَلَی رَاحِلَتِہِ: قُتِلَ عُتْبَۃُ وَشَیْبَۃُ ابْنَا رَبِیعَۃَ، وَابْنَا الْحَجَّاجِ، وَقُتِلَ أُمَیَّۃُ بْنُ خَلَفٍ وَأَبُو جَہْلٍ وَأَبُو الْبَخْتَرِیِّ وَزَمْعَۃُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَأُسِرَ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو ذُو الْأَنْیَابِ فِی أَسْرَی کَثِیرٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدنازید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے مدینہ منورہ کی طرف روانہ فرمایااورحضرت سیدنازید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی اونٹنی القصواء پر سوارہوکر مدینہ منورہ پہنچے اوراہل مدینہ کو خوشخبری سنائی اورجب عیدگاہ کے قریب آئے توآپ رضی اللہ عنہ نے بآواز بلندفرمایا: عتبہ ،شیبہ،اورحجاج کے دونوں بیٹے قتل ہوئے امیہ بن خلف اورابوجہل اورابوالبختری ،زمعہ بن الاسود قتل ہوگئے ۔ اس کے بعد آپ نے جو لوگ قید ہوئے تھے ان کے بھی نام لئے ۔
(البدایۃ والنہایۃ: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۳:۳۷۱)

کافرکاسرنیزے پرلٹکایاگیا

عن مُحَمَّدبن یحیی القطعی، حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عبد الرحمن، حدثنی أبی، عن صالح بن خَوَّاتٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ: إنَّ أَوَّلَ رَأْسٍ عُلِّقَ فِی الْإِسْلَامِ رَأْسُ أَبِی عَزَّۃَ الْجُمَحِیِّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ عُنُقَہُ، ثُمَّ حَمَلَ رَأْسَہُ عَلَی رُمْحٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِہِ إلَی الْمَدِینَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس کاسرلٹکایاگیاوہ ابوعزہ کاسر تھا، رسول اللہ ﷺنے اس کی گردن ماری پھراس کاسر نیزے پر لٹکادیاپھراس کو مدینہ منورہ بھیج دیا۔
(التلخیص الحبیر :أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۴:۲۸۷)

دشمن کاسرلانے پر انعام مقررفرمایا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّہِ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أُسَامَۃَ، عَنْ بَشِیرِ بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، قَالَ:لَقِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَدُوَّ فَقَالَ:مَنْ جَاء َ بِرَأْسٍ فَلَہُ عَلَی اللَّہِ مَا تَمَنَّی ،فَجَاء َ رَجُلَانِ بِرَأْسٍ فَاخْتَصَمَا فِیہِ فَقَضَی بِہِ لِأَحَدِہِمَا، فَقَالَ: تَمَنَّ عَلَی اللَّہِ مَا شِئْتَ،قَالَ: أَتَمَنَّی سَیْفًا صَارِمًا حَتَّی أُقْتَلَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابونضرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضور تاجدار ختم نبوتﷺکے سامنے ایک بار دشمن آگیاتو حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے فرمایا: جو شخص اس کاسرلائے گااللہ تعالی اس کو وہ چیز عطافرمائے گا جس کی وہ خواہش کرے گا، راوی فرماتے ہیںکہ دوشخص وہ سرلے کر آئے اوردونوں کادعوی تھاکہ اس کومیںنے قتل کیاہے ، حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے ایک کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہوئے ارشادفرمایاکہ تم کیاچاہتے ہو؟ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺمیں یہ تمناکرتاہوں کہ ایک کاٹنے والی تلوار ہومیرے پاس اورمیں جہاد کرتاہوااللہ تعالی کی راہ میں شہید ہوجائوں ۔
(المراسیل:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (۱:۲۳۰)

یمن سے لشکرروانہ ہوا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ، ثنا إِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ الرَّمْلِیُّ، ثنا ضَمْرَۃُ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السِّیبْنَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الدَّیْلَمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: أَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَأْسِ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِیِّ الْکَذَّابِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللہِ، قَدْ عَلِمْتَ مَنْ نَحْنُ؟ وَمِنْ أَیْنَ نَحْنُ؟ وَإِلَی مَنْ نَحْنُ؟ قَالَ: إِلَی اللہِ، وَإِلَی رَسُولِہِ وَرَوَاہُ الْأَوْزَاعِیُّ، وَإِسْمَاعِیلُ بْنُ عَیَّاشٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السِّیبَنَانِیِّ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنافیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اسودعنسی کذاب کاسرلیکر حضور تاجدار ختم نبوتﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ!کیاآپ جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں اورکہاں سے آئے ہیں اورکس کی طرف آئے ہیں ؟ حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے فرمایا: تم اللہ تعالی اوراس کے رسول (ﷺ) کے لئے گھرسے نکلے ہواوراسی کے لئے سفرکیاہے اوراللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی طرف ہی آئے ہو۔
(معرفۃ الصحابۃ: أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۴:۲۲۹۷)

فیروز کامیاب ہوگیا

عن ابن عمر قال: أتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الخبر من السماء اللیلۃ التی قتل فیہا الأسود العنسی فخرج علینا فقال قتل الأسود البارحۃ قتلہ رجل مبارک من أہل بیت مبارکین قیل ومن ہو قال فیروز فاز فیروز۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جس رات الاسود العنسی کو قتل کیاگیااسی رات حضور تاجدار ختم نبوتﷺکو اللہ تعالی نے خبردی ، پھررسول اللہ ﷺہمارے پاس تشریف لائے اورفرمایا: آج رات ایک مبارک شخص جو کہ مبارک لوگوں سے تعلق رکھتاہے نے الاسود کو قتل کردیاہے ، اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا: فیروز کامیاب ہوگیاہے ۔
(جامع الأحادیث :عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۳۶:۲۵۴)

گستاخ کاسر حضور تاجدار ختم نبوتﷺکی خدمت میں حاضرکردیا

حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْبَاقِی، ثَنَا أَبُو عُمَیْرِ بْنُ النَّحَّاسِ، ثَنَا ضَمْرَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ أَبِی عَمْرٍو السَّیْبَانِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ فَیْرُوزَ الدَّیْلَمِیِّ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ: أَتَیْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَأْسِ الْعَنْسِیِّ الْکَذَّابِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن فیروز رضی اللہ عنہمااپنے والد ماجد حضرت سیدنافیروز رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیںکہ ہم رسول اللہ ﷺکی خدمت میں الاسود العنسی الکذاب کاسر لے کرآئے تھے۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۸:۳۳۰)

کفارکی شکست پر حضور تاجدار ختم نبوتﷺکاخوش ہونا

حَدَّثَنَا طَارِقُ بْنُ عَبد الرَّحْمَنِ عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ عَنْ جَرِیرٍ قَال: لَمَّا أُتِیَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِفَتْحِ ذِی الْخَلَصَۃِ خَرَّ سَاجِدًا.
ترجمہ :حضرت سیدناجریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ جب حضور تاجدار ختم نبوتﷺکوذوالخلصہ میں کفارکی شکست کی خبردی گئی تو حضور تاجدار ختم نبوتﷺ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ شکراداکیا۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال: أبو أحمد بن عدی الجرجانی (۳:۱۱۱)

دشمن ِ خداکی ذلت پرحضورتاجدارختم نبوتﷺکامسکرانا

قَالَ عَبْدُ اللہِ، بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ الْحَجَّاجِ النَّاجِیُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاہِرِ بْنُ السَّرِیِّ، عَن ابْنٌ لِکِنَانَۃَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ أَبَاہُ الْعَبَّاسَ بْنَ مِرْدَاسٍ حَدَّثَہُ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعَا عَشِیَّۃَ عَرَفَۃَ، لِأُمَّتِہِ بِالْمَغْفِرَۃِ، وَالرَّحْمَۃِ فَأَکْثَرَ الدُّعَاء َ، فَأَجَابَہُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ:أَنْ قَدْ فَعَلْتُ، وَغَفَرْتُ لِأُمَّتِکَ إِلَّا مَنْ ظَلَمَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، فَقَالَ: یَا رَبِّ إِنَّکَ قَادِرٌ أَنْ تَغْفِرَ لِلظَّالِمِ، وَتُثِیبَ الْمَظْلُومَ خَیْرًامِنْ مَظْلَمَتِہ، فَلَمْ یَکُنْ فِی تِلْکَ الْعَشِیَّۃِ، إِلَّا ذَا فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ دَعَا غَدَاۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ، فَعَادَ یَدْعُو لِأُمَّتِہِ، فَلَمْ یَلْبَثِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَبَسَّمَ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِہِ: یَا رَسُولَ اللہِ، بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، ضَحِکْتَ فِی سَاعَۃٍ لَمْ تَکُنْ تَضْحَکُ فِیہَا، فَمَا أَضْحَکَکَ، أَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ قَالَ: تَبَسَّمْتُ مِنْ عَدُوِّ اللہِ إِبْلِیسَ، حِینَ عَلِمَ أَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ لِی فِی أُمَّتِی، وَغَفَرَ لِلظَّالِمِ، أَہْوَی یَدْعُو بِالثُّبُورِ وَالْوَیْلِ، وَیَحْثُو التُّرَابَ عَلَی رَأْسِہِ، فَتَبَسَّمْتُ مِمَّا یَصْنَعُ جَزَعُہُ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعباس بن مرداس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے عرفہ کی رات اپنی امت کے لئے کثرت کے ساتھ مغفرت اوررحمت کی دعاکی ،اللہ تعالی نے رسول اللہ ْﷺکو جواب دیاکہ میں نے آپ ﷺ کی دعاقبول فرمالی ہے اورآپ ﷺکی امت کو بخش دیاہے لیکن ایک دوسرے پر ظلم کرنے والوں کو معاف نہیں کروں گا، حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : مولا! تواس بات پر قادرہے کہ توظالم کو معاف فرمادے اورمظلوم کو اس پر ہونے والے ظلم کابہترین بدلہ عطافرمادے ، اس رات حضور تاجدار ختم نبوتﷺ یہی دعاکرتے رہے ، اگلے دن جب حضور تاجدار ختم نبوتﷺمزدلفہ میں صبح کے وقت دعاکرنے لگے تو پھریہی دعاکی ، کچھ دیر بعد حضور تاجدار ختم نبوتﷺمسکرانے لگے ، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں ، اس وقت آپ ﷺعام طور پر مسکراتے نہیں ہیں ، اللہ تعالی آپ ﷺ کو مسکراتارکھے ، آپ ﷺ کس بات پر تبسم فرمارہے ہیں ؟ حضور تاجدار ختم نبوتﷺنے فرمایا: اللہ تعالی کے دشمن ابلیس کو دیکھ کر مسکرارہاہوں کہ جب اس کو معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے میری امت کے بارے میں میری دعاقبول فرمالی ہے اورظالم کو بھی بخشنے کاوعدہ کرلیاہے تووہ ہلاکت وبربادی پکارتاہوااورسرپر خاک ڈالتاہوابھاگ گیاتومجھے اس کی یہ ذلت والی حالت دیکھ کر ہنسی آگئی ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل: أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۶:۱۳۶)
اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے دشمنوں کی ذلت پر اوران کے رونے پر خوش ہونا حضور تاجدار ختم نبوتﷺکی سنت کریمہ ہے ۔

Leave a Reply