کیا میت کا کھانا مالدار اور دوست و احباب کو کھلانا جائز ہے ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے گاؤں کے ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ میت کے نام پر جو کھانا یا چنا ایصال ثواب کیا جاتا ہے اس کا کھانا صرف فقراء کے لئے ہے. امیر یا بھائی، پٹی دار، دوست و احباب کا کھانا جائز نہیں ہے، جو کھلائے گا گناہگار ہوگا اور کھانے والا بھی گناہ گار ہوگا. جب پوچھا گیا تو بتایا کہ بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ ” کھانا ناجائز ہے” اور اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اغنیاء کے لیے کھانا ناجائز ہے. اور دوسری کتاب نصرت الاصحاب میں ملک العلماء سید ظفر الدین صاحب قبلہ بہاری نے تحریر فرمایا ہے کہ ایصال ثواب کے لئے جو لوگ کھانا وغیرہ پکاکر کھلاتےہیں لوگوں کو تو یہ میت کی طرف سے صدقہ ہے. چاہیے کہ صرف فقراء کو دیا جائے لیکن متعارف ہے کہ دوست و احباب اعزاء واقارب سب کھاتے سب کو کھلاتے ہیں. جواب اس کا یہ ہے کہ یہ صدقہ واجبہ نہیں جو فقراء کے ساتھ خاص ہو اغنیاء کے لئے ناروا بلکہ صدقہ نافلہ ہے اور کار خیر.
مشکات شریف باب المعجزات میں ایک حدیث ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ خود بنفس نفیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی طعام میت میں شریک ہوئے تو اگر یہ ناجائز ہوتا یا قابل اعتراض ہوتا تو خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز شریک نہ ہوتے. اور حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان صاحب قبلہ نے ١٩٨٦ء ماہنامہ سنی دنیا میں تحریر فرمایا ہے کہ امیر غریب دوست و احباب رشتہ دار، پٹی دار کو کھلانا جائز ہے اور کار ثواب ہے.
لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ کس کے قول پر عمل کریں. قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عطا فرمائیں تاکہ آپسی اختلاف ختم ہو سکے. بینوا و توجروا
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میت کا کھانا امیر غریب سب کے لیے جائز ہے کہ یہ صدقہ نافلہ ہے صدقہ واجبہ نے مگر اس کھانے کی دعوت ناجائز ہے. شامی جلد اول صفحہ 629 میں ہے ” یکرہ اتخاذالضیافۃ من الطعام من اھل البیت لانہ شرع فی السرور لا فی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ ١ھ.
اور فتاوی عالمگیری جلد اول صفحہ 176 میں ہے ” لا یباح اتخاذالضیافۃ عند ثلاثۃ ایام کذا فی التتار خانیۃ ” ١ھ.
اور فقیہ اعظم ہند حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کریں تو ناجائز اور بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت. بہار شریعت جلد چہارم صفحہ 169
اس سے واضح ہو گیا کہ بہار شریعت کے حوالے سے گاؤں کے عالم کا یہ کہنا کہ صحیح نہیں کہ امیر، بھائی، پٹی دار اوردوست واحباب کو کھانا جائز نہیں اس لیے کہ بہار شریعت میں تیجہ وغیرہ کی دعوت کو ناجائز لکھا ہے کھانے کو ناجائز نہیں لکھا ہے.
اور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ الرضوان نے فتاوی رضویہ جلد چہارم صفحہ 214 میں جو تحریر فرمایا ہے کہ وہ طعام کہ عوام ایام موت میں بطور دعوت کرتے ہیں یہ ناجائز و ممنوع ہے. لان الدعوۃانما شرعت فی السرور لافی الشرور کما فی فتح القدیر وغیرہ من کتب الصدور. : اغنیاء کو اس کا کھانا جائز نہیں. ١ھ. تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اغنیاء کو بطور دعوت کھانا جائز نہیں. اس لیے کہ اس جملہ کا تعلق ماقبل کی اسی عبارت سے ہے جس میں بطور دعوت کھانے کو ناجائز فرمایا گیا ہے.
اور جب فقہ کی معتبر کتابوں سے یہ ثابت ہو گیا کہ طعام میت کے لیے دعوت نا جائز و ممنوع ہے تو اگر بلا دعوت اغنیاء کو وقت پر بلا کر کھلا دے یا ان کے گھر کھانا بھجوا دے تو امیر کے لیے بھی جائز ہے جیسے کہ عام طور پر لوگ محرم کے مہینہ میں پکا کر بغیر دعوت سب کو کھلاتے ہیں.
اور طعام میت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت بطور دعوت نہیں تھی ورنہ فقہائے کرام نے اس کے خلاف فتوی نہیں دیتے. اور حضرت علامہ ازہری میاں صاحب قبلہ کے فتوی کا بھی یہی مطلب ہے کہ میت کا کھانا کھلانا بلا دعوت سب کو جائز ہے.
واللہ تعالی اعلم ۔
کتبــــــــــــــہ : محمد ابرار احمد مجددی برکاتی
الجواب صحیح : مفتی جلال الدین احمد امجــدی