احکامات شرع کی بے حرمتی کرنے والے کے متعلق سخت کلمات کہنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل

احکامات شرع کی بے حرمتی کرنے والے کے متعلق سخت کلمات کہنے کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاعمل

حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ کاعمل شریف
عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ:أَتَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَسَأَلْتُہُ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَطُوفُ بِالْبَیْتِ یَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ تَحِیضُ، قَالَ:لِیَکُنْ آخِرُ عَہْدِہَا بِالْبَیْتِ قَالَ: فَقَالَ الْحَارِثُ: کَذَلِکَ أَفْتَانِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ:أَرِبْتَ عَنْ یَدَیْکَ سَأَلْتَنِی عَنْ شَیْء ٍ سَأَلْتَ عَنْہُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِکَیْ مَا أُخَالِفَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناحارث بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے اس عورت کے متعلق حکم پوچھاجوبیت اللہ کاطواف کررہی تھی ، پھراس کوایام خاص لاحق ہوگئے توانہوںنے فرمایاکہ اس کاآخری کام بیت اللہ شریف کاطواف ہوناچاہئے ، حضرت سیدناحارث رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بھی مجھے یہی مسئلہ بتایاتھا، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے ان کو سخت سست کہااورفرمایاکہ تم مجھ سے اس چیز کے متعلق دریافت کررہے ہوجس کے متعلق تم حضورتاجدارختم نبوتﷺسے پوچھ چکے ہو۔ لیکن میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرمان شریف کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
(سنن أبی داود: أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۲:۲۰۸)
حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ کاعمل
عَنِ الشَّعْبِیِّ، قَالَ:سَمِعَ عَبْدُ اللَّہِ، رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّتَہُ فِی الْمَسْجِدِ، فَأَغْضَبَہُ، فَقَالَ رَجُلٌ:یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا کُنْتَ فَاحِشًا. فَقَالَ: إِنَّا أُمِرْنَا بِذَلِکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الشعبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کومسجد شریف میں کسی گم شدہ چیز کااعلان کرتے ہوئے سناتوآپ رضی اللہ عنہ سخت غصہ ہوئے تووہ شخص کہنے لگاکہ اے ابوعبدالرحمن !آپ توایسی فحش باتیں نہیں کرتے تھے ؟ آپ رضی للہ عنہ نے فرمایاکہ جب بات دین اورشریعت کی آئے توہمیں اسی طرح کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔
(عمل الیوم واللیلۃ :أحمد بن محمد بن إسحاق الدِّیْنَوَریُّ، المعروف بـ ابن السُّنِّی (۱:۱۳۱)

حضرت سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ کاعمل شریف

عن ابن سیرین قال:سمع أبی بن کعب رجلا یعتری ضالتہ فی المسجد، فغضبہ فقال: یا أبا المنذر ما کنت فاحشا،قال:إنا أمرنا بذلک۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کومسجدشریف میں کسی گم شدہ چیز کااعلان کرتے ہوئے سناتو آپ رضی اللہ عنہ سخت غصہ ہوئے تووہ کہنے لگاکہ اے ابوالمنذر!آپ رضی اللہ عنہ تواس طرح فحش گونہیں تھے توآپ کوکیاہوا؟ آپ رضی للہ عنہ نے فرمایاکہ جب بات دین اورشریعت کی آئے توہمیں اسی طرح کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔
(کنز العمال :علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۸:۳۱۷)

حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاعمل شریف

عَنْ أَبِی عُثْمَانَ قَالَ:سَمِعَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِی الْمَسْجِدِ، فَغَضِبَ وَسَبَّہُ، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ:مَا کُنْتَ فَحَّاشًا یَا ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّا کُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِکَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوعثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مسجد شریف میں گم شدہ چیزکااعلان کرتے ہوئے سناتوسخت غصے ہوئے اوراس کو گالی دی تووہ کہنے لگاکہ اے ابن مسعود !آپ رضی اللہ عنہ تواس طرح فحش گونہیں تھے توآپ کوکیاہوا؟ آپ رضی للہ عنہ نے فرمایاکہ جب بات دین اورشریعت کی آئے توہمیں اسی طرح کرنے کاحکم دیاگیاہے ۔
(صحیح ابن خزیمۃ:أبو بکر محمد بن إسحاق بن خزیمۃ بن المغیرۃ النیسابوری (۲:۲۷۳)

