زیرِتعمیرمسجدکی چھت اورفرش کاحکم
صورت مسئولہ:(۱) مسجد کا فرش، صحن اور سائبان کا حصہ کب مسجد کا حصہ ہوتا ہے۔ لوگ زیرِ تعمیر مساجد میں سائبان کے اندرونی حصے تک جوتا، چپل پہن کر چلتے ہیں۔اس کے متعلق کیاحکم ہے؟
(۲)زیرِ تعمیر مساجد کی چھت پر بھی جوتا، چپل پہن کر چلتے ہیں، کیا مسجد کی چھت کا حصہ مسجد نہیں ہوتا؟ کیا ایسا درست ہے؟
المستفتی :ضیاء الحسن، پرانی بستی ،مبارک پور
حکم شرعی:(۱۔ الف) جو جگہ نماز کے لیے خاص اور وقف ہے وہاں ایک بار نماز پڑھ لینے سے وہ جگہ شرعاً مسجد ہو جاتی ہے۔ یہ مذہب امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے۔ اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ مسجد بنا کر علما کے ذریعے نمازِ باجماعت سے اس کا افتتاح کرتے ہیں اس لیے اب کوئی جگہ مسجد اسی طور پر ہوتی ہے یہ فی الواقع مذہبِ امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر عمل ہے۔ ہاں یہ نماز مسنون طور پر اذان واقامت کے ساتھ ہونی شرط ہے اب خواہ جماعت کے ساتھ یہ نماز ہویا کوئی شخص تنہا پڑھ لے بہر حال مسجد شرعاًمسجد ہوجائے گی۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:
ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل وبقولہ ’’جعلتہ مسجداً‘‘ عند الثانی وشرطا محمد والامام الصلاۃ فیہ بجماعۃ وقیل : یکفی واحد وجعلہ الخانیۃ ظاہر الروایۃ۔ اھ
رد المحتار میں ہے:
(قولہ بجماعۃ) لانہ لابد من التسلیم عندہا وتسلیم کل شی بحسبہ واشتراط الجماعۃ لانہا المقصودۃ من المسجد ولذا شرط أن تکون جہرا بأذان واقامۃ الالم یصر مسجداً قال الزیلعی: وہذہ الروایۃ ہی الصحیحۃ وقال فی الفتح: ولو اتحد الامام والمؤذن وصلی فیہ وحدہ صار مسجداً بالاتفاق لان الاداء علیٰ ہذا الوجہ کالجماعۃ اھ۔
ترجمہ: اور واقف کی ملکیت مسجد اور عیدگاہ سے مسلمانوں کے نماز پڑھ لینے سے بالاتفاق ختم ہوجائے گی اور امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ کہنے سے بھی کہ ’’میں نے اسے مسجد کیا‘‘ امام اعظم اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی شرط رکھی ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ ایک شخص کا (واقف کے علاوہ) پڑھ لینا بھی کافی ہے۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ یہ قول ظاہر الروایہ ہے (اور اسی پر متونِ مذہب جیسے کنز وملتقیٰ وغیرہما بھی ہیں۔ در مختار ۵۴۶؍۶)
امامِ اعظم اور امامِ محمد علیہما الرحمۃ والرضوان کے نزدیک بھی نماز باجماعت کی شرط اس لیے ہے کہ واقف کی طرف سے مسجد مسلمانوں کے حوالے ہوجائے اور جماعت کی شرط اس لیے ہے کہ مسجد سے مقصود یہی ہے یہی وجہ ہے کہ ا علانیہ اذان واقامت کے ساتھ نماز پڑھنا شرط ہے ورنہ وہ جگہ مسجد نہ ہوگی۔ زیلعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی روایت صحیح ہے۔ فتح القدیر شرحِ ہدایہ میں ہے اگر ایک شخص نے اذان واقامت کے ساتھ نماز پڑھ لی تو بھی وہ جگہ بالاتفاق مسجد ہوجائے گی کیوں کہ اس طور پر نماز کی ادائیگی جماعت ہی کے حکم میں ہے۔ (ردالمحتار معروف بہ شامی: ص؍۵۴۶، ج؍۶، کتاب الوقف مطلب فی احکام المسجد)
اس تفصیل کی روشنی میں عزیز المساجدضرور شرعی مسجد ہے اس کا حرم (اندرونی حصہ) بھی اور اس کا سائبان وغیرہ بھی۔ یوں ہی اس کا فرش اور چھت بھی۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(ب) عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ میں مسجد میں جوتے پہنے ہوئے جانابے ادبی نہیں تصور کیا جاتا تھا لیکن اب عرصۂ دراز سے مسلمانوں کا عرف عام یہ ہے کہ مسجد میں جوتا پہنے داخل ہونا بے ادبی ہے۔ اس بارے میں امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان نے اختصار کے ساتھ نفیس تحقیق وتنقیح فرمائی ہے جو انہیں کے الفاظ میں یہ ہے:
