قرآن کریم میں انسانوں کوجانوروں کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ
اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کچھ اس طرح سے کی ہے کہ وہ فطرتاً اپنے باطن میں حقیقت کی شناخت کا طالب ہے ۔ اور پیہم اپنی اس گمشدہ شے کی تلاش میں رہتا اور اس سلسلے میں مختلف سوالات اور موضوعات اس کے ذہن میں آتے ہیں ۔اور اس طرح سے جدید انکشافات اور ایجادات انسان کی زندگی کا خاصہ بن گئے ہیں ۔ حقیقت پسندی، ایک فطری اور باطنی رجحان اور میلان ہے جو ہر انسان کے باطن میں موجود ہے جسے کبھی تجسس کی فطرت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس رجحان کو ہم جو بھی نام دیں حقیقت میں انسان کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے جو انسان کی سرشت اور اسکے وجود کی گہرائی میں موجود ہے ۔ انسانیت اور کمال انسانی کا یہ تقاضا ہے کہ حقائق کی جستجو اور ان کا ادراک کرے اور اگر اس کام میں وہ کوتاہی کرے گا تو در حقیقت اس نے اپنی انسانیت کو نقصان پہنچایاہے اور اس طرح سے وہ حیوانیت کی حد بلکہ اس سے بھی زیادہ گرجائے گا ۔ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:
{اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعٰمِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا }(سورۃ الفرقان : ۴۴)
ترجمہ کنزالایمان:یا یہ سمجھتے ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیںوہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ۔
یہ مثال ان کفار و مشرکین کے بارے میں ہے جو حضورتاجدارختم نبوتﷺسے دشمنی رکھتے تھے اور اپنے باطل عقائد پر اس طرح سے اصرار کرتے اور اس پر ڈٹے رہتے ، اور اپنی خواہشات نفسانی کے تابع تھے کہ ان سے قوت ادراک سلب ہوگئی تھی ۔ اسی بناء پر اللہ تعالی نے ان کی تشبیہ جانوروں بلکہ جانوروں سے بھی بدترچیز سے دی ہے ۔
حضرت سیدنعیم الدین حنفی مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :کیونکہ چوپائے بھی اپنے ربّ کی تسبیح کرتے ہیں اور جو انہیں کھانے کو دے اس کے مطیع رہتے ہیں اور احسان کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں ، نافع کی طلب کرتے ہیں ، مُضِر سے بچتے ہیں ، چراگاہوں کی راہیں جانتے ہیں ، یہ کُفّار ان سے بھی بدتر ہیں کہ نہ ربّ کی اطاعت کرتے ہیں نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں ، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضرر رسانی کو سمجھتے ہیں ، نہ ثواب جیسی عظیم المنفعت چیز کے طالب ہیں ، نہ عذاب جیسے سخت مُضِر مہلکہ سے بچتے ہیں ۔تفسیرخزائن العرفان (سورۃ الفرقان : ۴۴)
اس آیت سے ما قبل کی آیات حضورتاجدارختم نبوتﷺپر کفار کے بیہودہ اور نازیبا الزامات اور تنقیدوں سے متعلق ہیں درحقیقت ان آیات میں خداوندعالم کی جانب سے انسان کو جانوروں سے تشبیہ دیئے جانے کی وجہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ گذشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں متکبروں اور خواہشات نفسانی کے پیروکاروں کا رد عمل، ان انبیاء کرام علیہم السلام کا تمسخر اور مذاق اڑانااورگستاخی کرنا تھا اور یہ مسئلہ مختلف مواقع پر اور مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ پیش آیا ، مثلا فرعون کہ جو خدائی کا دعویدار تھا حضرت سیدناموسی علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتاہے ’’جو پیغمبر تمہاری جانب بھیجا گیا ہے وہ مسلم طور پر دیوانہ ہے ‘‘۔ دوسری جانب حضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف کفار کا تمسخر اور مذاق اڑانے کا انداز یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر اسلام ، وہی پیغمبر ہے کہ جسے خداوند عالم نے پیغمبر کے طور پر منتخب کیا ہے ؟ اور کہتے تھے کہ وہ اگر خدا کا رسول ہے تو کیوں وہ دیگر انسانوں کی مانند کھانا کھاتا ، راستہ چلتا ، باتیں کرتا اور لباس پہنتا ہے اور مختصر یہ کہ دیگر انسانوں اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے جبکہ ان کی نظر میں خدا کے رسول کو فرشتوں میں سے ہونا چاہئے تھا ۔ اس قول کا باطل ہونا واضح ہے کیوں کہ رسول خدا ﷺکو چاہئے کہ اسی قوم اور افراد میں سے ہو کہ جن کے درمیان اسے تبلیغ کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ وہ ان کے درد و رنج کو سمجھ سکے اور ان کی مشکلات کا مناسب حل نکال سکے جبکہ اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو انسانوں کی مشکلات اور تکالیف کو درک اور محسوس نہیں کرسکتے تھے ۔اور پھر اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو کوئی بھی انسان ان کی بات پر توجہ نہیں دیتا اور اس وقت وہ یہ اعتراض کرتا کہ یہ فرشتہ جو اس طرح کی باتیں کررہا ہے تو یہ باتیں تو اسی جیسے فرشتوں کے لئے اچھی ہیں کہ جو شہوت نہیں رکھتے اور عصمت کے حامل ہیں ۔ لیکن ہم جو معصوم نہیں ہیں اور شہوت و خواہشات نفسانی میں مبتلا ہیں ، ہم تو ان کی طرح عمل نہیں کرسکتے لیکن اگر اللہ کا رسول ، انسانوں میں سے ہی ہوگا تو ان کا یہ بہانہ ختم ہوجائے گا ۔ اس طرح سے اللہ تعالی نے کفارکی بہانے بازیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر کفار کی صفات کی بنیاد پر ان کو جانوروں اور چوپایوں سے تشبیہ دی ہے ۔
درحقیقت انسان کی نفسانی خواہشات نے کفار کے دلوں پر ایک پردہ ڈال دیا ہے ۔ اس طرح سے کہ وہ حقائق کاا دراک کرنے سے عاجز ہیں۔ بت پرستی ، نفس پرستی ، دولت پرستی ، مقام پرستی اور اس جیسی چیزیں ، ایسے حجاب کا باعث بنتی ہیں جو کفار کے ادراک میں مانع بنتی ہیں اور یہ وہ موانع اور رکاوٹیں ہیں جو عذاب الہی کے ذریعے ہی برطرف ہوتی ہیں ۔ بہر صورت ، جب خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت غرور و جہل کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور اس وقت کفار یہ سمجھتے ہیں کہ کتنی گہری گمراہی میں وہ گرفتار تھے ۔
اللہ تعالی اس آیت میں مشرکین کو خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے حق کی آواز اور خداوند عالم کی نشانیوں سے پوری دنیا لبریز ہے اور ہر سمت اس کی نشانیاں ہیں لیکن حق کی آواز سننے کے لئے ، سنائی دینے والے کانوں اور حق کے آثار کا مشاہدہ کرنے کے لئے ، دیکھنے والی آنکھوں اور عقل کی ضرورت ہے جس سے کفار محروم ہیں ۔چنانچہ اگر سورج کی روشنی پوری دنیا پر چھاجائے پھر بھی نابینا انسان کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر ایک بہرہ انسان جو سمندر کے ساحل کے کنارے پر کھڑا ہو اور اس کی تلاطم خیز موجوں کو دیکھ بھی رہا ہو ، پھر بھی وہ ان موجوں کی لہروں کی آواز نہیں سن سکتا ۔ کفار بھی ایسے ہی ہیں ، نہ وہ حق کو دیکھتے ہیں نہ ہی حق کی آواز سن سکتے ہیں بلکہ وہ جانوروں کی مانند ہیں اور اس سے بھی پست تر ہیں ۔ اس بناء پر مشرکین حق کی آواز سننے سے عاجز اور ان کے ادراک سے ناتواں ہیں جس طرح سے کہ جانور یہ صفات نہیں رکھتے ۔
انسان اور جانور کے درمیان اصلی فرق ، مطالب اور مضامین کا درک کرنا ہے ۔ حیوان میں کسی مسئلے کو درک کرنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے کیوں کہ ان میں عقل و فہم نہیں ہوتی اور ان کے سارے کام ، غریزے اور ان کے شعور کے تحت ہیں ۔ اس بناء پر کفار کی تشبیہ جانوروں اور چوپایوں سے دینے کا سبب یہ ہے کہ کفار، کائنات کو وجود میں لانے والے خدا تعالی کے بارے میں ادراک اور شعور کی قوت و صلاحیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے وہ نور حقیقت کی تجلی کو نہیں دیکھ سکتے ۔ دوسری جانب حیوان میں ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ حیوان اپنے مالک کے کھیت اور دوسرے کے کھیت میں تشخیص نہیں دے سکتا وہ حلال وحرام کو نہیں سمجھ سکتا اور ان مسائل کے مقابلے میں خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتا ۔ اس بناء پر عدم ذمہ داری کا احساس ، اس کے عدم ادراک کی علامت ہے ۔ کفار بھی حیوانوں کی مانند کسی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتے ۔ دوسری جانب حیوانات ، منطق کے تابع نہیں ہیں اور استدلال کو نہیں سمجھ سکتے اسی طرح کفار بھی ، مختلف مسائل کے بارے میں قرآن کے سادہ بیان اور قوی و مستحکم دلائل کے باوجود مختلف امور خاص طور پر توحید ، نبوت اور قیامت کو درک کرنے سے عاجز ہیں اور صرف اپنی ہی بات پر اڑے رہتے ہیں اور اسی کی تکرار کرتے ہیں ۔ اسی طرح حیوانات ، مستقبل پر نظر نہیں رکھتے اور وہ کبھی اپنے نفع اور نقصان کو نہیں پہچانتے اسی بناء پر کبھی وہ خطرناک راستوں پر نکل جاتے ہیں اور غیر منطقی اور غیر عاقلانہ کام انجام دیتے ہیں کیوں کہ وہ محاسبہ نہیں کرسکتے ۔ کفار و مشرکین بھی اسی طرح سے ہیں اور وہ اپنی راہ سعادت کو حاصل نہیں کرپاتے ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ بتوں کی عبادت ، اور نفسانی خواہشات کی پیروی ان کے فائدے میں نہیں ہے اور عزت و سعادت اور فلاح و نجات توحید کے سائے میں ہے ۔ مشرکین ان باتوں کو نہیں سمجھتے اسی لحاظ سے مشرکوں اور حیوانوں میں تشبیہ دی گئی ہے ۔
اگر چوپائے کچھ نہیں سمجھتے اور حقائق کے مقابلے میں سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں یا بالفاظ دیگر بصیرت و بصارت سے عاری ہیں تو اس کی دلیل ، عدم استعداد ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ وہ انسان ، بیچارہ ہے کہ جس میں سعادت و کامیابی تک رسائی کا مادّہ پوشیدہ ہے اور خداتعالی نے اس قدر اسے استعداد عطا کی ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا تعالی کاخلیفہ اور نمائندہ قرار پاسکتا ہے ۔ لیکن اس کا کام اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ حیوانیت کی حد سے بھی گذر جاتا ہے اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور استعداد کو تباہ کردیتا ہے ۔ البتہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کے عدم ادراک اور حیوانوں سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے جو کچھ فرمارہا ہے وہ دنیوی مسائل کے بارے میں نہیں ہے ۔ لوگ چاہے بے دین ہوں یا دیندار ، دنیوی امور کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جو بعض نام نہاددانشور اور ملحدوجودباری تعالی پر اعتقاد نہیں رکھتے اور وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے پیش قدم بھی رہے ہیں پھر بھی ان کی یہ فکر اور ان کا علم ، محض ان کی دنیاوی زندگی کے بہتر گذارنے کے لئے تھا۔ اور ایسے افراد اخروی زندگی کو درک کرنے اور اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر اور عاجز رہے ہیں اور انہوں نے اپنی آخرت کے بدلے ، عذاب آور زندگی خریدلی ہے ۔
یہ جتنی گزراشات پیش کی گئیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انسان اگر اپنے حقیقی مقام ومنزلت تک رسائی کا خواہاں ہے اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرناچاہتا ہے اور حقیقی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ پروردگار کی اطاعت اور اس پرایمان کی سمت قدم بڑھائے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی غلامی میں آجائے ۔
شرعی احکامات کو مکمل طورپرادانہ کرنے والوں اورگستاخوں کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دینے کے متعلق احادیث شریفہ سے استشہاد
گدھے کی طرح نہ گھومو!
عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ: إِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ فَانْصَرِفْ حَیْثُ کَانَتْ حَاجَتُکَ یَمِینًا أَوْ شِمَالًا، وَلَا تَسْتَدِرِ اسْتِدَارَۃِ الْحِمَارِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالاحوص رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ جب امام سلام پھیرے توتم اپنی ضرورت کے مطابق دائیں یابائیں پھرجائواورگدھے کی طرح مت گھومو!۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۹:۲۶۸)
اس حدیث شریف میںنماز کاسلام پھرنے کے بعد خلاف سنت پھرنے والے کو گدھے کے پھرنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ، اس کی وجہ یہی ہے کہ خلاف سنت عمل کرنے والے کو گدھے کے پھرنے کے ساتھ تشبیہ دی اورخلاف سنت عمل کی شناعت کو بیان فرمایا۔
دوزخی اورشیطان کے ساتھ تشبیہ دینا
عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عُوَیْمِرٍ، عَنْ مُجَاہِدٍ، أَنَّہُ قَالَ:وَضْعُ الْیَدِ فِی الْخَاصِرَۃِ اسْتِرَاحَۃُ أَہْلِ النَّارِ قَالَ: وَفِی حَدِیثٍ آخَرٍ أَنَّہَا مِشْیَۃُ إِبْلِیسَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدمی کاپہلوپرہاتھ رکھناجہنم والوں کاآرام لیناہے ، حدیث شریف کے آخرمیں ہے کہ وہ شیطان کی چال ہے ۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۲۷۴)
نماز درست نہ پڑھنے والے کو بدترین چورقراردیا
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ مُرَّۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا تَرَوْنَ فِی الشَّارِبِ، وَالسَّارِقِ وَالزَّانِی؟ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُنْزَلَ فِیہِمْ، قَالُوا:اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ:ہُنَّ فَوَاحِشُ وَفِیہِنَّ عُقُوبَۃٌوَأَسْوَأُ السَّرِقَۃِ الَّذِی یَسْرِقُ صَلَاتَہُ، قَالُوا: وَکَیْفَ یَسْرِقُ صَلَاتَہُ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:لَا یُتِمُّ رُکُوعَہَا وَلَا سُجُودَہَا۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھاتم چوری کرنے والے ، زناکرنے والے اورشراب پینے والے کے بارے میں کیاکہتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺزیادہ جانتے ہیں !اآپ ﷺنے فرمایاکہ یہ بے حیائی کے کام ہیں ۔ اوران میں سزائیں ہیں اورسب سے بڑاچوروہ ہے کہ جو اپنی نماز میں چوری کرے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!نماز میں وہ کیسے چوری کر ے گا؟حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ وہ نماز میں رکوع وسجدہ مکمل طورپرادانہ کرے ۔
(موطأ الإمام مالک:مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحی المدنی (۱:۱۶۷)
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ جو شخص نماز کے آداب کی رعایت نہیں کرتااس کے لئے ’’عام چور‘‘ نہیں بلکہ ’’بدترین چور‘‘کالفظ استعمال فرماکریہ بتادیاکہ جو بھی شخص اللہ تعالی کے دین کے معاملے میں بے پرواہی اختیارکرتاہے اوراحکام شرع میں اپنی من مانی کرتاہے اس کے لئے ایسالفظ بولناشرعاًجائز ہے ، اگرایسے لوگوں کے لئے اس طرح کے الفاظ بولنے جائز نہ ہوتے توکبھی بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺاتنابڑالفظ استعمال نہ فرماتے ۔اس حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو نماز میں رکوع وسجدہ درست طریقہ سے ادانہ کرے تواس کو حضورتاجدارختم نبوتﷺبدترین چورقراردیتے ہیں توجونام نہاد پیراورلبرل وسیکولربے دین لوگ سرے سے نما ز کاہی انکارکرتے ہیں ، ان کے لئے کونسالفظ استعمال کیاجائے گا؟