امام حسن اورامام حسین رضی ا للہ عنہماکاعمل شریف

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ:أَنَّ حَسَنًا، وَحُسَیْنًا، کَانَا یُسْرِعَانِ إِذَا سَمِعَا مُنَادِیَ مَرْوَانَ، وَہُمَا یَشْتُمَانِہِ یُصَلِّیَانِ مَعَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوجعفرمحمدباقررضی اللہ عنہ نے روایت فرمایاکہ حضرت سیدناامام حسن اورامام حسین رضی اللہ عنہماجب مروان کے موذن کی آواز سنتے توجلدی کرتے اورمروان کو گالیاں بھی دیتے تھے اوراس کے ساتھ نماز بھی اداکرتے تھے۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۳۸۶)
اس سے معلوم ہواکہ کسی امام کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتوبھی اس کی اقتداء میں نما زہوجاتی ہے ۔

حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاعمل شریف

عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلًا أَتَی إِلَی عَلِیٍّ فَقَالَ:إِنِّی سَرَقْتُ فَانْتَہَرَہُ وَسَبَّہُ فَقَالَ: إِنِّی سَرَقْتُ فَقَالَ عَلِیٌّ:اقْطَعُوہُ قَدْ شَہِدَ عَلَی نَفْسِہِ مَرَّتَیْنِ فَلَقَدْ رَأَیْتُہَا فِی عُنُقِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناقاسم بن عبدالرحمن رحمہ اللہ تعالی اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے پاس آیااورکہنے لگاکہ میں نے چوری کی ہے اورآپ رضی اللہ عنہ نے اس کو ڈانٹااوربرابھلاکہا، اس نے پھرکہاکہ میں نے چوری کی ہے ،توحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اس کاہاتھ کاٹ دو، اس نے اپنے خلاف دومرتبہ گواہی دی ہے ، میں نے وہ ہاتھ اس کی گردن میں لٹکاہوادیکھا۔
(أسمی المطالب فی سیرۃ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ:عَلی محمد محمد الصَّلاَّبی(۱:۴۰۹)م

حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکاعمل شریف

عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ:مَرَّتْ بِنَا جِنَازَۃٌ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:لَوْ قُمْتَ بِنَا مَعَہَا، قَالَ:فَأَخَذَ بِیَدِی فَقَبَضَ عَلَیْہَا قَبْضًا شَدِیدًا، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَقَابِرِ سَمِعَ رَنَّۃً مِنْ خَلْفِہِ، وَہُوَ قَابِضٌ عَلَی یَدِی،فَاسْتَدَارَ بِیِ فَاسْتَقْبَلَہَا، فَقَالَ لَہَا شَرًّا وَقَالَ:نَہَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتْبَعَ جِنَازَۃٌ مَعَہَا رَنَّۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ ایک دفعہ ہمارے قریب سے ایک جنازہ گزرا، حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایاکہ آئوا سکے ساتھ چلیں ۔ یہ کہہ کرانہوںنے میراہاتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلیا، جب ہم قبرستان کے قریب پہنچے توپیچھے سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ اس وقت بھی حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہمانے میراہاتھ پکڑاہواتھا، وہ مجھے لیکرپیچھے کی جانب گھومے اوراس رونے والی کے پاس جاکرکھڑے ہوگئے اوراس کوسخت سست کہااورفرمایاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جنازے کے ساتھ کسی رونے والی کو جانے سے منع فرمایا۔
(شرح معانی الآثار:أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامۃ لمعروف بالطحاوی (۱:۴۸۴)

دوسری حدیث شریف
عَنْ ابْنِ شِہَابٍ، أَنَّہُ قَالَ:أَخْبَرَنِی سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ،یَقُولُ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا تَمْنَعُوا، یَعْنِی النِّسَاء َ،الْمَسَاجِدَ إِذَا اسْتَأْذَنَّکُمْ إِلَیْہَا قَال بِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ: وَاللَّہِ لَنَمْنَعُہُنَّ: فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ عَبْدُ اللَّہِ حِینَ قَالَ ذَلِکَ:فَسَبَّہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا، جب عورتیں تم سے مسجدشریف جانے کی اجازت مانگیں توتم ان کو مت روکاکرو! اس پربلال بن عبداللہ نے کہاکہ اللہ تعالی کی قسم !ہم توان کو روکیںگے۔ توحضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اس کی طرف متوجہ ہوکراس کو گالی دی ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۱۰:۳۶۸)

