اسلامی نظام خلافت کے مبنی برعدل و انصاف اورمغربی جمہوریت کے مبنی برظلم ہونے کابیان
{وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ }(۱۱۶)
ترجمہ کنزالایمان:اور اے سننے والے زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں وہ صرف گمان کے پیچھے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اے سننے والے!زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ تعالی کی راہ سے ہٹا دیں ، یہ صرف گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور یہ صرف اندازے لگا رہے ہیں۔
اس آیت کریمہ {وَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ } میںصاف ارشادفرمایاکہ زمین پرجولوگ بستے ہیں اورآباد ہیں ان میں اکثرگمراہ ہیں اورتجربہ اس پر واضح گواہ اورشاہدہے ، اہل ایمان ان اکثریت والوں کی اطاعت کریں گے اوران کی باتیں مانیں گے تویہ لوگ اہل ایمان کو گمراہ کردیں گے ۔ راہ حق سے دورکردیں گے ، کیونکہ اکژیت حق اورانصاف کامعیار نہیں ہے ۔ بلکہ بے ہنرسوچ ، بے تعلیم ،بے عقل ، بے کمال لوگوں کاٹولہ ہوتاہے ۔ کیونکہ اکثریت حقانیت کی دلیل ہرگزنہیں ہوتی اورنہ ہی قوت فیصلہ اورصداقت کامعیارہوتی ہے اورقرآن کریم اورحدیث شریف اورنیز عرف محاورہ بشمول معاشرہ اس پر دلیل ہے کہ حق وباطل کے مقابل میں، اسلام کفرکے مقابلے میں ، طہارت خباثت کے مقابلے میں، علم وانصاف وتقوی وجہالت اورظلم وزیادتی کے مقابلے میں ہمیشہ ہر زمانہ اورہرہرمعاشرہ ہرعلاقہ میں اقلیت میں ہوتاہے ، ہرزمانہ میں اچھے لوگ ہوں یااچھی چیزیں ہوں یااچھی خصلت اوراچھے کرداراقلیت میں ہوتے ہیں اورہرقسم کی برائیاں اکثریت میں ہوتی ہیں ،کیونکہ دنیادارالفساد اوردارالشرورہے نہ کہ داراالصلاح وفلاح ۔ اسی طرح قیامت کے دن ہوگاجیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَوَّلُ مَنْ یُدْعَی یَوْمَ القِیَامَۃِ آدَمُ، فَتَرَاء َی ذُرِّیَّتُہُ، فَیُقَالُ: ہَذَا أَبُوکُمْ آدَمُ، فَیَقُولُ:لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، فَیَقُولُ:أَخْرِجْ بَعْثَ جَہَنَّمَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، فَیَقُولُ: یَا رَبِّ کَمْ أُخْرِجُ، فَیَقُولُ:أَخْرِجْ مِنْ کُلِّ مِائَۃٍ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ فَقَالُوا:یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِذَا أُخِذَ مِنَّا مِنْ کُلِّ مِائَۃٍ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ، فَمَاذَا یَبْقَی مِنَّا؟ قَالَ:إِنَّ أُمَّتِی فِی الأُمَمِ کَالشَّعَرَۃِ البَیْضَاء ِ فِی الثَّوْرِ الأَسْوَدِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے حضر ت سیدنا آدم علیہ السلام کو پکارا جائے گا توان کی اولاد انہیں دیکھے گی، کہا جائے گا: یہ تمہارے باپ آدم ہیں۔ حضرت سیدناآدم علیہ السلام جواب دیں گے میں سعادت مندی کیساتھ حاضر ہوں۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ اپنی نسل میں سے دوزخ کا حصہ الگ کردو۔ حضرت سیدنا آدم علیہ السلام عرض کریں گے:اے پروردگار!کس نسبت سے الگ کردوں؟ اللہ تعالٰی فرمائے گا:سو میں سے ننانوے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا:یارسول اللہ ﷺ!جب ہم میں سے ننانوے فیصد نکال لیے جائیں گے تو باقی کیا بچے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا:بلاشبہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں،سیاہ بال میں سفید بال کی طرح ہوگی۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۸:۱۱۰)