تحفہ دے کرواپس لینے والاکتے کی طرح ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوء ِ:الْعَائِدُ فِی ہِبَتِہِ، کَالْکَلْبِ یَعُودُ فِی قَیْئِہِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماروایت فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ ہمارے لئے برائی کی مثال نہیں ہے ، کسی کوتحفہ دے کرواپس لینے والااس کتے کی طرح ہے جو قئے کرکے اس میں منہ مارتاہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳:۳۶۵)
حدیث شریف کے اس جملے (لَیْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوء) کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ملت اور ہماری قوم جس عزوشرف کی حامل ہے اور اس کو انسانیت کے جن اعلی اصول اور شرافت وتہذیب کے جس بلند معیار سے نوازا گیا ہے اس کے پیش نظر ہماری ملت وقوم کے کسی بھی فرد کے لئے یہ بات قطعًا مناسب نہیں ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام کرے جو اس کے ملی شرف اور اس کی قومی عظمت کے منافی ہو اور اس کی وجہ سے اس پر کوئی بری مثال چسپاں کی جائے۔
اس سے گویا آپﷺنے اس طرف اشارہ فرمایا کہ کسی کو کوئی چیز بطور ہدیہ وتحفہ دے کر واپس لینا چونکہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کتا اپنی قے چاٹ لیتا ہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی کوئی چیز ہدیہ کرے اور پھر اسے واپس لے لے اور اس طرح اس پر یہ بری مثال چسپاں کی جانے لگے۔
شرابی لات وعزی کی پوجاکرنے والاہے ؟
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:شَارِبُ الْخَمْرِ کَعَابِدِ الْوَثَنِ وَشَارِبِ الْخَمْرِ کَعَابِدِ اللَّاتِ وَالْعُزَّی۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: شراب پینے والابتوں کی پوجاکرنے والے کی طرح ہے ، اورشرابی لات وعزی کی پوجاکرنے والے کی طرح ہے ۔
(بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث:أبو محمد الحارث بن محمد بن داہر التمیمی البغدادی (۲:۵۹۱)
اس عمل بدکی شناعت کو بیان کرنے کے لئے اس حدیث شریف میں شرابی کو مشرک کے ساتھ تشبیہ دی گئی ۔
سودخورکو اپنی ماں کے ساتھ زناکرنے والاقراردیا
عَنْ عَطَاء ٍ الْخُرَاسَانِیِّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ سَلَامٍ، قَالَ:الرِّبَا اثْنَانِ وَسَبْعُونَ حُوبًا، أَصْغَرُہَا حُوبًا کَمَنْ أَتَی أُمَّہُ فِی الْإِسْلَامِ، وَدِرْہَمٌ مِنَ الرِّبَا أَشَدُّ مِنْ بِضْعٍ وَثَلَاثِینَ زَنْیَۃً، قَالَ:وَیَأْذَنُ اللَّہُ بِالْقِیَامِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلَّا لِآکِلِ الرِّبَا، فَإِنَّہُ لَا یَقُومُ (إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ)(البقرۃ:۲۷۵)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعطاالخراسانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضر ت سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ سودکھانے میں بہترگناہ ہیں ، سب سے چھوٹاگناہ جیسے اس نے اسلام میں اپنی ماں کے ساتھ زناکیاہواورسود کاایک درہم چھتیس مرتبہ اپنی ماں کے ساتھ زناسے بھی زیادہ سخت ہے ۔فرمایاکہ اللہ تعالی قیامت کے دن نیک اوربرے شخص کوکھڑاہونے کی اجازت عطافرمائے گامگرسودکھانے والاکھڑانہیں ہوسکے گا۔ مگرجیساکہ کھڑاہوتاہے وہ شخص جس کو شیطان نے چھوکراس کے ہوش وحواس اڑادیئے ہوں۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۷:۳۰۸)
امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث شریف کے تحت لکھتے ہیں
تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسول اﷲﷺکا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر۷۰بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۱۷: ۳۰۷)