جوحکمران لوگوں کو کفرمیں مبتلاء کرے اس کو گالیاں دیناکیسا؟

أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہُ:عَمَّارٌ:قَالَ:أَدْرَبْنَا عَامًا،ثُمَّ قَفَلْنَا وَفِینَا شَیْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ،فَذُکِرَ الْحَجَّاجُ فَوَقَعَ فِیہِ وَشَتَمَہُ، فَقُلْتُ لَہُ:لِمَ تَسُبُّہُ وَہُوَ یُقَاتِلُ أَہْلَ الْعِرَاقِ فِی طَاعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَقَالَ:إِنَّہُ ہُوَ الَّذِی أَکْفَرَہُمْ، ثُمَّ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:یَکُونُ فِی ہَذِہِ الْأُمَّۃِ خَمْسُ فِتَنٍ، فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ، وَبَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ، وَہِیَ الصَّیْلَمُ، وَہِیَ فِیکُمْ یَا أَہْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَکْتَہَا، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ حَجَرًا فَکُنْہُ، وَلَا تَکُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ، وَإِلَّا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: وَلَا تَکُنْ ،قَدْ حَدَّثَنَا بِہِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ:أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ ، قُلْتُ:یَرْحَمُکَ اللَّہُ أَفَلَا کُنْتَ أَعْلَمْتَنِی أَنَّکَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أُسَائِلَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنادائوبن ہندرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل شام میں سے ایک آدمی جس کانام عمارتھااس کاکہناہے کہ ایک سال ہم دشمن کے ملک میںداخل ہوگئے ، پھروہاں سے لوٹ آئے ، ہم میں قبیلہ خثعم کے ایک بزرگ بھی تھے ، انہوںنے حجاج بن یوسف کاتذکرہ کیاتواسے خوب گالیاں دیں ، میںنے ان سے کہاکہ آپ اسے کیوں گالیاں دے رہے ہیں؟ وہ توامیرالمومنین کی اطاعت میں اہل عراق کے ساتھ قتال کررہاہے ، انہوںنے فرمایاکہ ان لوگوں کوکفرمیں مبتلاء کرنے والاوہی توہے ۔ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ اس امت میں پانچ فتنے ہوں گے ، جن میں سے چارگزرگئے اوران میں سے ایک رہ گیاہے اوروہ جڑسے مٹادینے والی جنگ اوراہل شام اوروہ تم میں سے ہے ، اگرتم اس زمانے کو پائواورتمھارے اندریہ طاقت ہوکہ پتھربن جائوتوبن جائواورفریقین میں سے کسی کے ساتھ نہ ہونااورزمین میں سے اپنانفقہ تلاش کرنا، میںنے ان سے پوچھاکہ کیا واقعی آپ نے یہ حدیث شریف حضورتاجدارختم نبوتﷺسے سنی ہے ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہاں ۔ میں نے عرض کی : اللہ تعالی آپ پررحم فرمائے ۔ اگرآپ نے مجھے پہلے بتایاہوتاکہ آپ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی زیارت کی ہے تومیں آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ پوچھ ہی لیتا۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:أبو الحسن نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (۷:۳۰۹)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرمان کے خلاف بات ہونے پر جلال

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، قَالَ :لَمَّا وَقَعَ الطَّاعُونُ بِالشَّامِ، خَطَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ النَّاسَ، فَقَالَ: إِنَّ ہَذَا الطَّاعُونَ رِجْسٌ،فَتَفَرَّقُوا عَنْہُ فِی ہَذِہِ الشِّعَابِ وَفِی ہَذِہِ الْأَوْدِیَۃِ، فَبَلَغَ ذَلِکَ شُرَحْبِیلَ بْنَ حَسَنَۃَ قَالَ: فَغَضِبَ فَجَاء َ وَہُوَ یَجُرُّ ثَوْبَہُ مُعَلِّقٌ نَعْلَہُ بِیَدِہِ، فَقَالَ:صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَمْرٌو أَضَلُّ مِنْ حِمَارِ أَہْلِہِ، وَلَکِنَّہُ رَحْمَۃُ رَبِّکُمْ، وَدَعْوَۃُ نَبِیِّکُمْ، وَوَفَاۃُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ

ترجمہ :حضرت سیدناعبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جب شام میں طاعون کی وباپھیلی توحضر ت سیدناعمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئے فرمایاکہ یہ طاعون ایک عذاب ہے ، اسلئے تم اس علاقہ سے منتشرہوکران گھاٹیوں اوروادیوںمیں چلے جائو، حضرت سیدناشرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تووہ ناراض ہوئے اوراپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے اورہاتھ میں جوتاپکڑے ہوئے آئے اورکہنے لگے کہ میںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی صحبت پائی ، عمروتم اپنے گھرکے گدھے سے بھی زیادہ بے وقوفی کی بات کررہے ہو، یہ طاعون توتمھارے رب تعالی کی رحمت ہے اورتمھارے حبیب کریم ﷺکی دعاہے اورتم سے پہلے کے نیک لوگوںکی وفات کاسبب رہاہے ۔ حضرت سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی توانہوںنے حضرت سیدناشرحبیل رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی ۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲۹:۳۸۱)

حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکاابن صائدکوسخت سست کہنا

عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّہُ رَأَی ابْنَ صَائِدٍ فِی سِکَّۃٍ مِنْ سِکَکِ الْمَدِینَۃِ، فَسَبَّہُ ابْنُ عُمَرَ، وَوَقَعَ فِیہِ فَانْتَفَخَ حَتَّی سَدَّ الطَّرِیقَ، فَضَرَبَہُ ابْنُ عُمَرَ بِعَصًا کَانَتْ مَعَہُ حَتَّی کَسَّرَہَا عَلَیْہِ، فَقَالَتْ لَہُ حَفْصَۃُ: مَا شَأْنُکَ وَشَأْنُہُ؟ مَا یُولِعُکَ بِہِ؟ أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّمَا یَخْرُجُ الدَّجَّالُ مِنْ غَضْبَۃٍ یَغْضَبُہَا قَالَ عَفَّانُ: عِنْدَ غَضْبَۃٍ یَغْضَبُہَا وَقَالَ یُونُسُ فِی حَدِیثِہِ: مَا تَوَلُّعُکَ بِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنانافع رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمرر ضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے مدینہ منورہ کی کسی گلی میں ایک مرتبہ ابن صائد کو دیکھاتواس کو سخت گالیاں دیں اوراس کے متعلق سخت جملے استعمال فرمائے ، جس پروہ اتناپھول گیاکہ راستہ ہی بندہوگیا، حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اپنی لاٹھی سے ماراتووہ ٹوٹ گئی ، حضرت سیدتناحفصہ رضی اللہ عنہانے یہ معلوم ہونے پران کو کہاکہ آپ کااس سے کیاکام ہے ، تم اس کو کیوں بھڑکارہے ہو؟ کیاآپ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے ہوئے نہیں سناکہ دجال کو کوئی شخص غصہ دلائے گااوراسی غصہ میں آکرخروج کردے گا۔
( صحیح ابن حبان:محمد بن حبان بن أحمد بن حبان أبو حاتم، الدارمی، البُستی (۱۵:۲۰۴)

تابعین کرام رضی اللہ عنہم کاعمل

امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کاحجاج کو شیطان کہنا

عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَیُّوبَ، عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ:قَدِمَ الْمَدِینَۃَ قَوْمٌ فَاجْتَوَوْہَا، فَأَمَرَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَعَمٍ، وَأَذِنَ لَہُمْ بَأَبْوَالِہَا، وَأَلْبَانِہَا فَلَمَّا صَحَوْا قَتَلُوا الرَّاعِیَ، وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَأُتِیَ بِہِمُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ أَیْدِیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ، وَسَمَلَ أَعْیُنَہُمْ، وَتُرِکُوا حَتَّی مَاتُوا قَالَ:وَقَالَ لِی ہِشَامُ بْنُ عُرْوَۃَ سَمَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْیُنَہُمْ وَذَکَرَ أَنَّ أَنَسًا، ذَکَرَ ذَلِکَ لِلْحَجَّاجِ فَقَالَ الْحَسَنُ: عَمِدَ أَنَسٌ إِلَی شَیْطَانٍ فَحَدَّثَہَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطَعَ وَسَمَلَ، یَعِیبُ ذَلِکَ عَلَی أَنَسٍ، فَقُلْتُ لَہُ:مَا سَمَلَ؟ قَالَ:تُحَدُّ الْمِرْآۃُ، أَوِ الْحَدِیدُ، ثُمَّ یُقَرَّبُ إِلَی عَیْنَیْہِ حَتَّی تَذُوبَا.
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کچھ لوگ مدینہ منورہ آئے اوران کے جسم پھول گئے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو اونٹوں کی طرف بھیجا، ان کادودھ اورپیشاب پینے کی اجازت عطافرمائی ، پھرجب وہ تندرست ہوگئے توانہوںنے چرواہے کو قتل کردیااوراونٹوں کو ہانک کرلے گئے ، ان کو پکڑ کرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں لایاگیاتو آپﷺنے ان کے ہاتھوں اوران کے پائوں کوکٹوادیااوران کی آنکھیں داغ دیں اوران کو پھینک دیایہاں تک کہ وہ مرگئے ۔
راوی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدناہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کی آنکھیں داغ دیں اوریہ ذکرکیاکہ حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث شریف حجاج بن یوسف کو بیان کی توحضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ شیطان کے پاس گئے اوراس نے ان کو بتایاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہاتھ پائوں کاٹے اورآنکھیں داغیں ، گویاکہ وہ اس وجہ سے حضرت سیدناانس رضی اللہ عنہ پرعیب لگارہے تھے ۔۔۔الی آخرہ۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۲۵۷)

امام ابراہیم النخعی رضی اللہ عنہ کاعمل

حَدَّثَنَا سُفْیَانُ عَنْ زَیْدٍ شَیْخٌ یَکُونُ فِی مُحَارِبٍ قال: سمعت إبراہیم یسب الحجاج.
ترجمہ :حضرت سیدنازید رحمہ اللہ تعالی جوکہ محارب قوم میں شیخ تھے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناامام ابراہیم رضی اللہ عنہ کوسناکہ آپ رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کو گالیاں دیاکرتے تھے ۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع المعروف بابن سعد (۶:۲۸۶)