اسلامی نظام قوت رائے اورعلم وتقوی اورقوت عقل پرمبنی ہے ،مغربی جمہوریت جو کہ پورے عالم میں رائج ہے یہ چونکہ غیرمسلم اقوام کاایک غیرمہذب مبنی برظلم صرف اورصرف اسلام کے خلاف بنایاہوانظام ہے جس میں بلکہ اس کے ہردفعہ میں اسلامی نظام کی نفی ہے ، اس لئے یہ مغربی نظام غیراسلامی بھی ہے اورغیرشرعی بھی ہے ۔ نیزمبنی برظلم بھی ہے ، اسے اسلامی جمہوریت کہناایساہے جیساکوئی کہے : ’’اسلامی شراب‘‘ اس جمہوری نظام میں پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ طاقت کاسرچشمہ عوام الناس ہے ، یہ کلمہ کفریہ ہے بلکہ طاقت کااصلی سرچشمہ اللہ تعالی کی ہی ذات ہے ۔ اوربس پھراس نظام میں عورت مرد کے ساتھ ، کافرومنافق مسلمان کے ساتھ ، ایک ادنی بھنگی بڑے عالم دین کے ساتھ برابرہے ۔
جمہوریت و ملوکیت ایک عنوان کی دو فرع
نظام جمہوریت کے پیچھے کوئی اخلاقی تعلیم یا کوئی ایسی شریعت نہیں ہے جو اس کو حدود اور مقرر کردہ ضابطے میں رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ملوکیت و آمریت کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔
ڈیماکرائزیشن (جمہوریت)سیکولر کرنے کی وہ کوشش ہے، جو بظاہر لوگوں کو اظہار رائے کا حق دے کر جاتی ہے؛ لیکن جس کے پس پردہ دراصل امت کے ذہن اور صالح دماغوں کو بے دخل کرنا ہوتا ہے، چند سیکولر دماغ پوری آبادی کو اس کے ذریعے اغوا کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ جہاں یہ طریقہ ان کے خلاف جاتا ہے تواسے آمرانہ طریقے سے کچل دیتے ہیں، اس وقت انہیں جمہوریت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
مذکورہ بالا تجزیہ درحقیقت جمہوریت کی عملی تشریح ہے، جو اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ جمہوریت اور ملوکیت کے درمیان کوئی نمایاں فرق نہیں پایا جاتا، زیادہ سے زیادہ عنوان کا فرق ہوسکتا ہے؛ یعنی ایک عنوان کی دو فرعیں جمہوریت کی اس تشریح کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نظام اسلامی کے ساتھ جمہوریت کی ہم آہنگی کسی شکل میں نہیں ہوسکتی۔
جمہوریت اور ریشنلزم اسلامی نظریے کے مخالف
نظام اسلامی اورجمہوریت کے درمیان قدرے اشتراک اس امر میں ضرور ہے کہ ان دونوں نظام ہائے سلطنت نے شخصی اور وراثتی سلطنت کو صفحہء ہستی سے مٹانے میں اہم کردار ادا کیے ہیں لیکن اس ادنیٰ سی مناسبت کی وجہ سے ان دونوں نظام ہائے سلطنت کے اصولی و فروعی آپسی تناقض سے چشم پوشی کرنا کسی اعتبار سے بھی معقول نہیں۔ چوں کہ نظریے کے کسی بھی باب میں اتفاق کا لفظ اسی وقت استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ کم از کم ان دونوں نظریات کے بنیادی اصول و اغراض میں اتفاق ممکن ہو، حالاں کہ جمہوریت اوراسلامی نظام کے بنیادی نظریے میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیوں کہ حکومت اسلامی مسلمانوں کے ایمان باللہ، ایمان بالآخرۃ اوراسلامی مقاصد کو بروئے کار لانے کی ضامن ہے، جبکہ جمہوریت کے پس پردہ کوئی ایسی طاقت نہیں پائی جاتی جو ایسے مقاصد کو درجہء فعلیت میں لانے کی ضمانت دے سکے اوراگر کوئی طاقت ہے تو وہ ریشنلزم یا تعلقیت کی ہے جس کی ایک فرع جمہوریت ہے۔ ریشنلزم کی حقیقت سے متعلق جناب اسرار عالم صاحب انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
ریشنلزم ، خیالات کے مختلف زاویہ ہائے نظر اور تحریکات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت ضروری یا کافی ہے۔
یہ دراصل ایک نقطئہ نظر ہے جو مذہب میں عقل کواتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد و نظریات کو رد کرتا ہے جو عقل کے مطابق نہ پائے جائیں؛ لیکن اس لفظ کی موجودہ صورت دو معنوں کو محیط ہے:پہلا مفہوم اوپر ذکر ہوچکا ہے، جبکہ دوسرا اس کی وہ صورت گری ہے جوانیسویں صدی کے یورپ میں سامنے آئی جو سرا سر مذہب کو ڈھانے والی تھی۔
ظاہر ہے کہ اصل اور سرچشمے کی صورت یہ ہے تواس پر قائم ہونے والی جمہوریت ان بنیادی کمزوریوں سے کیوں کر پاک ہوسکتی ہے؟ یقینا جمہوریت بھی الٰہیاتی تصور کھوکر بین الاقوامی بدامنی میں تبدیل ہوجائے گی، پھر جمہوریت کا نظام اسلام کے موافق ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
حاکم اورخلیفہ میں بنیادی فرق
یہ دو مختلف چیزیں ہیں، حاکمیت کے باب میں ضروری ہے کہ اپنے احکام دوسروں پر لاگو کیے جائیںمگر خلافت سے مراد نیابت و جانشینی ہے، جن احکام کو خلیفہ دوسروں پر نافذ کرتا ہے وہ خود بھی ان کا مکلف ہوتا ہے اوراس کے لئے اپنے اوپر ان کا نفاذ ضروری ہوتاہے، اس لحاظ سے خلیفہ خداکی نیابت کے فرائض انجام دیتا ہے اس کی حیثیت صرف ایک امین کی ہوتی ہے، اس کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ عدل وانصاف اور مساوات عامہ کی شکلوں کو عالم کے روبرو پیش کرے اور یہ واضح کرے کہ نفس انسانیت کے لحاظ سے تمام افراد بشر مساوی ہیں۔
نظام اسلامی کے بنیادی اصول
نظام اسلامی کے بنیادی اصول کو جو دراصل قرآن و حدیث اور خلافت راشدہ کے طریقے سے ماخوذ ہیںہمارے محقق علماء کرام نے تتبع و جستجو کے بعد مندرجہ ذیل لفظوں کے ساتھ بیان کیا ہے:
(۱) خلیفہ کے انتخاب میں پوری بصیرت سے کام لیا جائے یعنی جتنی کوشش ممکن ہو کی جائے، پھر انتخاب کے بعد اس کے احکام جو کتاب و سنت اورمصالح مسلمین کے خلاف نہ ہو مان لیے جائیں۔
(۲)امور مہمہ میں جو منصوص نہ ہوں اہل حل و عقد سے مشورہ کیا جائے۔
(۳)بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملک نہیں وہ صرف مصالح مسلمین کے لئے ہے۔
(۴)سلطنت کے نظم و نسق میں حددرجہ سادگی اور کفایت شعاری اختیار کی جائے۔
(۵)عہدہ دار اور اہل منصب میں ادائے فرض کے اندر پوری دیانت داری برتی جائے۔
(۶)عہدہ داران سلطنت کیلئے مقررہ وظیفہ کے علاوہ رعایا سے کسی قسم کا تحفہ قطعاً ناجائزہے۔
(۷)رعایا سے شرعی ٹیکس کے علاوہ دوسرے قسم کے غیر شرعی ٹیکس نہیں لیے جاسکتے۔
(۸) حکام پر پورا پورا عدل فرض ہے، عدل و انصاف کی راہ میں رشوت، طرف داری اور بے انصافی ظلم اور گناہ کبیرہ ہے۔
(۹) کاشت کار اور زمین دار کے درمیان اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک مزدور یا اجارہ دار اورمالک کے درمیان۔
(۱۰) اسلامی سلطنت کے اندر ہرمسلمان جو معذور نہ ہو اس کا سپاہی ہے۔
اسلامی حکومت کے اغراض ومقاصد
اسلامی مفکرین اور قد آور دانشوروں نے اسلامی حکومت کے اغراض و مقاصد درج ذیل بیان کیے ہیں:
(۱) قیام عدل (۲) رفع فساد اور قیام امن (۳) افراد مملکت کو حریت فکر (۴) مجلس قانونی کو معاشی اور سیاسی مساوات عطا کرنا؛ یعنی اسلامی حکومت کااصل مطمح نظر یہ ہے کہ انسانوں کو غیرفطری رجحانات سے ہٹاکر فطرۃ اللہ یا نقطئہ عدل پر قائم کیا جائے۔
اسلام نے انسانیت کو حریت عامہ کاحق دیا
اسلام کا نظریہ سیاست ہر اعتبار سے ہمہ گیر اور لامحدود حیثیت رکھتا ہے،اس کی افادیت نسلی و وطنی حدود سے آزاد اور پورے عالم انسانیت کو محیط ہے، اس کی نگاہ کسی ایک شعبہء حیات پر نہیںبلکہ جملہ شعبہ ہائے زندگی کو محیط ہے اور وہ انسانوں کی بلندی خواہ فکری ہویا دینی، علمی ہو یا مادی، اخروی ہو یا دنیوی، ان تمام ضروریات میں کسی ضرورت سے بھی غافل نہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام کا موضوع نفس انسانیت ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے اور حریت اجتماع یا حریت فکر میں کسی بھی اعتبار سے ترجیحی سلوک نہیں برتتا۔ اسلامی نظریہء حاکمیت کسی کے لیے روادار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت میں دخل اندازی کرے؛ لہٰذا قدرتی طور پر اس کا نتیجہ آزادیء فکر اور مساوات عامہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔
اسلامی نظام خلافت میں آزادی اظہاررائے
یہی وجہ ہے کہ خلیفہء اسلام کو دوسرے لوگوں پر کوئی ترجیحی حیثیت حاصل نہیں اور نہ یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ و برتر تصور کرے بلکہ آزادیء فکراور شہری حقوق کے لحاظ سے وہ ایک عام شہری کا درجہ رکھتا ہے۔ اس آزادی کو ہر شعبہ میں ملحوظ خاطر رکھاگیا ہے؛ چنانچہ معاشی و اقتصادی طور پر خلیفہء اسلام کو مساوی حیثیت حاصل ہے، تقسیم اموال میں انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے یا کسی رشتہ دار کے لیے دوسروں سے زائد حصہ لے لے، نیز یہ بھی روا نہیں کہ قومی اجازت یا عام مشورہ کے بغیر مالی فنڈ سے خرچ کرسکے۔ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا اپنے مرض سے شفایابی کی خاطر تھوڑی شہد کے لیے عام مشورہ، قادسیہ کی لڑائی کے بعد تنخواہوں کے تعین کے وقت اول درجہ میں ہونے سے صاف نکیر کرنا اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی تنخواہ سے کم مقرر کرنا۔ یہ سب ایسے لازوال و لافانی نقوش ہیں کہ جن کی مثال نہیں۔
جمہویت میں عزل حاکم کااختیارکسی کونہیں ہوتاجبکہ ۔۔۔
