غزوہ تبوک کامختصرتعارف
وجہ تسمیہ:تبوک مدینہ اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ سے چودہ منزل دور ہے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ تبوک ایک قلعہ کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ تبوک ایک چشمہ کا نام ہے۔ ممکن ہے یہ سب باتیں موجود ہوں۔
جیش عسرت:یہ غزوہ سخت قحط کے دنوں میں ہوا۔ طویل سفر، ہواگرم، سواری کم، کھانے پینے کی تکلیف، لشکر کی تعداد بہت زیادہ، اس لیے اس غزوہ میں مسلمانوں کو بڑی تنگی اور تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کوجیش العسرۃ (تنگ دستی کا لشکر)بھی کہتے ہیں۔
غزوہ فاضحہ:چونکہ منافقوں کواس غزوہ میں بڑی شرمندگی اورشرمساری اٹھانی پڑی تھی۔ اس وجہ سے اس کا ایک نام غزوہ فاضحہ(رسوا کرنے والا غزوہ)بھی ہے ۔
غزوہ فتح مکہ ، حق وباطل کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس معرکے کے بعد اہلِ عرب کے نزدیک حضورتاجدارختم نبوتﷺکی رسالت میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا تھا۔ اسی لیے حالات کی رفتار یکسر بدل گئی اور لوگ اللہ تعالی کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئے۔ اور کچھ اندازہ اس تعداد سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو حجۃ الوداع میں حاضر ہوئی تھی ۔بہرحال اب اندرونی مشکلات کا تقریباً خاتمہ ہوچکا تھا اور مسلمان شریعتِ الٰہی کی تعلیم عام کرنے اور اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے یکسو ہوگئے تھے۔
غزوہ کا سبب:
مگر اب ایک ایسی طاقت کا رُخ مدینہ کی طرف ہوچکا تھا جو کسی وجہ جواز کے بغیر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کررہی تھی۔ یہ طاقت رومیوں کی تھی جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی فوجی قوت کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس چھیڑ چھاڑ کی ابتدا شُرَحْبیل بن عمرو غسانی کے ہاتھو ںحضورتاجدارختم نبوتﷺکے سفیر حضرت سیدناحارث بن عُمیر ازدی رضی اللہ عنہ کے قتل سے ہوئی جبکہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکا پیغام لے کر بصریٰ کے حکمران کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس کے بعد حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر بھیجا تھا جس نے رومیوں سے سر زمین موتہ میں خوفناک ٹکر لی۔ مگر یہ لشکر ان متکبر ظالموں سے انتقام لینے میں کامیاب نہ ہوا۔ البتہ اس نے دور ونزدیک کے عرب باشندوں پر نہایت بہترین اثر ات چھوڑے۔
قیصر روم ان اثرات کو اور ان کے نتیجے میں عرب قبائل کے اندر روم سے آزادی اور مسلمانوں کی ہم نوائی کے لیے پیدا ہونے والے جذبات کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے لیے یقینا یہ ایک’’خطرہ ‘‘ تھا ، جو قدم بہ قدم اس کی سرحد کی طرف بڑھ رہا تھا اور عرب سے ملی ہوئی سر حد شام کے لیے چیلنج بنتا جارہا تھا۔ اس لیے قیصر نے سوچا کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک عظیم اور ناقابل شکست خطرے کی صورت اختیار کرنے سے پہلے پہلے کچل دینا ضروری ہے تاکہ روم سے متصل عرب علاقوں میں’’فتنے ‘‘اور ’’ہنگامے‘‘سرنہ اٹھا سکیں۔
ان مصلحتوں کے پیش نظر ابھی جنگ ِموتہ پر ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ قیصر نے رومی باشندوں اور اپنے ماتحت عربوں یعنی آل ِ غسان وغیرہ پر مشتمل فوج کی فراہمی شروع کردی، اور ایک خونریز اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری میں لگ گیا۔
روم وغَسّان کی تیاریوں کی عام خبریں:
ادھر مدینہ میں پے در پے خبریں پہنچ رہی تھیں کہ روم مسلمانوں کے خلاف ایک فیصلہ کن معرکے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمہ وقت کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اور ان کے کان کسی بھی غیر مُعتاد آواز کو سن کر فورا ً کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ رومیوں کا ریلا آگیا۔ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کہا :ہم میں چرچا تھا کہ آلِ غسان ہم پر چڑھا ئی کرنے کے لیے گھوڑوں کو نعل لگوارہے ہیں۔