یزید پلیدکو سخت سست کہنا

ثُمَّ خَرَجَ الضَّحَّاکُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَجَلَسَ فِیہِ وَذَکَرَ یَزِیدَ بْنَ مُعَاوِیَۃَ فَسَبَّہُ۔
ترجمہ :امام ، عز الدین ابن الأثیرالمتوفی : ۶۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ پھرحضرت سیدناضحاک رحمہ اللہ تعالی مسجد شریف کی طرف آئے اور بیٹھ گئے پھریزیدپلید کاذکرہواتواس کو سب وشتم کیا۔
(الکامل فی التاریخ:أبو الحسن علی بن أبی الکرم عز الدین ابن الأثیر (۳:۲۳۹)

احادیث مبارکہ سے ثبوت

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی دعا

عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ یَدْعُو حَتَّی إِنِّی لَأَسْأَمُ لَہُ مِمَّا یَرْفَعُہُمَا: اللَّہُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَلَا تُعَذِّبْنِی بِشَتْمِ رَجُلٍ شَتَمْتُہُ أَوْ آذَیْتُہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺیہ دعاکیاکرتے تھے کہ اے اللہ !میں بھی بشرہوں ، سومجھے کسی شخص کو گالی دینے سے عذاب نہ دیناجسے میں گالی دوں یاتکلیف دوں۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۲۵۰)
جوتجھے گالیاں دے توبھی اسے دے
عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ:حَسِبْتُ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ:بَعَثَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّۃً، فَقَالَ:إِنْ أَخَذْتُمْ ہَبَّارَ بْنِ الْأَسْوَدِ فَاجْعَلُوہُ بَیْنَ شُعْبَتَیْنِ مِنْ حَطَبٍ، ثُمَّ أَلْقُوا فِیہَا النَّارَ ثُمَّ قَالَ:سُبْحَانَ اللَّہِ، مَا یَنْبَغِی لِأَحَدٍ أَنْ یُعَذِّبَ بِعَذَابِ اللَّہِ، إِنْ وَجَدْتُمُوہُ فَاقْطَعُوا یَدَہُ، ثُمَّ رِجْلَہُ، ثُمَّ اقْطَعُوا یَدَہُ، ثُمَّ رِجْلَہُ قَالَ:فَلَمْ تُصِبْہُ تِلْکَ السَّرِیَّۃُ وَأَصَابَتْہُ نَقْلَۃٌ إِلَی الْمَدِینَۃِ قَالَ:وَکَانَ رَجُلًا سَبَّابًا، فَأُتِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقِیلَ ہَذَا ہَبَّارُ بْنُ الْأَسْوَدِ یُسَبُّ فَمَا یَسُبُّ قَالَ:فَجَاء َہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْشِی حَتَّی قَامَ عَلَیْہِ، وَکَانَ ہَبَّارُ مُسْلِمًا فَقَالَ لَہُ: سُبَّ مَنْ سَبَّکَ، سُبَّ مَنْ سَبَّکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک جماعت بھیجی ، پھرفرمایاکہ اگرتم ہباربن اسودکو پکڑوتواسے دونوں طرف لکڑیاں رکھ کربیچ میں ڈال دینااورلکڑیوں کو آگ لگادینا۔ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ سبحان اللہ !کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے عذاب جیساعذاب دے ۔ اگرتم اسے پائوتواس کے ہاتھ کاٹ دینا، پھراس کے پائوں ، پھراس کاہاتھ کاٹ دینااورپھرا س کاپائوں کاٹ دینا۔ وہ جماعت تواسے نہ پاسکی ، لیکن مدینہ منورہ کی طرف آنے والے قافلے نے اسے پکڑلیا، وہ بہت زیادہ گالیاں نکالاکرتاتھا، تواسے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پاس لایاگیا، عرض کی گئی کہ یہ ہباربن الاسودہے ۔ اسے گالیاں نکالی جاتی ہیں اوریہ نہیں نکالتا، پھروہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت میں چلتاہواآیااورآپﷺکے سامنے کھڑاہوگیا، ہبارمسلمان تھا، آپ ﷺنے اسے فرمایا: اسے گالی دی جائے جوتجھے گالی دی ،اسے گالی دی جائے جو تجھے گالی دے۔
(المصنف:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۵:۲۱۳)

