غلبہِ اسلام روحانیت سے ہے نہ کہ مادیت سے۔

غلبہِ اسلام روحانیت سے ہے نہ کہ مادیت سے۔

دنیا کی نظر میں جنگوں کی کامیابی کا دارو مدار جدید ٹیکنالوجی اور فوجی ساز و ماسان سے ہے۔ لیکن تاریخ کے اوراق میں اس کے برعکس حقائق موجود ہیں۔سن (۲ھ)میں لڑی گئی کفر اور اسلام کی پہلی فیصلہ کن جنگ غزوہ بدر کی مثال لیجیئے ایک طرف مسلمانوں کی تعداد (۳۱۳)اور دوسری طرف کفار کی تعداد (۱۰۰۰)جو مسلمانوں کے مقابلے میں بہترین اسلحہ سے لیس تھے لیکن اس کے باوجود شکست کھا گئے، اور مسلمانوں کو اللہ تعالی نے فتح کے ساتھ مال غنیمت سے بھی نوازا جو ریاست مدینہ کی معاشی تاریخ میں اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے۔

اور جب سن (۸ھ) میں حضورتاجدارختم نبوت ْﷺکے صحابی حضرت سیدنا حارث بن عمیر الأزدی رضی اللہ عنہ کو قیصر بصری نے شہید کیا تو جزیرہ العرب کے علاوہ سلطنت روم کے عیسائیوں کی دو لاکھ کے قریب فوج سے تین ہزار مسلمان فوجیوں نے موتہ کے مقام پر جنگ لڑی اور (۱۴)فوجیوں کی شہادت پر دو لاکھ رومی اور غسانی فوج کو شکست دے کر عرب قبائل پر اپنی دھاک بٹھا دی۔
اس کے بعد (۱۳ھ )میں ایک اور تاریخی جنگ لڑی گئی جس کو معرکہ یرموک کہا جاتا ہے مسلمانوں کی جنگی قیادت حضرت سیدنا سیف اللہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کرتے تھے جو اپنے (۶)ہزار فوجیوں کے ساتھ وقت کی سپر پاور بازنطینیوں کے خلاف میدان میں اترے تھے جنکی تعداد دو لاکھ (۴۰)ہزار تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے شکست کھائی اور مسلمان فوج نے جزیرہ العرب سے نکل کر (پیر س)کی سرزمین پر قدم رکھا۔

یہی صورتحال سن (۱۳)میں بھی رہی جب حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں (۳۰)ہزار کی فوج ایرانیوں کے مشہور جرنیل رستم کے مقابلے میں میدان میں اتری، اور بہترین جنگی حکمت عملی کی بدولت نہ صرف دو لاکھ ایرانی فوجیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ان کا جرنیل رستم بھی قتل ہوا، تاریخ اس جنگ کو جنگ قادسیہ)کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
اس کے بعد سن (۹۲ھ)میں اموی دور خلافت میں طارق بن زیاد رضی اللہ تعالی کی قیادت میں (۱۲)ہزار مسلمان فوجی یورپین فوج کے سپہ سالار روڈریک (لذریق)کی ایک لاکھ فوج سے وادی لکہ کے مقام پر ٹکرا گئے اور ان کو شکست دینے کے بعد یورپ کا کافی حصہ خلافت امویہ کی حدود میں داخل ہوا، اور اسی طرح مسلمانوں کی خلافت کی حدود میں فرانس کے زیرتسلط علاقوں کو داخل کرنے کے لیے عبد الرحمن الغافقی کو (۳۰)فوج کے ساتھ چار لاکھ فرنگی فوج کے ساتھ لڑنا پڑا اور ان کو کثرت اور قوت کے باوجود ان کی سر زمین پر شکست دی، اس عظیم تاریخی جنگ کو جنگ بلاط الشہداء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس تاریخ کو مسلمانوں نے معرکہ ملاذ کرد اور حطین میں دہرایا تھا اوّل الذکر میں (۴۰)ہزار مسلمانوں کا مقابلہ (۴۶۳ھ)میں دو لاکھ رومی فوجیوں سے اور ثانی الذکر میں (۲۵)ہزار مسلمانوں کا مقابلہ (۵۸۳ھ)میں (۶۳)ہزار سے زائد صلیبی فوجیوں سے ہوا تھا جس میں روم اور صلیبی قوتوں کو نہ صرف شکست ہوئی تھی بلکہ صلیبیوں کے زیر قبضہ مسلمان علاقوں کو بھی آزاد کیا گیا تھا۔
یہ وہی تاریخی حقائق ہیں جن سے آج کا ماڈرن تعلیم یافتہ،لبرل وسیکولر نوجوان نسل لاعلم ہے اور اس کی نظر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ سے لڑنا ناممکن ہے، اس لیے وہ افغانستان، عراق اور شام میں امریکہ کے وجود سے مرعوب ہے اور امریکہ کی جنگی اور فوجی قوت سے اتنا متاثر ہے کہ امریکہ کی شکست کی بات کرنے والوں کو بے وقوف اور جاہل سمجھتا ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کی اپنی اسلامی تاریخ سے جہالت ہے، اگر وہ تاریخ کے دریچوں میں دیکھتا تو اس کو پتہ لگ جاتا کہ جنگیں صرف مادی قوت اور تعداد سے نہیں بلکہ ایمانی قوت سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔جن کی عقل، شکل، عمل کفار جیسے ہوں وہ صرف کفار کے دشمنوں سے ہی جنگ کرسکتے ہیں۔ یہ روحانی قوت اتباع شریعت سے حاصل ہوتی ہے۔ اوریہی وجہ ہے کہ یہ لبرل وسیکولر حکمرانوں نے آج تک جتنے مسلمان پاکستان میں قتل کئے ہیں اس کاعشرعشیربھی انہوںنے کافروں کانہیں مارا۔ کیونکہ ان کو ہر اس شخص سے دشمنی ہے جو امریکہ کے ساتھ دشمنی کی بات کرے اورہراس شخص کے ساتھ دشمنی ہے جو اسرائیل کی تباہی کی بات کرے ، اوران کوہر اس شخص کے ساتھ بیرہے جو یہودونصاری کے ساتھ جہاد کی بات کرے ، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ اندرسے یہودی ونصرانی ہوچکے ہیں ، ان کااسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا، ان کے دل یہودونصاری کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہمارے علماء کرام کوکبھی پھانسی کے پھندوں پر لٹکایاجاتاہے توکبھی ان کو قیدکردیاجاتاہے ، توکبھی ان کو جیلوں میں قتل کردیاجاتاہے۔ یہاں اسلام کی بات کرنے والوں پر بم برسائے جاتے ہیں توکبھی ان پرگولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے ۔
یہاں ہم ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ اہل اسلام نے فتوحات کیسے حاصل کیں اورکافروں کوکیسے تہہ تیغ کیا:ملاحظہ فرمائیں اوراپنے ایمان کو جلابخشیں۔

حضرت سیدناخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کی فتوحات کی وجہ ؟

قال الواقدی:وخالد یقول:حی حی فعلا البطریق علی ظہر خالد فی عثرتہ وقد سقطت قلنسوتہ من رأسہ فصاح قلنسوتی رحمکم اللہ فأخذہا رجل من قومہ من بنی مخزوم وناولہ إیاہا فأخذہا خالد ولبسہا فقیل لہ فیما بعد یا أبا سلیمان أنت فی مثل ہذا الحال من القتال وأنت تقول قلنسوتی فقال خالد: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما حلق راسہ فی حجۃ الوداع أخذت من شعرہ شعرات فقال لی ما تصنع بہؤلاء یا خالد فقلت:أتبرک بہا یا رسول اللہ واستعین بہا علی القتال قتال أعدائی فقال لی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا تزال منصورا ما دامت معک فجعلتہا فی مقدمۃ قلنسوتی فلم ألق جمعا قط إلا انہزموا ببرکۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

ترجمہ :امام محمدبن عمربن واقد الواقدی المتوفی : ۲۰۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جنگِ یَرمُوک کے بارہویں دن حضرت سیدنا خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ رومی سردار سے مقابلہ کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکا اور زمین پر گرگیا جس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی زمین پر گرگئے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مبارک ٹوپی بھی گرگئی ، حیرانی کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی وہ ٹوپی گری آپ کو اپنی جان کی نہیں بلکہ اس ٹوپی کی فکر لگ گئی ۔

جب حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ لشکر میں واپس آئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ حضرت جب میدان جنگ میں ہرطرف تلواریں چل رہی تھیں ، اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اپنی ٹوپی کی فکر لگی ہوئی تھی، اس کی کیا وجہ تھی؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حلق کروایا تو میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مبارک بالوں میں سے موئے مبارک اپنے پاس رکھ لیے۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺنے مجھ سے ارشاد فرمایا: (مَا تَصْنَعُ بِہٰوُلَائِ یَا خَالِد)یعنی اے خالد !تم ان بالوں کا کیا کرو گے۔؟ میں نے عرض کی: (اَتَبَرَّکُ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللہِ وَاسْتَعِیْنُ بِہَا عَلَی الْقِتَالِ قِتَالَ اَعْدَائِیْ یعنی یَارَسُوْلَ اللہ)میں آپ کے ان مبارک گیسووں سے تبرک حاصل کروں گا اور جنگوں میں اپنے دشمنوں کے قتال پر اللہ سے مدد طلب کروں گا۔

یہ سن کرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا( لَا تَزَالُ مَنْصُوْراً مَا دَامَتْ مَعَک) یعنی اے خالد!جب تک یہ بال تمہارے پاس رہیں گے ان کے وسیلے سے ہمیشہ تمہاری مدد کی جاتی رہے گی۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :(فَجَعَلْتُہَا فِیْ مُقَدَّمَۃِ قَلَنْسُوَتِیْ فَلَمْ اَلْقِ جَمْعًا قَطُّ اِلَّا اِنْہَزَمُوْا بِبَرَکَۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم )یعنی پھر میں نے ان مبارک گیسوئوں کو اپنی ٹوپی کے اگلے حصے میں محفوظ کرلیا اور میں جب بھی اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے جاتا ہوں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی برکت سے میرے دشمنوں کو شکست وذلت سے دوچار فرماتا ہے۔
(فتوح الشام:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (۱:۲۱۰)

2 thoughts on “غلبہِ اسلام روحانیت سے ہے نہ کہ مادیت سے۔”

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضور براہ کرم یہ ارشاد فرمائیں کہ کیا آپ کی ویب سائٹ میں اپنے سوالات پیش کرنے کا آپشن ہے۔ جواب ارشاد فرما دیں جزاک اللہ خیرا

    جواب دیں

Leave a Reply