یہ کہنا کہ میت کا کھانا کھانے سے دل مردہ ہوتا ہے کیسا ہے ؟

یہ کہنا کہ میت کا کھانا کھانے سے دل مردہ ہوتا ہے کیسا ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ میت کی فاتحہ کا کھانا گھر والے کھا سکتے ہیں یا نہیں، اور یہ کہنا کہ میت کا کھانا کھانے سے دل مردہ ہوتا ہے کیسا ہے ۔ بینوا وتوجروا؟

المستفتی:خلیل احمد ولد طالب حسین، الال تھنہ منڈی، ضلع راجوری، جموں و کشمیر

باسمه تعالي وتقدس

الجواب بعون الملك الوهابـــــــــــــــــ

میت کے گھر والے اگر مالدار ہوں تو انہیں میت کی فاتحہ کا کھانا نہ کھانا چاہیے بلکہ بہتر یہ ہے کہ مساکین کو دیدیں ۔ لیکن اگر کھالیں تو حرج نہیں ۔ اور اگر وہ لوگ خود ہی محتاج ہوں تو پھر آپ کھائیں اور اپنے بیوی بچوں کو کھلائیں ۔

فتاوی رضویہ شریف میں ہے
"فاتحہ کا کھانا بہتر یہ ہے کہ مساکین کو دے ۔ اور اگر خود محتاج ہے تو آپ کھالے ، اپنے بیوی بچوں کو کہلائے سب اجر ہے” ۔ ( ج۴ ص ۲۱۸ )

اور رہی یہ بات کہ میت کا کھانا کھانے سے دل مردہ ہوتا ہے تو یہ صحیح ہے ۔ لیکن دل مردہ اس شخص کا ہوتا ہے جو میت کا کھانا کھانے کی آرزو رکھے رہتا ہے ۔ جو شخص اس طرح کی آرزو نہیں رکھتا اس کا دل ایسے کھانے سے مردہ نہیں ہوتا ۔

اعلحضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ، سے اسی طرح کا ایک استفتا ہوا کہ مقولہ طعام الميت يميت القلب مستند قول ہے؟ اگر مستند ہے تو اس کے کیا معنی ہیں ۔ تو آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں "یہ تجربہ کی بات ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طعام میت کے متمنی رہتے ہیں ان کا دل مرجاتا ہے ۔ ذکر و طاعت الہی کے لیے حیات وچستی اسمیں نہیں رہتی کہ وہ اپنے پیٹ کے لقمہ کے لئے موت مسلمین کے منتظر رہتے ہیں ۔ اور کھانا کھاتے وقت موت سے غافل اور اس کی لذت میں شاغل”

(فتاوی رضویہ ج۴ ص۲۲۳ )

واللہ تعالی اعلم بالصواب ۔

کتبـــــــــــــــــــہ : محمد ارشاد رضا علیمی غفرلہ۔
۱۱/رمضان المبارك ۱۴۴۱ ھ بمطابق ۵/مئی ۲۰۲۰ء

الجواب صحيح
محمد اسلم رضا مصباحی عفی عنہ، مرکزی دارالافتا صوبہ جموں

Leave a Reply