’’مسجد میں جوتا پہن کر جانا خلافِ ادب ہے۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے : دُخُوْلُ الْمَسْجِدِ مُتَنَعِّلًا سُوْئُ الاَدَبِ‘‘ ادب کی بنا عرف ورواج ہی پر ہے اور وہ اختلاف زمانہ اور ملک وقوم سے بدلتا ہے۔ عرب میں باپ سے اَنْتَ کہہ کر خطاب کرتے ہیں یعنی تو، زمانۂ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں بھی یوں ہی خطاب ہوتا تھا۔ سیدنا اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے والدِ ماجد شیخ الانبیاء خلیلِ کبریا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی ’’اے میرے باپ تو کر جس بات کا تجھے حکم دیا جاتا ہے‘‘ اب اگر کوئی بے ادب اسے حجت بنا کر اپنے باپ کو توتو کہا کرے، ضرور گستاخ مستحقِ سزا ہے۔ نماز حاضریِ بارگاہِ بے نیاز ہے کسی نواب کے دربار میں تو آدمی جوتا پہن کر جائے۔ یہ تو ادب کا حکم ہے اور آج کل لوگوں کے جوتے صحابہ کرام کے جوتوں کی طرح نہیں ہوتے۔ (فتاویٰ رضویہ: ص:۴۵۰ ج؍۳)
ہاں! جب مسجد زیر تعمیر ہو، فرش کچا، نیچا اونچا ہوتو ہمارے دیار کاعرف یہ ہے کہ لوگ کچھ اندر تک جوتے پہنے چلے جاتے ہیں اور اسے بے ادبی یا معیوب نہیں سمجھا جاتایہ عرف علما وعوام سب کا ہے اس لیے موجودہ حالات میں جب کہ عزیز المساجد زیر تعمیر ہے اور اس کا آنگن کا فرش اونچا اور نیچا ہے جس میں جابجا اینٹ کے ٹکڑے بھی ابھرے ہوئے ہیںتو اس کے حدود میں پاک صاف جوتے، چپل، پہن کر جانے کی اجازت ہے۔ خاص کر اس صورت میں کہ دروازے سے لے کر اندرونی سائبان تک آنگن کا حصہ کافی وسیع ہے دروازے پر جوتے، چپل نکالنے کا حکم دے دیا جائے تو حرمِ مسجد تک پہنچتے پہنچتے پیروں میں کافی مٹی وغیرہ لگ جائے گی جس سے مسجد روزانہ کافی آلودہ ہوگی کیوں کہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ نماز پڑھتے ہیں اور جولوگ وضو خانے پر وضو بنا کر فوراً مسجد میں جائیںگے ان کے ساتھ تو کافی مٹی بلکہ کیچڑ بھی جاسکتی ہے۔ اس سے ایک تو روزانہ مسجد باہر کی مٹی سے ملوث ہوتی رہے گی جس کی بار بار صفائی میں حرج ہے اور وہ پتھر پر چپک جائے تو روزانہ اس کی دھلائی بھی مشقت کی باعث ہے۔ نمازیوں کے پاؤں کو راستے کی اینٹ سے تکلیف پہونچ سکتی ہے۔ ان سب مشقتوں سے بچنے اور اس دیار کے عرف میں بے ادبی نہ سمجھے جانے کی بنا پر تعمیر کے دوران آنگن میں صاف پاک جوتے چپل پہن کر آنے جانے کی اجازت ہے۔ ہاں! آنگن سے آگے بڑھنا ممنوع ہے کہ اس کے بعد کا علاقہ مسلمانوں کی سجدہ گاہ ہے اور اس علاقے میں جانے کا عرف بھی نہیں اور وہاں چٹائی بچھادی جائے تو آلودگی بھی نہ ہوگی اتنی چٹائی میسر بھی ہے لہٰذا جوتے چپل پہنے ہوئے سائبان کے حدودد میں جانا بے ادبی وممنوع ہے۔ خدا ئے پاک اس پر سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین واللہ تعالیٰ اعلم۔
(۲) مسجد کی چھت کا حصہ بھی مسجد ہے بلکہ اوپر آسمان کے کنارے تک مسجد کا حکم ہے اور جو ادب فرشِ مسجد کا ہے اس سے زیادہ ادب چھت کا ہے کیوں کہ فقہاے کرام فرماتے ہیں کہ نیچے جب تک مسجد بھر نہ جائے اوپر چھت پر جانا مکروہ ہے اگرچہ گرمی سخت ہو اور اس سے بچنے کے لیے جائے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔: الصعود علیٰ سطح کل مسجد مکروہ ولہٰذا اذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ الا اذا ضاق المسجد فحینئذٍ لایکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ۔ کذا فی الغرائب اھ ہر مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ ہے لہٰذا جب گرمی سخت ہوتو بھی چھت پر جماعت سے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ ہاں مسجد نمازیوں سے تنگ ہوجائے تو اس ضرورت ومجبوری کی وجہ سے چھت پر چڑھنے کی اجازت ہے۔ ایسا ہی غرائب میں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری: ص؍۳۲۲، ف۵)