مسجد میں دنیاوی تعلیم اجرت پر دینا کیسا ہے؟
الجواب بعون الملک الوہاب:
مسجد میں اجرت پر دنیاوی تعلیم دینا جائز نہیں ہے ۔
چنانچہ قاضی محمد عبدالرحیم بستوی رحمة الله علیہ اپنے فتوی میں لکھتے ہیں :
"اور دنیاوی تعلیم مسجد میں دینا بھی جائز نہیں ہے۔“
(فتاوی بریلی شریف صفحہ 69 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"مسجد میں تعلیم بشرائط جائز ہے :
1- تعلیم دین ہو ۔
2 ۔ معلم سنی صحیح العقیدہ ہو، نہ وہابی وغیرہ بد دین کہ تعلیمِ کفر وضلال کرے گا۔
3- (معلم) بلا اجرت تعلیم کرے کہ اجرت سے کارِ دنیا ہوجائے گی۔
4- ناسمجھ بچے نہ ہوں کہ مسجد کی بےادبی کریں۔
5- جماعت پر جگہ تنگ نہ ہو کہ اصل مقصد مسجدِ جماعت ہے۔
6- غل شور (یعنی شوروغل) سے نمازی کو ایذا نہ پہنچے۔
7- معلم خواه طالب علم کسی کے بیٹھنے سے قطع صف نہ ہو۔
پھر فرماتے ہیں :
گرمی کی شدت وغیرہ کے وقت جبکہ اور جگہ نہ ہو، بضرورت معلم باجرت کو جائز ہے ۔
(فتاوی رضویہ جلد 8 صفحه 116 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور مسجد میں دنیاوی تعلیم اجرت پر دینا گویا مسجد کو ٹیوشن سنٹر یا اکیڈمی بنانا ہے اور یہ مسجد کے مقصد کے خلاف ہے کہ مسجدیں تو اللہ کے ذکر اور عبادت کے لئے بنائی گئی ہیں، لہذا مسجد میں دنیاوی تعلیم دینا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں۔
چنانچہ بحرالرائق میں ہے:
"قالوا و لا يجوز أن تعمل فيه (اي في المسجد) الصنائع لانه مخلص لله تعالى فلا يكون محلا لغير العبادة”
یعنی فقہاء نے فرمایا : کہ مسجد میں کوئی عمل جائز نہیں یعنی کوئی کاروبار جائز نہیں کیونکہ وہ خالصةً الله تعالی کیلئے بنائی گئی ہوتی ہے، تو اب وہ عبادت کے علاوہ کسی دوسری شئے کا محل نہیں بن سکتی ۔
(بحرالرائق، باب مایفسد الصلوة و مایکرہ فيها، جلد دوم صفحہ 35 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
اور فتاوی خلاصہ میں ہے :
"المعلم الذی یعلم الصبیان باجر اذا جلس فی المسجد یعلم الصبیان لضرورۃ الحر وغیرہ لایکرہ”
"وہ استاد جو بچوں کو معاوضہ کے لیے پڑھاتا ہو، اگر گرمی وغیرہ کی وجہ سے مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دے تو مکروہ نہیں ۔
(خلاصة الفتاوی، قبیل کتاب الحیض، جلد اول صفحہ 229 مطبوعہ مکتبہ حبیبہ کوئٹہ)
اور مسجد میں دنیاوی تعلیم اجرت پر دینا ایک دنیاوی کام ہے اور مسجد دنیاوی کاموں کے لیے جائز نہیں ہے.
اعلی حضرت رحمۃ الله علیہ ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں :
دنیا کی باتوں کے لیے مسجد میں جا کر بیٹھنا حرام ہے۔
اشباہ و نظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایا :
"مسجد میں دنیا کا کلام نیکیوں کو ایسا کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 112 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایک اور مقام پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فنائے مسجد میں اجرت پر تعویز دینے کو ناجائز لکھا ہے۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
عوض مالی پر تعویز دینا بیع ہے اور مسجد میں بیع و شراء (یعنی خرید وفروخت) ناجائز ہے اور حجرہ فنائے مسجد ہے اور فنائے مسجد کے لیے مسجد کا حکم”.
(فتاوی رضویہ جلد 8 صفحہ 95 ،96 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات اور فتاوی کی روشنی میں معلوم ہوا کہ مسجد میں اجرت پر دنیاوی تعلیم دینا ناجائز و گناہ ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : مفتی ابواسیدعبید رضا مدنی