اس پُر فتن دور میں بعض افراد سود کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، کبھی کہتے ہیں کہ سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے؟ کبھی کہتے ہیں اگر سودی کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کیسے کر سکیں گے؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ اور کبھی انتہائی کم شرحِ سود کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں ، طرح طرح کی بد ترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی اس اعتراض کاجواب دیتے ہیں کہ کافروں نے اعتراض کیا تھا {اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا } بیشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے۔ تم جو خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا ہے۔
یہ اعتراض نقل کرنے کے بعدامام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی نے اللہ تعالی کایہ فرمان شریف نقل کیاہے کہ{وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا} یعنی اللہ تعالی نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود۔ اور پھر ارشاد فرمایا : تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو ، سرِ بندگی خم کرو۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں ، حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے ، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بیجا ہے ، یہ کیوں ہے؟ یوں نہ ہونا چاہئے ، یوں ہونا چاہئے۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں ہوتی تو اس ملک الملوک ، بادشاہِ حقیقی ، اَزَلی ، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے ، کا دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ لامام احمدرضاحنفی الماتریدی ( ۱۷: ۳۵۹)
اور جو شخص اللہ تعالی کے ان احکامات کو قید و بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے امام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی سمجھا رہے ہیں : جو آج بے قیدی چاہے کل نہایت سخت قید میں شدید قید میں گرفتار ہو گا۔ اور جو آج احکام کا مُقیَّد رہے کل بڑے چَین کی آزادی پائے گا۔
شطرنج کھیلنے والے کوبتوں کے پجاری کے ساتھ تشبیہ دینا
عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ:مَرَّ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ غَالِبٍ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَۃِ بِقَوْمٍ یَلْعَبُونَ بِالشِّطْرَنْجِ، فَقَالَ لِلْحَسَنِ:مَرَرْتُ بِقَوْمٍ قَدْ عَکَفُوا عَلَی أَصْنَامٍ لَہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ حضرت سیدناعبداللہ بن غالب رضی اللہ عنہ جواہل بصرہ میں سے ہیں ، ایک قوم کے پاس سے گزرے جوشطرنج کے ساتھ کھیل رہے تھے ، انہوںنے امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ میں ایسی قوم کے پاس سے گزراجو اپنے بتوں پرگرے ہوئے تھے۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۸:۴۴۲)
خنزیرکھانے والاکون؟
عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَمَنْ لَعِبَ بِالْکَعْبَیْنِ عَلَی الْقِمَارِ، فَکَأَنَّمَا أَکَلَ لَحْمَ خِنْزِیرٍ، وَمَنْ لَعِبَ بِہَا عَلَی غَیْرِ قِمَارٍ، فَکَأَنَّمَا ادَّہَنَ بِشَحْمِ خِنْزِیرٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جوالٹاکرٹخنوں سے کھیلاگویاکہ اس نے خنزیرکاگوشت کھایااورجواس کے ساتھ جوئے کے بغیرکھیلاتوگویااس نے خنزیرکی چربی کے ساتھ تیل لگایا۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۰:۴۶۸)
ذکرکئے بغیرجانے والے مردارکھانے والے ہیں
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فَتَفَرَّقُوا عَنْ غَیْرِ ذِکْرِ اللہِ، إِلَّا کَأَنَّمَا تَفَرَّقُوا عَنْ جِیفَۃِ حِمَارٍ، وَکَانَ ذَلِکَ الْمَجْلِسُ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ جو قوم جمع ہوپھروہ اللہ تعالی کاذکرکئے بغیراٹھ جائیں توایسے ہیں کہ گویاکہ وہ مردارکھاکراٹھے ہیں ۔ اوریہ مجلس ان کے لئے حسرت کاباعث ہوگی۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۵:۲۱)
بدکارعورت کو خنزیرکی مثل قراردیا
عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ:کَانَ یُقَالُ: مَثَلُ الْمَرْأَۃِ السَّیِّئَۃِ الْخُلُقِ کَالسِّقَاء ِ الْوَاہِی فِی الْمَعْطَشَۃِ، وَمَثَلُ الْمَرْأَۃِ الْجَمِیلَۃِ الْفَاجِرَۃِ کمَثَلُ خِنْزِیرٍ فِی عُنُقِہِ طَوْقٌ مِنْ ذَہَبٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہاجاتاتھاکہ بداخلاق عورت کی مثال ایسے ہے جیسے پیاس کی صورت میں پھٹاہوامشکیزہ اورخوبصورت بدکارعورت کی مثال ایسے ہے جیسے خنزیرجس کی گردن میں سونے کی زنجیرہو۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۳۰۲)
اس سے معلوم ہواکہ آجکل جتنی بھی خواتین فلم انڈسٹری سے اوراس طرح کے کاموں سے وابستہ ہیں وہ حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کے فرمان شریف کے مطابق مثل خنزیرہیں اوران کو خنزیرکہنابھی کوئی گالی نہیں ہے ۔ بلکہ عین حقیقت کابیان ہے ۔
خطبہ کے دوران بولنے والاگدھے کی طرح ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ تَکَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ، فَہُوَ کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا، وَالَّذِی یَقُولُ لَہُ:أَنْصِتْ، لَیْسَ لَہُ جُمُعَۃٌ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ جو شخص جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران بات چیت کرے تواس کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جس نے بہت سابوجھ اٹھارکھاہواورجواس بولنے والے سے کہے کہ خاموش ہوجائوتواس کاکوئی جمعہ نہیں ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳:۴۴۵)
بے ادب اورگستاخ کو شیطان کی آنکھ والاقراردیا
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَدْخُلُ عَلَیْکُمْ رَجُلٌ یَنْظُرُ بِعَیْنِ شَیْطَانٍ، أَوْ بِعَیْنَیْ شَیْطَانٍ قَالَ: فَدَخَلَ رَجُلٌ أَزْرَقُ، فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ، عَلامَ سَبَبْتَنِی َٔوْ شَتَمْتَنِی أَوْ نَحْوَ ہَذَا ؟قَالَ: وَجَعَلَ یَحْلِفُ، قَالَ: فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ فِی الْمُجَادَلَۃِ: (وَیَحْلِفُونَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُونَ)(المجادلۃ: ۱۴)
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ ایک بارحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: ابھی تمھارے پاس ایک ایساآدمی آئے گاجوشیطان کی آنکھ سے دیکھتاہے ، تھوڑی دیر میں ایک پیلے رنگ کاآدمی آیااورکہنے لگاکہ اے محمد(ﷺ)!آپ نے مجھے برابھلاکیوں کہا؟ اوراس پرقسم کھانے لگا، اس جھگڑے کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ یہ جھوٹ پرقسم کھالیتے ہیں اوران کو علم بھی نہیں ہے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۴:۴۸)
علماء کرام کے خلاف باتیں کرنے والوں کوکتیاکے بچے سے تشبیہ دی
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّہُ حَدَّثَہُمْ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:ضَافَ ضَیْفٌ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَفِی دَارِہِ کَلْبَۃٌ مُجِحٌّ، فَقَالَتِ الْکَلْبَۃُ:وَاللَّہِ لَا أَنْبَحُ ضَیْفَ أَہْلِی، قَالَ: فَعَوَی جِرَاؤُہَا فِی بَطْنِہَا، قَالَ: قِیلَ مَا ہَذَا؟ قَالَ:فَأَوْحَی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ: ہَذَا مَثَلُ أُمَّۃٍ تَکُونُ مِنْ بَعْدِکُمْ، یَقْہَرُ سُفَہَاؤُہَا حُلَماء َہَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ بنی اسرائیل کے ہاں ایک شخص مہمان آیا، میزبان کے گھرمیں ایک بھونکنے والی کتیاتھی، وہ کتیاکہنے لگی کہ میں اپنے مالک کے مہمان کے ساتھ نہیں بھونکوں گی ۔ اتنی دیرمیں اس کے پیٹ میں موجوداس کے پلے (کتورے) نے بھونکناشروع کردیا، کسی نے کہاکہ یہ کیاکیا؟ اس پراللہ تعالی نے اس زمانے کے نبی علیہ السلام پروحی بھیجی کہ یہ تمھارے بعد آنے والی اس امت کی مثال ہے جس کے پاگل لوگ عقلمندوں پرغالب آجائیں گے ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۱:۱۵۸)
اس حدیث شریف میں وہ تمام گستاخ شامل ہیں جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کریں یاائمہ کرام رضی اللہ عنہم کی ، یامحدثین عظام رحمہم اللہ تعالی کی ، یاپھرجوموجودہ دورمیں لبرل وسیکولرلوگ علماء کرام کی گستاخیاں کرنااپنافرض منصبی جانتے ہیں۔ اس حدیث شریف کی روشنی میں یہ سب کے سب اس کتیاکے بچے کی طرح ہیں جو مہمان کو بھونک پڑاتھا۔
خلاف سنت سجدہ کرنے والے کواونٹ کے ساتھ تشبیہ دی
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْجَمَلُ وَلْیَضَعْ یَدَیْہِ عَلَی رُکْبَتَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تواونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ پہلے ہاتھ زمین پررکھے پھرگھٹنے رکھے۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۲:۱۴۳)
حرام کھیل کھیلنے والاخنزیرکے خون اورقئے سے وضوکرنے والاہے
عَنْ مُوسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخَطْمِیِّ، أَنَّہُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ وَہُوَ یَسْأَلُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ یَقُولُ: أَخْبِرْنِی مَا سَمِعْتَ أَبَاکَ یَقُولُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: مَثَلُ الَّذِی یَلْعَبُ بِالنَّرْدِ ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّی مَثَلُ الَّذِی یَتَوَضَّأُ بِالْقَیْحِ وَدَمِ الْخِنْزِیرِ ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّی۔
ترجمہ:حضرت سیدنامحمدبن کعب رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناعبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہاکہ آپ نے اپنے والدماجدسے کوئی حدیث شریف سنی ہوتومجھے سنائو!توانہوںنے اپنے والد ماجدسے یہ حدیث شریف بیان کی کہ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ جوشخص بارہ ٹانی کے ساتھ کھیلتاہے اورپھرکھڑاہوکرنماز پڑھتاہے تواس کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو قئے اورخنزیرکے خون سے وضوکرکے نماز پڑھنے کے لئے کھڑاہوجائے۔
(مسند أبی یعلی:أبو یعلی أحمد بن علی بن المثُنی بن یحیی بن عیسی بن ہلال التمیمی، الموصلی (۲:۳۵۵)
لبرل کو گدھے اورمردارکے ساتھ تشبیہ دی
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّہَ یُبْغِضُ کُلَّ جَعْظَرِیٍّ جَوَّاظٍ سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ، جِیفَۃٍ بِاللَّیْلِ، حِمَارٍ بِالنَّہَارِ، عَالِمٍ بِأَمْرِ الدُّنْیَا، جَاہِلٍ بِأَمْرِ الْآخِرَۃِ.
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ بے شک اللہ تعالی ہرسخت مزاج ، متکبر، کنجوس اوربازاروں میں چیخ چیخ کربولنے والے شخص کو ناپسندفرماتاہے ، جو رات کو مردارکی طرح سویارہتاہے اوردن کے وقت گدھے کی طرح وقت گزارتاہے ، وہ دنیاوی امورمیں ماہرہوتاہے اورآخرت کے معاملے میں جاہل ہوتاہے ۔
(صحیح ابن حبان :محمد بن حبان بن أحمد بن حبان بن معاذ بن مَعْبدَ، التمیمی(۱:۲۷۳)
آجکل کے لبرل وسیکولرلوگ بھی اسی طرح ہیں کہ کھانے ، کمانے میں بہت تیزطرارہوتے ہیں اوردنیوی معاملات میں بڑے ماہرہوتے ہیں اورجب بات دین کی آئے اورآخرت کی آئے توپھران کو کچھ بھی معلوم نہیں ہوتااوراخروی معاملات سے بالکل جاہل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے شرسے محفوظ فرمائے اوراس حدیث شریف میں جوان کوگدھوں سے تشبیہ دی گئی ہے اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ گدھااپنے مستقبل کے متعلق فکرمندنہیں ہوتا، بس اسے بھی روزانہ گھاس کھانے کو مل جائے تووہ راضی ہی راضی ہے اسی طرح لبرل وسیکولرہے کہ اس کو بھی آخرت کی کوئی فکرنہیں ہے ، اسے بھی صرف اورصرف دنیاہی چاہئے اگرچہ اس کے لئے اس کو ایمان ہی بیچناپڑے ، چاہے ملک وقوم کی عزت دائوپرلگانی پڑے ۔