بہت سے جمہوری ممالک میں متعینہ مدت تک حکمراں تخت و تاج شاہی کے مالک بنے بیٹھے رہتے ہیں، اس سے قبل عوام کو عزل امیر کا اختیار نہیں گو انتہائی سفاکیت و درندگی کا مظاہرہ کرے اور حقوق کی پامالی روز مرہ کا معمول بنارہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تعین سے قبل حکومت کا اصل منبع عوام کو سمجھا جاتا رہا اور تعین کے بعد انہیںعضو معطل گردان کر پس پشت ڈال دیاگیا، کیا یہ جمہوریت کے منافی نہیں؟ اسی لیے اسلام نے روزاول سے امارت و خلافت کا معیار اتباع شریعت کو قرار دیا، خلیفہ کے لیے واجب ہے کہ قدم بقدم متبع شریعت ہو؛ اگر وہ ایک قدم بھی آگے تجاوز کرتا ہے یا پیچھے مڑتا ہے تو عوام کو اس کو معزول کرنے کا کلی اختیار حاصل ہے۔
جمہوریت میں رائے والوں کامعیار
موجودہ طرز حکومت میں اخلاقی معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری ملکوں میں ہر آزاد شخص کو اور نیم جمہوری ممالک میں امارت کا معیار تعلیم اورجاہ و دولت کو قرار دیا جاتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی صالح، مہذب و سلیقہ مند خلیفہ کا انتخاب مشکل ہی نہیں محال ہے، زیادہ سے زیادہ پارٹی سے متعلق جماعت ایسے شخص پر آمادئہ انتخاب ہوگی جو ان کی ذاتی و جماعتی خواہشات کی تکمیل کرسکتا ہو، جہاں رسہ کشی کا ہونا قطعاً ناگزیر ہے، اس کے برعکس اسلام کا طرز انتخاب بالکل جداگانہ ہے، اس سلسلے میں ہر بالغ کے فیصلے و رائے کی عدم درستگی پر مبنی ہونے کی وجہ سے چند سرکردہ شخصیات، ارباب دانش، اصحاب فکر اور ذی رائے ہی سے مشورہ لیا جائے اور انہی کو اختیار دیاگیا کہ کسی نیک سیرت، تقوی شعار اورحامل علوم کتاب و سنت کو اقتدار کی گدی پر بٹھائیں؛ تاکہ کسی کے لئے انگشت نمائی کا موقع باقی نہ رہے؛ کیوں کہ اسلام میں اعتماد عام اور وجہ ترجیح علم و عمل ہے اوراسی شخص کی رائے باوزن ہوسکتی ہے جو ان اوصاف سے متصف ہو، اسلام میں ایسے افراد کو ارباب حل و عقد سے موسوم کیا جاتا ہے؛ چنانچہ خلفائے اربعہ کا انتخاب اسی طرز پر ہوا، انصار و مہاجرین کو ارباب حل و عقد تسلیم کیا جاتا رہا اور ان کے فیصلے کو پوری امت کے لیے حکم ناطق کی حیثیت حاصل رہی۔
حاکم بننے کی خواہش کرنے پربھی اسلام نے پابندی عائدکردی
موجودہ جمہوریت میں سب سے عظیم نقص یہ ہے کہ اقتدار کے لیے چند افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں جنگ و جدال، قتل و قتال اور دوسری پارٹی کا نہایت بے دردی کے ساتھ سیم و زر لٹانا یہ سبھی کچھ ڈرامے رونما ہوتے ہیں؛ اس لیے اسلام نے امارت کی خواہش پر پابندی عائد کردی؛ اگر اسلام کے اس نہج کو اپنایا جائے تواس سے لازماً دو فائدے ہوسکتے ہیں: اوّل یہ کہ انتخابی کش مکش اور باہمی تصادم سے نجات ملے گی۔ دوم یہ کہ جب کوئی امارت کا مدعی نہ ہوگا توامت پر خوف یا لالچ کی فکر غالب نہ آئے گی اور صحیح خلیفہ متعین کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی۔
جمہوریت کالب لباب
درحقیقت جمہوریت سے مراد نظم معاشرت اور عوامی حکومت کی آڑ میں انسان کے فکر و نظر، تہذیب و تمدن کو عقیدے اور دین سے منقطع کرکے اسے اہل مذہب کی بجائے ملحد بنادینا ہے تاکہ ایک ایسی عام تنظیم قائم ہوجائے جس کے پردے میں شاطرانِ زمانہ ساری دنیا پر اپنی آمریت قائم کرسکیں، جس نظام کا نصب العین اور نظریہ ایسا ہوگا، یقینا نظام الٰہی کا اس سے تصادم اور ٹکراؤ معرکہ کی شکل میں ہوگا۔