گالی دینے کاگناہ ابتداء کرنے والے پرہے

عَنْ قَتَادَۃَ، أَنَّ عِیَاضَ بْنَ حِمَارٍ، قَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَرَأَیْتَ إِنْ شَتَمَنِی رَجُلٌ ہُوَ أَوْضَعُ مِنِّی ہَلْ عَلَیَّ جُنَاحٌ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْمُتَشَاتِمَانِ شَیْطَانَانِ یَتَہَاتَرَانِ وَیَتَکَاذَبَانِ قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: الْمُتَشَاتِمَانِ مَا قَالَا عَلَی الْأَوَّلِ حَتَّی یَعْتَدِیَ الْمَظْلُومُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت سیدناعیاض بن حماررضی اللہ عنہ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!آپ یہ ارشادفرمائیں !اگرکوئی شخص جومجھ سے کم درجہ کاہواوروہ مجھے گالی دے ، توکیامجھ پرکوئی گناہ ہوگااگرمیں بھی اس کو جواب میں گالی دوں ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ باہم گالیاں دینے والے دونوں شیطان ہیں ۔ وہ دونوں ایک دوسرے پرالزام لگارہے ہیں اورجھوٹ بول رہے ہیں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ دونوں گالیاں نکالنے والے کاگناہ پہلے پرہوگاجب تک مظلوم زیادتی نہ کرے ۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۱۷۷)
گالی دینے کاگناہ مبتدی پرہے
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَی الْبَادِی مِنْہُمَا مَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُومُ
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ دونوں گالیاں نکالنے والوں کاگناہ پہلے پرہوگاجب تک مظلوم زیادتی نہ کرے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۴:۲۷۴)

اس حدیث شریف پر کلام
وَإِنَّمَا کَانَ الْإِثْمُ کُلُّہُ عَلَیْہِ؛لِأَنَّہُ کَانَ سَبَبًا لِتِلْکَ الْمُخَاصَمَۃِ، وَقِیلَ:إِثْمُ مَا قَالَا لِلْبَادِئِ أَکْثَرُ مِمَّا یَحْصُلُ لِلْمَظْلُومِ(مَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُومُ)فَإِنْ جَاوَزَ الْحَدَّ بِأَنْ أَکْثَرَ الْمَظْلُومُ شَتْمَ الْبَادِئِ وَإِیذَاء َہُ صَارَ إِثْمُ الْمَظْلُومِ أَکْثَرَ مِنْ إِثْمِ الْبَادِئِ، وَقِیلَ:إِذَا تَجَاوَزَ فَلَا یَکُونُ الْإِثْمُ عَلَی الْبَادِئِ فَقَطْ، بَلْ یَکُونُ الْآخَرُ آثِمًا أَیْضًا بِاعْتِدَائِہِ، وَحَاصِلُ الْخِلَافِ یَرْجِعُ إِلَی خِلَافِ الِاعْتِدَاء ِقَالَ الطِّیبِیُّ:یَجُوزُ أَنْ تَکُونَ مَا شَرْطِیَّۃً، وَقَوْلُہُ:فَعَلَی الْبَادِئِ جَزَاؤُہُ، أَوْ مَوْصُولَۃً ’’فَعَلَی الْبَادِئِ ‘‘خَبَرُہُ، وَالْجُمْلَۃُ مُسَبَّبَۃٌ، وَمَعْنَاہُ إِثْمُ مَا قَالَاہُ عَلَی الْبَادِئِ إِذَا لَمْ یَعْتَدِ الْمَظْلُومُ، فَإِذَا تَعَدَّی یَکُونُ عَلَیْہِمَا، نَعَمْ إِلَّا إِذَا تَجَاوَزَ غَایَۃَ الْحَدِّ فَیَکُونُ إِثْمُ الْقَوْلَیْنِ عَلَیْہِ۔
ترجمہ :حضرت ملاعلی قاری حنفی المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف کامطلب یہ ہے کہ اگردوشخص آپس میں گالم گلوچ کرنے لگیں اورایک دوسرے کو برابھلاکہنے لگیں اورایک دوسرے کے حق میں بدکلامی ، سخت گوئی کریں تواس ساری گالم گلوچ اوربرابھلاکہنے کاگناہ اس شخص پر ہوگاجس نے گالیاں دینے کی ابتداء کی ہوگی ، گالیاں دینے کی ابتداء کرنے والے کو اپنی گالم گلوچ کاگناہ توہوگاہی ساتھ دوسرے شخص کی گالم گلوچ کاگناہ بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا۔