یہ پریشانی اس وقت رومیوں کی جانب سے مسلمانوں کو درپیش تھی۔ اس میں مزید اضافہ منافقین کی ان ریشہ دوانیوں سے ہوا جو انہوں نے رومیوں کی تیاری کی خبر یں مدینہ پہنچنے کے بعد شروع کیں۔ چنانچہ اس کے باوجود کہ یہ منافقین دیکھ چکے تھے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺہر میدان میں کامیاب ہیں اور روئے زمین کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے بلکہ جو رکاوٹیں آپﷺ کی راہ میں حائل ہوتی ہیں ، وہ پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ اس کے باوجود منافقین نے یہ امید باندھ لی کہ مسلمانوں کے خلاف انہوں نے اپنے سینوں میں جو دیرینہ آرزو چھپا رکھی ہے ، اور جس گردشِ دوراں کا وہ عرصہ سے انتظار کررہے ہیں ، اب اس کی تکمیل کا وقت قریب آگیا ہے۔ اپنے اسی تصور کی بناء پر انہوں نے ایک مسجد کی شکل میں (جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی )دسیسہ کاری اور سازش کا ایک بھٹ تیار کیا ، جس کی بنیاد اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ اندازی اور اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ کفر اور ان سے لڑنے والوں کے لیے گھات کی جگہ فراہم کرنے کے ناپاک مقصد پر رکھی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺسے گزارش کی کہ آپﷺ اس میں نماز پڑھ دیں۔ اس سے منافقین کا مقصد یہ تھا کہ وہ اہلِ ایمان کو فریب میں رکھیں اور انہیں پتہ نہ لگنے دیں کہ اس مسجد میں ان کے خلاف سازش اور دسیسہ کاری کی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ اور مسلمان اس مسجد میں آنے جانے والوں پر نظر نہ رکھیں۔ اس طرح یہ مسجد ، منافقین اور ان کے بیرونی دوستوں کے لیے پُر امن گھونسلے اور بھٹ کاکام دے۔ لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس ’’مسجد‘‘میں نماز کی ادائیگی کو جنگ سے واپسی تک کے لیے موخر کردیا۔ کیونکہ آپﷺ تیار ی میں مشغول تھے۔ اس طرح منافقین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ تعالی نے ان کا پردہ واپسی سے پہلے ہی چاک کردیا۔ چنانچہ آپ ﷺنے غزوے سے واپس آکر اس مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے اسے منہدم کرادیا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف سے ایک قطعی اقدام کا فیصلہ :
لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺحالات وتغیرات کا مطالعہ کہیں زیادہ دقت ِ نظر سے فرمارہے تھے۔ آپﷺسمجھ رہے تھے کہ اگر آپﷺنے ان فیصلہ کن لمحات میں رومیوں سے جنگ لڑنے میںپس وپیش سے کام لیا ، رومیوں کو مسلمانوں کے زیر اثر علاقوں میں گھسنے دیا ، اور وہ مدینہ تک بڑھ اور چڑھ آئے تو اسلامی دعوت پر اس کے نہایت بُرے اثرات مرتب ہوں گے۔ مسلمانوں کی فوجی ساکھ اکھڑ جائے گی اور وہ جاہلیت جو جنگِ حنین میں کاری ضرب لگنے کے بعد آخری دم توڑ رہی ہے ، دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔ اور منافقین جو مسلمانوں پر گردش ِ زمانہ کا انتظار کررہے ہیں ، اور ابو عامر فاسق کے ذریعہ شاہ روم سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں ، پیچھے سے عین اس وقت مسلمانوں کے شکم میں خنجر گھونپ دیں گے ، جب آگے سے رومیوں کا ریلا ان پر خونخوار حملے کررہا ہوگا۔ اس طرح وہ بہت ساری کوشش رائیگاں چلی جائیں گی جو آپﷺ نے اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کی تھیں۔ اور بہت ساری کامیابیاں ناکامی میں تبدیل ہوجائیں گی جو طویل اور خونریز جنگوں اور مسلسل فوجی دوڑ دھوپ کے بعد حاصل کی گئی تھیں۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺان نتائج کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ ا س لیے عُسرت وشدت کے باوجود آپﷺنے طے کیا کہ رومیوں کودار الاسلام کی طرف پیش قدمی کی مہلت دیے بغیر خود ان کے علاقے اور حدود میں گھس کر ان کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنی ہے۔
رومیوں سے جنگ کی تیاری کا اعلان:
یہ معاملہ طے کر لینے کے بعد آپﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اعلان فرمادیا کہ لڑائی کی تیاری کریں۔ قبائل عرب اور اہلِ مکہ کو بھی پیغام دیا کہ لڑائی کے لیے نکل پڑیں۔ آپﷺکا دستور تھا کہ جب کسی غزوے کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا توریہ کرتے۔ لیکن صورت حال کی نزاکت اور تنگی کی شدت کے سبب اب کی بار آپﷺنے صاف صاف اعلان فرمادیا کہ رومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے تاکہ لوگ مکمل تیاری کرلیں۔ آپﷺنے اس موقع پر لوگوں کو جہاد کی ترغیب بھی دی۔ اور جنگ ہی پر ابھارنے کے لیے سورہ توبہ کا بھی ایک ٹکڑا نازل ہوا۔ ساتھ ہی آپﷺنے صدقہ وخیرات کر نے کی فضیلت بیان کی اور اللہ تعالی کی راہ میں اپنا نفیس مال خرچ کر نے کی رغبت دلائی۔
غزوہ تبوک میں آنے والی مشکلات کے اسباب:
غزوہ تبوک کے وقت جو مشکلات اور تنگیاں آئیں ، اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں :
(۱)… پھل پک چکے تھے ، کاٹنے کا وقت آگیا تھا ، یہ معمول ہے کہ جب نیا پھل آنے والا ہو تو پرانا ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ۔ لیکن جنگ کی وجہ سے مسلمانوں کو پھل کاٹنے کا موقعہ ہی نہ ملا ۔
(۲)… تبوک کا فاصلہ بہت زیادہ تھا ، اس سے پہلے جنگ کے لیے اتنا لمبا سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ، مسلمان اندرون جزیرہ عرب ، سازشوں سے نپٹ کر سکون کا سانس لے رہے تھے ، یہ امید ہی نہ تھی کہ اچانک جنگ کے لیے اتنی دور جانا پڑے گا ۔
(۳)… پہلے سے جو مال غنیمت ، ہیرے جواہرات ، مال و زر وغیرہ تھا ، حضورتاجدارختم نبوتﷺ اور آپﷺ کی پیروی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسے خرچ کردیا کرتے تھے ، اس وجہ سے سابقہ جنگوں میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کسی قومی خزانے کی زینت بننے کی بجائے ، اللہ کی راہ میں غریبوں مسکینوں اور حقداروں تک پہنچ چکا تھا ، جب جنگ کی تیاریوں کا اعلان ہوا تو مسلمان بڑھ چڑھ کر مال جمع کروانے لگے ، لیکن پھر بھی اتنا نہیں تھاکہ اتنے بڑے پیمانے پر لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے کافی ہوسکے ۔
غزوے کی تیاری کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاجوش وخروش
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جونہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکا ارشاد سنا کہ آپﷺرومیوں سے جنگ کی دعوت دے رہے ہیں جھٹ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پرے۔ اور پوری تیز رفتاری سے لڑائی کی تیاری شروع کردی۔ قبیلے اور برادریاں ہر چہار جانب سے مدینہ منورہ میں اترنا شروع ہوگئیں اور سوائے ان لوگوں کے جن کے دلو ں میں نفاق کی بیماری تھی ، کسی مسلمان نے اس غزوے سے پیچھے رہنا گوار ا نہ کیا۔ البتہ تین مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں کہ صحیح الایمان ہونے کے باوجود انہوں نے غزوے میں شرکت نہ کی۔ حالت یہ تھی کہ حاجت مند اور فاقہ مست لوگ آتے ، اورحضورتاجدارختم نبوتﷺسے درخواست کرتے کہ ان کے لیے سواری فراہم کردیں۔ تاکہ وہ بھی رومیوں سے ہونے والی اس جنگ میں شرکت کرسکیں۔ اور جب آپﷺان سے سواری نہ ہونے کابیان کیاتووہ رونے لگے جیساکہ قرآن کریم میں اس آیت کریمہ میں بیان ہوا:
{وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوا وَّأَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ }
میں تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتا تو وہ اس حالت میں واپس ہوتے کہ ان آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے کہ وہ خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پارہے ہیں۔
اسی طرح مسلمانوں نے صدقہ وخیرات کرنے میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔ حضرت سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ملک شام کے لیے ایک قافلہ تیار کیا تھا۔ جس میں پالان اور کجاوے سمیت دوسو اونٹ تھے اور دو سو اوقیہ (تقریبا ًساڑھے انتیس کلو )چاندی تھی۔ آپ نے یہ سب صدقہ کردیا۔ اس کے بعد پھر ایک سو اونٹ پالان اور کجاوے سمیت صدقہ کیا۔ اس کے بعد ایک ہزار دینار(تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے)لے آئے اور انہیںحضورتاجدارختم نبوتﷺکی آغوش میں بکھیردیا۔حضورتاجدارختم نبوتﷺانہیں الٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔ اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر صدقہ کیا ، اور صدقہ کیا ، یہاں تک کہ ان کے صدقے کی مقدار نقدی کے علاوہ نوسو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جاپہنچی۔
ادھر حضرت سیدناعبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ دوسو اوقیہ چاندی لے آئے۔ حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال حاضرِ خدمت کردیا۔ اور بال بچوں کے لیے اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریم ﷺکے سواکچھ نہ چھوڑا۔ ان کے صدقے کی مقدار چار ہزار درہم تھی اور سب سے پہلے یہی اپنا صدقہ لے کرحاضرہوئے تھے۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنا آدھا مال خیرات کیا۔ حضرت سیدناعباس رضی اللہ عنہ اتنامال لائے کہ ان سے اٹھایابھی نہیں جارہاتھا، حضرت سیدنا طلحہ ، حضرت سیدناسعد بن عبادہ اورحضرت سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم بھی کافی مال لائے۔ حضرت سیدناعاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نوے وسق (یعنی ساڑھے تیرہ ہزار کلو ،ساڑھے ۱۳ٹن )کھجور لے کر آئے۔ حضرت سیدنا ابو عقیل انصاری رضی اللہ عنہ جو بہت ہی مفلس تھے فقط ایک صاع کھجور لے کر حاضر خدمت ہوئے اور گزارش کی کہ یا رسول اﷲﷺ!میں نے دن بھرپانی بھر بھر کر مزدوری کی تو دو صاع کھجوریں مجھے مزدوری میں ملی ہیں ۔ ایک صاع اہل و عیال کو دے دی ہے اور یہ ایک صاع حاضر خدمت ہے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا قلب نازک اپنے ایک مفلس جاں نثار کے اس نذرانہ خلوص سے بیحد متاثر ہوا اور آپﷺ َنے اس کھجور کو تمام مالوں کے اوپر رکھ دیا۔
بقیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی پے در پے اپنے تھوڑے زیادہ صدقات لے آئے، یہاں تک کہ کسی نے ایک مُد یا دومد صدقہ کیا کہ وہ اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ عورتوں نے بھی ہار ، بازو بند ، پازیب ، بالی اور انگوٹھی وغیرہ جو کچھ ہوسکا آپﷺکی خدمت میں بھیجا کسی نے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا، اور بخل سے کام نہ لیا۔ صرف منافقین تھے جو صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں پر طعنہ زنی کرتے تھے ، (کہ یہ ریا کارہے)اور جن کے پاس اپنی مشقت کے سوا کچھ نہ تھا ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ (کہ یہ ایک دو مدکھجور سے قیصر کی مملکت فتح کرنے اٹھے ہیں۔
حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاروانہ ہونا
اس دھوم دھام جوش وخروش اوربھاگ دوڑ کے نتیجے میں لشکر تیار ہوگیاتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدنامحمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو اور کہا جاتا ہے کہ حضرت سیدنا سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا گورنر بنایا۔ اور حضرت سیدنامولا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنے اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا۔ لیکن منافقین نے ان پر طعنہ زنی کی۔ اس لیے وہ مدینہ سے نکل پڑے اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے جالاحق ہوئے لیکن آپﷺنے انہیں پھر مدینہ واپس کردیا اور فرمایا کہ کیاتم اس بات سے راضی نہیں کہ مجھ سے تمہیں وہی نسبت ہو جو حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت سیدناہارون علیہ السلام کو تھی۔ البتہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
غزوہ تبوک ختم نبوت کی دلیل، غزوہ تبوک میں اعلان ختم نبوت
یادرہے کہ غزوہ تبوک ختم نبوت کی گواہی دیتا ہے وہ اس طرح کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ کومدینہ میں رہنے کاحکم دیا انہوں نے عرض کیا کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑکے جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا
{اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہ لَیْسَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ}(بخاری شریف )
کیا تو اس بات پر خوش نہیں کہ مجھ سے ایسے ہوجیسے حضرت موسی(علیہ السلام )سے ہارون(علیہ السلام ) تھے ہاںاتنی بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
بہرحال حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس انتظام کے بعد شمال کی جانب کوچ فرمایا (نسائی کی روایت کے مطابق یہ جمعرات کا دن تھا )منزل تبوک تھی لیکن لشکر بڑا تھا۔ تیس ہزار مردان جنگی تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر کبھی فراہم نہ ہوا تھا۔ اس لیے مسلمان ہر چند مال خرچ کرنے کے باوجود لشکر کو پوری طرح تیار نہ کرسکے تھے بلکہ سواری اور توشے کی سخت کمی تھی۔ چنانچہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں پر ایک ایک اونٹ تھا جس پر یہ لوگ باری باری سوار ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے لیے بسا اوقات درختوں کی پتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں جس سے ہونٹوں میں ورم آگیا تھا مجبورا ً اونٹوں کو قلت کے باوجود ذبح کرنا پڑا، تاکہ اس کے معدے اور آنتوں کے اندر جمع شدہ پانی اور تری پی جاسکے۔ اسی لیے اس کا نام جیش ِ عُسرت (تنگی کا لشکر )پڑگیا۔
ایک منزل پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اونٹنی کہیں چلی گئی اور لوگ اس کی تلاش میں سرگرداں پھرنے لگے تو ایک منافق جس کا نام زید بن لصیت تھا کہنے لگا کہ محمد (ﷺ)کہتے ہیں کہ میں اﷲتعا لی کا نبی ہوں اور میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں مگر ان کو یہ پتا ہی نہیں ہے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے حالانکہ خدا کی قسم!اﷲتعالیٰ کے بتا دینے سے میں خوب جانتا ہوں کہ میری اونٹنی کہاں ہے؟ وہ فلاں گھاٹی میں ہے اور ایک درخت میں اس کی مہار کی رسی اُلجھ گئی ہے۔ تم لوگ جاؤ اور اس اونٹنی کو میرے پاس لے کر آ جاؤ۔ جب لوگ اس جگہ گئے تو ٹھیک ایسا ہی دیکھا کہ اسی گھاٹی میں وہ اونٹنی کھڑی ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں الجھی ہوئی ہے۔
تبوک کی راہ میں لشکر کا گذر حِجر یعنی دیا ر ثمود سے ہوا۔ ثمود وہ قوم تھی جس نے وادی القریٰ کے اندر چٹانیں تراش تراش کر مکانات بنائے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہاں کے کنویں سے پانی لے لیا تھا، لیکن جب چلنے لگے توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا :تم یہاں کا پانی نہ پینا اور اس سے نماز کے لیے وضو نہ کرنا۔ اور جو آٹا تم لوگوں نے گوندھ رکھا ہے اسے جانوروں کو کھلا دو ، خود نہ کھائو۔ آپﷺنے یہ بھی حکم دیا کہ لوگ اس کنویں سے پانی لیں جس سے حضرت سیدناصالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔
صحیحین میں حضرت سیدناعبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺ حِجر (دیار ِ ثمود )سے گذرے تو فرمایا:ان ظالموں کی جائے سکونت میں داخل نہ ہونا کہ کہیں تم پر بھی وہی مصیبت نہ آن پڑے جو ان پر آئی تھی۔ ہاں مگر روتے ہوئے۔ پھر آپﷺنے اپنا سر ڈھکا اور تیزی سے چل کر وادی پار کرگئے۔
راستے میں لشکر کو پانی کی سخت ضرورت پڑی حتیٰ کہ لوگوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے شکوہ کیا۔ آپﷺ نے اللہ تعالی سے دعا کی۔ اللہ تعالی نے بادل بھیج دیا، بارش ہوئی۔ لوگوں نے سیر ہو کر پانی پیا اور ضرورت کا پانی لاد بھی لیا۔
پھر جب تبوک کے قریب پہنچے تو آپﷺنے فرمایا :کل ان شاء اللہ تم لوگ تبوک کے چشمے پر پہنچ جائوگے، لیکن چاشت سے پہلے نہیں پہنچو گے۔ لہٰذا جو شخص وہاں پہنچے اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگا ئے ، یہاں تک کہ میں آجائوں۔ حضرت سیدنا معاذرضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ پہنچے تو وہاں دوآدمی پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی آرہا تھا۔حضورتاجدارختم نبوتﷺنے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے اس کے پانی کو ہاتھ لگایا ہے ؟ انہو ں نے کہا : ہاں !آپﷺنے ان دونوں سے جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا ، فرمایا۔ پھر چشمے سے چُلّو کے ذریعہ تھوڑا تھوڑا پانی نکالا۔ یہاں تک کہ قدرے جمع ہوگیا۔ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس میں اپناچہرہ اور ہاتھ دُھلا ، اور اسے چشمے میں انڈیل دیا۔ اس کے بعد چشمے سے خوب پانی آیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیر ہوکر پانی پیا۔ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا :اے معاذ !اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اس مقام کو باغات سے ہرا بھرا دیکھو گے۔
راستے ہی میں یاتبوک پہنچ کر… روایا ت میں اختلاف ہے ،حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا :آج رات تم پر سخت آندھی چلے گی لہٰذا کوئی نہ اٹھے اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کی رسی مضبوطی سے باندھ دے۔ چنانچہ سخت آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوگیا تو آندھی نے اسے اڑا کر طی کی دوپہاڑیوں کے پاس پھینک دیا۔
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہاتھوں حضرت سیدناذوالبجادین کی تدفین
غزوہ تبوک میں بجز ایک حضرت سیدنا ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کے نہ کسی صحابی کی شہادت ہوئی نہ وفات۔ حضرت سیدناذوالبجادین رضی اللہ عنہ کون تھے؟ اور ان کی وفات اور دفن کا کیسا منظر تھا؟ یہ ایک بہت ہی ذوق آفریں اور لذیذ حکایت ہے۔ یہ قبیلہ مزینہ کے ایک یتیم تھے اور اپنے چچا کی پرورش میں تھے۔ جب یہ سن شعور کو پہنچے اور اسلام کا چرچا سنا تو اِن کے دل میں بت پرستی سے نفرت اور اسلام قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ مگر ان کا چچا بہت ہی کٹر کافر تھا۔ اس کے خوف سے یہ اسلام قبول نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو انہوں نے اپنے چچا کو ترغیب دی کہ تم بھی دامن اسلام میں آ جاؤ کیونکہ میں قبول اسلام کے لئے بہت ہی بے قرار ہوں ۔یہ سن کر ان کے چچا نے ان کو برہنہ کرکے گھر سے نکال دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے ایک کمبل مانگ کر اس کو دو ٹکڑے کرکے آدھے کو تہبند اور آدھے کو چادر بنا لیااور اسی لباس میں ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ رات بھر مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے۔ نماز فجر کے وقت جب جمالِ محمدیﷺ کے انوار سے ان کی آنکھیں منور ہوئیں تو کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کا نام دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنا نام عبدالعزیٰ بتا دیا۔ آپﷺنے فرمایا کہ آج سے تمہارا نام عبداﷲاور لقب ذوالبجادین (دوکمبلوں والا)ہے۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺ ان پر بہت کرم فرماتے تھے اور یہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی جماعت کے ساتھ رہنے لگے اور نہایت بلند آواز سے ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺجنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو یہ بھی مجاہدین میں شامل ہو کر چل پڑے اور بڑے ہی ذوق و شوق اور انتہائی اشتیاق کے ساتھ درخواست کی کہ یارسول اﷲ!(ﷺ)دعا فرمائیے کہ مجھے خداکی راہ میں شہادت نصیب ہو جائے۔ آپﷺنے فرمایا کہ تم کسی درخت کی چھال لاؤ۔ وہ تھوڑی سی ببول کی چھال لائے۔آپ ﷺنے ان کے بازو پر وہ چھال باندھ دی اور دعا کی کہ اے اﷲ!میں نے اس کے خون کو کفار پر حرام کر دیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(ﷺ)میرا مقصد تو شہادت ہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب تم جہاد کے لئے نکلے ہو تو اگر بخار میں بھی مرو گے جب بھی تم شہید ہی ہو گے۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی شان کہ جب سیدنا حضرت ذوالبجادین رضی اللہ عنہ تبوک میں پہنچے توبخار میں مبتلا ہو گئے اور اسی بخار میں ان کی وفات ہو گئی۔
حضرت سیدنا بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے دفن کا عجیب منظر تھا کہ حضرت سیدنابلال مو ذن رضی اللہ عنہ ہاتھ میں چراغ لئے ان کی قبر کے پاس کھڑے تھے اور خود بہ نفس نفیس حضورتاجدارختم نبوت ﷺ ان کی قبر میں اترے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق و سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہماکو حکم دیا کہ تم دونوں اپنے اسلامی بھائی کی لاش کو اٹھاؤ۔ پھر آپ ﷺنے ان کو اپنے دست ِمبارک سے لحد میں سلایا اور خود ہی قبر کو کچی اینٹوں سے بند فرمایا اور پھر یہ دعا مانگی کہ یااﷲ! میں ذوالبجادین سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔
حضرت سیدنا عبداﷲبن مسعودرضی اللہ عنہ نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کے دفن کا یہ منظر دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا کہ کاش! ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی جگہ یہ میری میت ہوتی۔ (
(مدارج النبوۃلشیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی (۲:۳۵۰)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی تبوک آمد اوررومیوں کافرار
اسلامی لشکر تبوک میں اُتر کر خیمہ زن ہوا۔ وہ رومیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اہلِ لشکر کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ خطبہ دیا۔ آپﷺنے جوامع الکلم ارشاد فرمائے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کی رغبت دلائی۔ اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرایا اور اس کے انعامات کی خوشخبری دی۔ اس طرح فوج کا حوصلہ بلند ہوگیا۔ ان میں تو شے ، ضروریات اور سامان کی کمی کے سبب جو نقص اور خلل تھا وہ اس راہ سے پُر ہوگیا۔ دوسری طرف روم اور ان کے حلیفوں کا یہ حال ہوا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی آمد کی خبر سن کر ان کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں آگے بڑھنے اور ٹکر لینے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ اندرون ِ ملک مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ ان کے اس طرزِ عمل کا اثر جزیرہ عرب کے اندر اور باہر مسلمانوں کی فوجی ساکھ پر بہت عمدہ مرتب ہوا اور مسلمانوں نے ایسے ایسے اہم سیاسی فوائد حاصل کیے کہ جنگ کی صورت میں اس کا حاصل کرنا آسان نہ ہوتا۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکامدینہ منورہ آمدپراستقبال
جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے اور اُحدپہاڑ کو دیکھا تو فرمایا کہ {ھٰذَا اُحُدٌ جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہ }یہ اُحد ہے۔ یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔
جب آپﷺنے مدینہ کی سرزمین میں قدم رکھا تو عورتیں ، بچے اور لونڈی غلام سب استقبال کے لئے نکل پڑے اور استقبالیہ نظمیں پڑھتے ہوئے آپ کے ساتھ مسجد نبوی تک آئے۔ جب آپ ﷺ مسجد نبوی میں دو رکعت نماز پڑھ کر تشریف فرما ہو گئے۔ تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے چچا حضرت سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہمانے آپﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا اور اہل مدینہ نے بخیر و عافیت اس دشوار گزار سفر سے آپﷺکی تشریف آوری پر انتہائی مسرت و شادمانی کا اظہار کیااور ان منافقین کے بارے میں جو جھوٹے بہانے بنا کر اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بارگاہ نبوت میں قسمیں کھا کھا کر عذر پیش کر رہے تھے قہرو غضب میں بھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئیں اوران منافقوں کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔
بلاشبہ غزوہ تبوک اس لحاظ سے تاریخ عہد نبویﷺکا سب سے بڑا غزوہ ہے کہ جس میں اسلامی فوج کے جانبازوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور عہد نبوی کی تاریخ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی زیر کمان اتنی تعداد پہلے جمع نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح یہ غزوہ سب سے بڑا فوجی حملہ تھا اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی آخری فوجی کاروائی تھی حتیٰ کہ آپﷺ اپنے خالق حقیقی عزوجل سے جا ملے۔
غزوہ تبوک کو مکمل تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے لئے ہماری کتاب ’’غزوہ تبوک کامبارک سفر‘‘کامطالعہ فرمائیں۔