محراب داخل مسجد ہے مسجد میں اذان مکروہ ہے
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ محراب مسجد داخل مسجد ہے یا خارج مسجد اور اذان اگر داخل مسجد میں دی جائے تو ہوگی یا نہیں؟ اور اگر محراب مسجد میں اذان کہی جائے تو اسکا کیا حکم ۔ برائے کرم جواب عمایت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے۔
سائل:سفیان قادری
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
١ ) مسجد کا محراب داخل مسجد ہے۔
ردالمحتار میں ہے "ﻓﻲ اﻟﻮﻟﻮاﻟﺠﻴﺔ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﻀﻖ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﺑﻤﻦ ﺧﻠﻒ اﻹﻣﺎﻡ ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﻟﻪ ﺫﻟﻚ ﻷﻧﻪ ﻳﺸﺒﻪ ﺗﺒﺎﻳﻦ المکانین اﻧﺘﻬﻰ. ﻳﻌﻨﻲ ﻭﺣﻘﻴﻘﺔ اﺧﺘﻼﻑ اﻟﻤﻜﺎﻥ ﺗﻤﻨﻊ اﻟﺠﻮاﺯ ﻓﺸﺒﻬﺔ اﻻﺧﺘﻼﻑ ﺗﻮﺟﺐ اﻟﻜﺮاﻫﺔ والمحراب ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﺼﻮﺭﺗﻪ ﻭﻫﻴﺌﺘﻪ اﻗﺘﻀﺖ ﺷﺒﻬﺔ اﻻﺧﺘﻼﻑ اﻩـ ﻣﻠﺨﺼﺎ. قلت ﺃﻱ ﻷﻥ المحراب ﺇﻧﻤﺎ ﺑﻨﻲ ﻋﻼﻣﺔ لمحل ﻗﻴﺎﻡ اﻹﻣﺎﻡ ﻟﻴﻜﻮﻥ ﻗﻴﺎﻣﻪ ﻭﺳﻂ اﻟﺼﻒ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ اﻟﺴﻨﺔ ﻻ ﻷﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﻓﻲ ﺩاﺧﻠﻪ ﻓﻬﻮ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺑﻘﺎﻉ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻟﻜﻦ ﺃﺷﺒﻪ ﻣﻜﺎﻧﺎ ﺁﺧﺮ ﻓﺄﻭﺭﺙ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻭﻻ ﻳﺨﻔﻰ ﺣﺴﻦ ﻫﺬا اﻟﻜﻼﻡ ﻓﺎﻓﻬﻢ”
(ردالمحتار،ج٢،ص٥٠٠)۔
ولوالجیہ وغیرہ میں ہے جب امام کے پیچھے والے نمازیوں کے لئے مسجد تنگ نہ ہو تو امام کو محراب میں قیام نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ دو جگہوں کے الگ الگ ہونے کا شبہ پیدا کرے گا انتہی ۔ یعنی مکان کا حقیقۃً اختلاف جوازِ نماز سے مانع ہے اور جہاں اختلافِ مکان کا شبہ ہو وہاں کراہت ہو گی اور محراب اگرچہ مسجد ہی سے ہے مگر محراب کی صورت اور ہیئت اختلافِ مکان کا شُبہ پیدا کرتی ہے۔ اھ ملخصا۔
میں(شامی) کہتا ہوں محراب کا مقصد یہ ہے کہ وہ قیام امام کی علامت ہو تاکہ اس کاقیام صف کے درمیان ہو جیسا کہ یہ سنت ہے یہ مقصد نہیں کہ امام محراب کے اندرکھڑا ہو۔ تو محراب اگرچہ مسجد کاہی حصہ ہے لیکن ایک دوسرے مقام کے مشابہ ہے لہٰذا اس سے کراہت ہوگی۔ اس کلام کاحسن واضح ہے اسے اچھی طرح محفوظ کرو۔
٢) مسجد میں اذان مکروہ ہے ہرگز نہ دی جاے لیکن اگر مسجد میں اذان دی تو ہوجاے گی۔
فتاوی رضویہ میں ہے "ہمارے علمائے کرام نے فتاوٰی قاضی خان و فتاوٰی خلاصہ و فتح القدیر و نظم و شرح نقایہ برجندی وبحرالرائق و فتاوٰی ہندیہ وطحطاوی وعلی مراقی الفلاح وغیرہا میں تصریح فرمائی کہ مسجد میں اذان دینی مکروہ ہے
فتاوٰی خانیہ میں ہے” ینبغی ان یؤذن علی المئذنۃ اوخارج المسجد ولایؤذن فی المسجد۔(فتاوٰی قاضی خاں مسائل الاذان،۱/۳۷)
بعینہ یہی عبارت فتاوٰی خلاصہ و فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے۔
فتح القدیر میں ہے” الاقامۃ فی المسجد لابد وأما الاذان فعلی المئذنۃ فان لم یکن ففی فناء المسجد وقالولایؤذن فی المسجد۔(فتح القدیر باب الاذان، ۱ /۲۱۵)
نیز خودباب الجمعہ میں فرمایا "ھو ذکراﷲ فی المسجد ای فی حدودہ لکراھۃ الاذان فی داخلہ۔(فتح القدیر باب الجمعۃ، ۲/ ۲۹)
شرح مختصرالوقایہ للعلامۃ عبدالعلی میں ہے فی ایرادالمئذنۃ اشعاربان السنۃ فی الاذان ان یکون فی موضع عال بخلاف الاقامۃ فان السنۃ فیھا ان تکون فی الارض وایضافیہ اشعاربانہ لایؤذن فی المسجد فقد ذکرفی الخلاصۃ انہ ینبغی الخ۔(شرح النقایہ للبرجندی باب الاذان، ۱/۸۴)
بحرالرائق میں ہے "فی القنیۃ یسن الاذان فی موضع عال والاقامۃ علی الارض وفی المغرب اختلاف المشائخ اھ والظاھر انہ یسن المکان العالی فی اذان المغرب کما سیأتی وفی السراج الوھاج ینبغی ان یؤذن فی موضع یکون اسمع للجیران وفی الخلاصۃ ولایؤذن فی المسجد اھ مختصرا۔(بحرالرائق باب الاذان،۱ /۲۵۵)
اسی میں بعدچند ورق کے ہے "السنۃ ان یکون الاذان فی المنارۃ والاقامۃ فی المسجد۔(بحرالرائق باب الاذان،۱ /۲۶۱)
حاشیہ طحطاوی میں ہے”یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم فان لم یکن ثمہ مکان مرتفع للاذان یؤذن فی فناء المسجد کما فی الفتح۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح باب الاذان،ص۱۰۷)۔
(فتاوی رضویہ،ج٨،ص٤٩٩، ٥٠٠)
٣۔محراب مسجد وہ طاق ہے جو دیوار قبلہ کے درمیان میں بنتا ہے اور اس میں کھڑے ہوکر نہ ہی اذان دینا ممکن اور ہی نہ جائز لانہ من المسجد و یکرہ الاذان فی المسجد کما سمعت۔
فتاوی رضویہ میں ہے "محرابِ مسجد وہ طاق ہے کہ دیوارِ قبلہ کے وسط میں بنتا ہے اس میں اذان ہونے کے کوئی معنی نہیں نہ اس میں محاذاتِ خطیب ہو اور منتہائے درجہ جانب شرق پر جو دَر بنتے ہیں یہ محراب نہیں ان کو ”بین الساریتین” کہتے ہیں” (ج٥، ص٤٠٩)۔
واللہ تعالی اعلم
مفتی شان محمد المصباحی القادری
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ
٩ اکتوبر ٢٠٢٠