گالیوں کی ابتداء کرنے والے کوساراگناہ ملنے کے دوسبب

(۱) وہ اس لڑائی کاسبب بناہے ۔(۲) اس نے گالم گلوچ کی ابتداء کرکے دوسرے شخص پر ظلم کیاہے اوراس اعتبارسے وہ ظالم کہلائے گااوردوسراشخص مظلوم کہلائے گا۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب دوسراشخص جواب دینے میں زیادتی نہ کرے ، اگردوسراشخص حدسے تجاوزکرگیابایں طورپراس کی گالی گلوچ اول کی گالی گلوچ سے بڑھ گئی یااول نے جوایذاپہنچائی تھی اس کے جواب میں ثانی نے اس سے بھی زیادہ ایذاپہنچادی تواس صورت میں اول کی بانسبت ثانی پر زیادہ گناہ ہوگا۔ بعض حضرات نے یہ لکھاہے کہ جب ثانی تجاوزکرے گاتوگناہ فقط اول پرنہیں رہے گابلکہ ثانی بھی اس تجاوزکی وجہ سے گناہ گارہوگا۔ ساری بات کاحاصل یہ ہے کہ اس کامدارتجاوزپرہے ۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: علی بن محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری(۷:۳۰۲۸)

اگرکوئی گالی دے تواس کابدلہ لیناجائز ہے

عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ:سَبَّ الْحَجَّاجَ بْنُ یُوسُفَ رَجُلٌ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، فَقَالَ عُمَرُ:أَظَلَمَکَ بِشَیْء ٍ؟ ، قَالَ: نَعَمْ، ظَلَمَنِی بِکَذَا وَکَذَا، قَالَ عُمَرُ:فَہَلَّا تَرَکْتَ مَظْلَمَتَکَ حَتَّی تَقْدَمَ عَلَیْہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَہِیَ وَافِرَۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ حجاج بن یوسف کو ایک شخص نے حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کے پاس گالی دی ، حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ نے پوچھاکیااس نے تجھ پرکوئی ظلم کیاتھا؟ تواس نے کہا جی ہاں ۔ اس نے مجھ پرفلاں فلاں ظلم کیا، حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم نے اپنے ظلم کو کیوں نہیں چھوڑ دیاحتی کہ توقیامت کے دن اسے بڑھاچڑھاکرلے آتا۔
(الجامع :معمر بن أبی عمرو راشد الأزدی مولاہم، أبو عروۃ البصری، نزیل الیمن (۱۱:۱۸۰)

غیرمستحق کو گالی دی جائے توعود کرتی ہے

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مِنَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ قَالُوا:یَا رَسُولَ اللہِ، وَہَلْ یَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ:نَعَمْ یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالیاں دے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہﷺ!کوئی شخص اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتاہے ؟ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ وہ کسی کے باپ کو گالیاں دے اوروہ پلٹ کراس کے باپ کوگالی دے ، اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اوروہ اس کی ماں کو گالی دے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۹۲)

اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اللہُمَّ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ فَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ سَبَبْتُہُ، أَوْ جَلَدْتُہُ،أَوْ لَعَنْتُہُ، فَاجْعَلْہَا لَہُ زَکَاۃً، وَأَجْرًا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا : میں بھی ایک انسان ہوں اورمیں نے اللہ تعالی سے یہ وعدہ لے رکھاہے کہ میرے منہ سے کسی مسلمان کے متعلق سخت کلمات نکل جائیں تووہ اسکے لئے باعث تزکیہ اوراجروثواب بن جائے ۔
(مسند أبی یعلی:أبو یعلی أحمد بن علی بن المثُنی بن یحیی بن عیسی بن ہلال التمیمی، الموصلی (۴:۱۸۴)

کیاہرایک کوگالی دیناحرام ہے ؟

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: مسلمان کو گالی دیناگناہ ہے اوراس کے ساتھ جنگ کرناکفرہے۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۸۱)
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ مسلمان کوگالی دیناگناہ ہے ۔ اورباقی رہاکافراورگستاخ اس کو گالی دینے کی ممانعت پر کوئی حدیث شریف موجود نہیں ہے ۔
گمراہ اوربے دین کو شیطان کہناجائز ہے

امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی سے سوال ہواکہ ہرکسی کوشیطان کہیں ، یہ حلال ہے یاحرام ؟

آپ رحمہ اللہ تعالی جواب دیتے ہیںکہ گمراہ اوربددین کو شیطان کہاجاسکتاہے ، اوراسے بھی جو لوگوں میں فتنہ پردازی کرے ، ادھرکی ادھرلگاکرفساد ڈلوائے ، جوکسی کو گناہ کی ترغیب دے کرلے جائے وہ اس کاشیطان ہے اورمومن صالح کو شیطان کہناشیطان ہی کاکام ہے ۔
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاحنفی ( ۱۳: ۶۵۶)

جوگالی دے اس کودیناجائز ہے
عَنْ عُمَرَ، مَوْلَی غُفْرَۃَ أَنَّ عَبْدَ الْحَمِیدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَیْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، کَانَ عَلَی الْکُوفَۃِ فِی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ فَکَتَبَ إِلَی عُمَرَ: إِنِّی وَجَدْتُ رَجُلًا بِالْکُنَاسَۃِ سُوقٌ مِنْ أَسْوَاقِ الْکُوفَۃِ یَسُبُّکَ وَقَدْ قَامَتْ عَلَیْہِ الْبَیِّنَۃُ فَہَمَمْتُ بِقَتْلِہِ أَوْ بِقَطْعِ یَدِہِ أَوْ لِسَانِہِ أَوْ جَلْدِہِ ثُمَّ بَدَا لِی أَنْ أُرَاجِعَکَ فِیہِ، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ:سَلَّامٌ عَلَیْکَ أَمَّا بَعْدُ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ قَتَلْتَہُ لَقَتَلْتُکَ بِہِ وَلَوْ قَطَعْتَہُ لَقَطَعْتُکَ بِہِ وَلَوْ جَلَدْتَہُ لَأَقَدْتُہُ مِنْکَ فَإِذَا جَاء َ کِتَابِی ہَذَا فَاخْرُجْ بِہِ إِلَی الْکُنَاسَۃِ فَسُبَّ الَّذِی سَبَّنِی أَوِ اعْفُ عَنْہُ فَإِنَّ ذَلِکَ أَحَبُّ إِلَیَّ فَإِنَّہ لَا یَحِلُّ قَتْلُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِسَبِّ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ إِلَّا رَجُلٌ سَبَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنْ سَبَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَلَّ دَمُہُ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبدالمجیدبن عبدالرحمن بن زید بن خطاب رضی اللہ عنہم حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی جانب سے کوفہ میں گورنرمقررتھے۔ توانہوںنے حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کو خط لکھاکہ کوفہ کے ایک کناسہ نامی بازارمیں ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کوگالیاں دے رہاتھااوراس پرجرم ثابت بھی ہوگیاتومیںنے سمجھاکہ یاتواسے قتل کردوں یااس کی زبان کاٹ دوں یاکوڑے ماروں۔ لیکن پھرسوچاکہ پہلے آپ سے پوچھ لوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھاکہ اگرتم اس کوقتل کرتے یازبان کاٹ دیتے یاکوڑے مارتے تومیں تم کو بھی یہی سزادیتالھذاکناسہ کی طرف جائواوراسے بھی گالی دے دو!یااس کو معاف کردو!اورمعاف کرناہی مجھے محبوب ہے۔ مسلمانوں میں سے کسی کو گالی دینے کی وجہ سے کسی کوقتل کرناحلال نہیں ہوجاتامگرجو شخص جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی کرے اس کاخون حلال ہوجاتاہے ۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۸:۳۱۹)

جوگالی دے اس کو گالی دینے کے جواز کابیان

. وَکَذَلِکَ لَہُ أَنْ یَسُبَّہُ کَمَا یَسُبُّہُ: مِثْلُ أَنْ یَلْعَنَہُ کَمَا یَلْعَنُہُ أَوْ یَقُولُ:قَبَّحَک اللَّہُ فَیَقُولُ: قَبَّحَک اللَّہُ أَوْ: أَخْزَاک اللَّہ فَیَقُولُ لَہُ: أَخْزَاک اللَّہُ أَوْ یَقُولُ:یَا کَلْبُ، یَا خِنْزِیرُ، فَیَقُولُ:یَا کَلْبُ، یَا خِنْزِیرُ، لا حرج علیک أن تسب من سبک، وتشتم من شتمک، فقد قال تعالی:فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ (البقرۃ: ۱۹۴)وقال:وَجَزَاء ُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ (الشوری:۴۰)
ترجمہ :الشیخ ابن تیمیہ المتوفی : ۷۲۸ھ) لکھتے ہیں کہ اوراسی طرح اس بندے کے لئے جائز ہے کہ وہ گالی دینے والے کو گالی دے لے اورلعنت کرنے والے پرلعنت بھی بھیجے یہ بھی اس کے لئے جائز ہے یاوہ کہے کہ قبحک اللہ تویہ بھی کہے کہ قبحک اللہ یاوہ کہے کہ اخزاک اللہ ( اللہ تعالی تجھے ذلیل کرے ) تویہ بھی کہے کہ اخزاک اللہ ( اللہ تعالی تجھے ذلیل کرے )یاوہ کہے کہ اے کتے !اے خنزیر!تو بھی اس کو کہے کہ اے کتے اوراے خنزیر!۔
اوراس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تواس کو گالی دے جس نے تجھے گالی دی اوراس کو براکہہ جس نے تجھے براکہاہے کیونکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ جو تم پر تعدی ( ظلم کرے) تم بھی اس پر کرومگراتناجتنااس نے کیا۔اوراسی طرح دوسرے مقام پرفرمایاکہ برائی کابدلہ برائی ہے ، ہاں معاف کردوتواس کااجراللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے ۔
(الفتاوی الکبری :تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام ابن تیمیۃ الحنبلی الدمشقی (۲:۴۰۹)

Leave a Reply

%d bloggers like this: